طاہرہ اقبال کی’نیلی بار(4)-راجہ قاسم محمود

ڈاکٹر طاہرہ اقبال صاحبہ کے اس اقتباس سے ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا مکمل اور بھرپور چہرہ سامنے آ جاتا ہے اور دن بدن حالات مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔ یہ آزاد الیکٹرانک میڈیا جس طرح سامراج اور مقتدر اشرافیہ کا محافظ بن کر ابھرا ہے اب اکثریت کو نظر آ رہا ہے۔ اس کی آزادی کے نام پر غیر ذمہ داری اور سنسنی پیدا کرنا کوئی ڈھکا چھپا نہیں بلکہ اب تو پچھلے چند سالوں سے جس طرح سے یہ ظالموں کا دست و بازو بن کر سامنے آیا ہے۔ اس سے اس کی وقعت مزید گر گئی ہے۔ ایسے سامراجی آلہ کار جو کہ ظالم کے اشاروں پر ناچے کی وقعت گرنا یقیناً اللہ تعالیٰ کے انعام سے کم نہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے بھی ڈاکٹر طاہرہ اقبال صاحبہ نے بہت اہم باتیں لکھی ہیں جن کا مخاطب براہ راست پاکستان کے اصل حاکم یعنی کہ اسٹبلشمنٹ ہے۔ کچھ اقتباسات اس حوالے سے دیکھیں
“محاذ اور بیرکوں سے نکل کر یہ خود کو Ordinary بنانے پر کیوں تل گئے ہیں؟ ان کا سحر تو فاصلوں نے قائم کر رکھا تھا جو چھاؤنیوں سے نکل کر شہر کی سڑکوں پر کھو دیا گیا۔ اپنے ہی شہروں کو فتح کرنے، اپنے ہی شہریوں کو مات دینے کے لیے انہیں دشمن کی نسبت کس قدر زیادہ تگ و دو کرنا پڑ رہی تھی ۔جن کے محافظ ہیں، انہی کوتاہ قد، نحیف و نزار عامیوں کے مقابل جھونک دیئے گئے ہیں جیسے ان بہادر مضبوط لشکریوں سے بے پر چونٹیوں کو مسلنے کا کام لیا جا رہا ہو۔ لیکن اب ان چونٹیوں کے برسات کے بعد والے پر نکل ائے تھے وہ بوٹوں کے تلووں تلے کچلے جانے کی بجائے بوٹوں کے اندر گھس رہے تھے جیسے ہاتھی کی سونڈ میں چونٹی، جو اسے کسی کل چین نہیں لینے دیتی ”
یہ اقتباس لکھا تو ایوب خان کے دور کے بارے میں تھا لیکن لگتا ہے کہ ڈاکٹر طاہرہ اقبال آج کی بات کر رہی ہے۔
ایک اور اقتباس
“عوام الناس کو راہ راست پر چلانے والے ازلی ہتھیار یعنی خوف اور لالچ دونوں ان کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ جب آسمانی خدا اپنی حاکمیت منوانے کو اسی خوف اور لالچ کے درمیان تمام ضوابط استوار کرتا ہے تو زمینی خداؤں کی راہنمائی کے لیے ہی تو یہ رہنما اصول مرتب ہوتے ہیں۔
جنت کے باغات، دودھ کی نہریں، حور و قصور، ملوں فیکٹریوں کے پرمٹ ،وزارتوں امارتوں کے ہنڈولے ،پیٹرول پمپ، ہاؤسنگ اسکیمیں ،سڑکوں، عمارتوں کے ٹھیکے آخر کار معاف کر دیے جانے والے بھاری قرضے بینکوں کو دیوالیہ کر دینے والے کیسی کیسی جنتی ترغیبات، کوئی دامن بچائے تو کیسے، رد انکار کی جرات کرنے والوں کے لیے شاہی قلعے ،اڈیالہ جیلیں، اٹک کے عقوبت خانے جبڑے کھولے تیار تعزیرات سے بھری فائلیں، عدالتیں جن میں بیٹھے قاضی انہی اکڑی کریزوں اور بھاری مقدس وردیوں میں ملبوس خدائی تعزیرات پر عمل درآمد کرانے والے گرز بردار فرشتے جہنم دہکائے ہوئے، روم روم داغنے والے لالچ اور خوف کے بیچ بولیاں جو لگیں تو بے انت لگیں مال جو پکنے کو آیا تو کساد بازاری پڑ گئی۔ ہر ایک ترازو کے پلڑے میں چڑھ بیٹھا منہ مانگے باٹوں پر تلا۔کبھی کوئی تاریخی سماوی حادثہ جہاں بہت سے نقصانات کا باعث بنتا ہے، کچھ افراد کی زندگی میں خوشحالی اور انقلاب بھی بن جاتا ہے۔ بردہ فروش، جسم فروش، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، ہاس ٹریڈنگ جیسے کتنے منافع بخش کاروباروں کو پروان چڑھاتا ہے”
جس طرح سے ہماری مقتدرہ ہمارے سیاسی ڈھانچے کو کتر بیونت کرتی ہے اور اس کے کیا کیا ذرائع ہوتے ہیں ، یہ اقتباس اس ہی کی تصویر کشی کر رہا ہے۔بالخصوص خوف اور لالچ کے دونوں طریقے ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔
ایک اور اقتباس پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی آج کی بات ہے
“سرحدوں ، محاذوں کی حفاظت کرنے والے جو کبھی آسمانی مخلوق معلوم ہوتے تھے اور عوام کی نگاہوں سے دور کہیں آہین پوش رہا کرتے تھے جو عام نہیں خاص الخاص تھے نو عمر لڑکیوں کے خوابوں کے شہزادے اور لڑکوں کے آئیڈیل۔ ہر دفتر ،یونیورسٹی ، ادارے، سڑکوں، چوراہوں پر جیسے ان کی نمائش لگا دی گئی ہو۔ کتنی لڑکیوں کے معصوم جذبات کو ان کی اس عمومیت نے توڑ پھوڑ دیا ہوگا۔ کتنے لڑکوں نے اپنے آئیڈیل تبدیل کر لیے ہوں گے۔ وہ مخلوق جو خوابوں اور خیالوں میں بستی تھی اب ہر عوامی ادارے میں گھس بیٹھی تھی جنہیں ایک جھلک دیکھنے کے لیے کسی جنگ یا قدرتی آفات کا انتظار کرنا پڑتا تھا جو وطن کی حفاظت، طوفان سیلاب میں گھرے مجبور انسانوں کی مدد کے لیے فرشتوں کی طرح پتہ نہیں کہاں سے اترتے تھے تو بچے بوڑھے جوان تالیاں بجا کر ان کا استقبال کرتے تھے۔ عورتیں بلائیں اتارتی تھیں اور بزرگ ہاتھ چومتے تھے اور تفاخر سے دوسرے کو بتاتے تھے کہ ہم نے انہیں دیکھا جو ہر ایک کو دکھائی نہیں دیتے اس لیے وہ لمحہ زندگی میں بڑا قیمتی ہو جایا کرتا تھا۔ جس میں ان کی شبیہ نمودار ہوئی اور دیکھنے والوں کی بصارتوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی۔ وہی اب بنا کسی جنگ اور آفت کے شہروں اور قصبوں میں پھیل گئے تھے یہ نایاب اور خاص الخاص عام ہو کر اپنا طلسم کھو رہے تھے کیا اس لیے قوم اپنا پیٹ کاٹ کر ان میں آہین بھرتی ہے کہ یہ اپنی بندقوں اور بوٹوں سے انہی عوام کے گھروں اور سڑکوں کو محصور بنا لیں، جس کو چاہیں سنگین کی نوک پر دھڑ لیں؟ یہ سوال زیر زباں تھا.یہ اپنے منصب سے اس قدر نیچے کیوں اتر آئے ہیں؟ ان سے وہ سب کچھ کیوں کروایا گیا جس سے ان کی شخصیت کا طلسم ٹوٹ گیا؟
وہ اس سب پر کیوں فائز ہو گئے جو ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہی نہ تھا۔کتنی زیادتی تھی کہ کارنامے رقم کرنے والے شہادتیں پیش کرنے والے اور تمغے اور ایوارڈ حاصل کرنے والے وردیاں اور بلے سڑکوں اور دفتروں میں خوار ہونے لگے خدا اور دعا کی غیر مرئیت جیسا تصور رکھنے والے اب عوام کو انتہائی عام معلوم ہونے لگے تھے ”
یہ اقتباس پڑھتے ہوئے مجھے پتہ نہیں کیوں آپریشن رجیم چینج اور اس کے بعد جو مقتدر اشرافیہ کا حال ہوا۔ اس کی جھلک نظر آ گئی۔ ہم میں سے کئی لوگوں کے لیے جو لوگ ہیرو کا درجہ رکھتے تھے جن کے اوپر کوئی منفی بات سننے کے ہم روادار نہ تھے۔ انہوں نے اپنا میدان چھوڑ کر جب کسی اصول و ضابطے کو نظر انداز کیا اور وہ ریاست کی بجائے چند لوگوں کے مفادات کے لیے چادر اور چار دیواری کے تقدس تک کو بھول گئے تو پھر آنکھوں پر بٹھائے ان لوگوں کو ہم نے راندہ درگاہ بنتے دیکھا۔
جب پرویز مشرف کا مارشل لاء لگا تو اس وقت کے تاثرات کو مصنفہ نے جن الفاظ میں ذکر کیا وہ لفظ لفظ حقیقت بیان کرتے ہیں
“پیغمبر بھیجنے کا سلسلہ چاہیے روک دیا گیا ہو لیکن اس مملکتِ خداداد پر خلیفہ منتظم بننے کا اختیار ہر کہہ و مہہ تو حاصل نہیں کر سکتا۔اس مقصد کے لیے کچھ خاص افراد بھیجے جاتے ہیں۔ خاص الخاص نائب مقرر ہوتے ہیں۔ یہ وحدہ لا شریک، کلمہ یکتائی یہ ازلی سچ عوام الناس کے دماغوں میں اس طور انڈیل دیا جاتا ہے کہ وہ ان دیکھے خدائے برتر پر یقین کی طرح اس امر پر بھی یقین کرتے ہیں کہ ہر فرد من و تو کے پردے چاک کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔اسی طرح یہ امور جہاں بانی بھی کچھ فوق البشر مرد مومن کا کام ہے جو ہمارے سروں کے اوپر اوپر پرواز کرتے رہتے ہیں ضرورت کے وقت نیچے اترتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں جت جاتے ہیں”
یہ الفاظ ہماری مقتدرہ کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں اور جس طرح وہ حکومتی امور میں مداخلت کرتے ہیں اور عوامی حکومت کو گھر بھیجتے ہیں تو اس کے پیچھے ایسی ہی ذہنیت کار فرما ہوتی اور یہی ہمیں بھی بتایا جاتا ہے۔
جیسے کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ ناول کی کہانی ساٹھ سال تک پھیلی ہوئی ہے تو اس دوران سماجی ڈھانچے میں واقع ہونے والے تغیر کو بھی مصنفہ نے مدنظر رکھا ہے۔ مثلاً جب گاؤں جانے والی سڑک کچی سے پکی ہوتی ہے تو وہ مجموعی طور پر گاؤں کی معاشرت کو تو تبدیل کرتی ہے۔ اب یہاں کجاوے اور ڈاچیوں والے بے روزگار ہو جاتے ہیں طرزِ سواری تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہم نے خود چند سالوں میں اوبر ، کریم اور بائیکایا جیسی سروسز کو دیکھا جس سے ٹیکسی کرنے کا طریقہ بدل گیا۔ اس سے پہلے ٹانگوں کی جگہ رکشوں اور ٹیکسیوں نے لی تھی۔ مصنفہ نے یہ بھی بتایا کہ جدید سہولیات کے ساتھ گاؤں میں سہل پسندی آئی تو ساتھ کئی بیماریاں بھی لائی مثلاً گھٹنوں کا درد کیونکہ پیدل چلنے کا رواج ختم ہو گیا تھا۔ پھر پکی سڑک نے آس پاس کے دیہاتوں کو بھی جوڑ دیا تھا، دیہات بھی شہری معاشرت سے متاثر ہونے لگے ۔ مادہ پرستی نے دیہی کلچر کو متاثر کیا جو لوگ قناعت پسند تھے اب نا شکرے ہو گئے تھے۔ اس پر ڈاکٹر طاہرہ اقبال کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں جنہوں نے اس سماجی تغیر کو بہت عمدگی سے ذکر کیا ہے
“شہری ترغیبات نے صبر اور قناعت کے پاٹ کھسکا دئیے تھے۔اب روٹی پر کوٹی ہوئی مرچ دھر ،سی سی کھانا، نئی نسل کو مزہ نہ دیتا تھا۔ سالن کا ذائقہ منہ کو لگ گیا تھا۔ کتنی نسلوں نے اپنے ننگے پیر پینڈوں میں ہنڈائے۔ اگر جوتی میسر بھی ہوئی تو بس وانڈے گئے،شریکے برادری میں ہی پہنی،چلتے وقت عورتیں جوتی سر پر دھر چلتیں تو مرد بغل میں دبا کر، لیکن اب تو لوگ گاؤں کے اندر بھی جوتا پہن کر چلتے تھے کہ سستے نائلون کے جوتے متعارف ہو رہے تھے۔ کتنی نسلوں نے پیوند لگے کپڑوں میں گزار دی یہ پیوند یہاں ہرگز کسی خجالت کا احساس نہ بنتے تھے لیکن اب مرد چھوڑ عورتیں بھی پیوند نہ لگاتیں۔ نئی نسل کی لڑکیوں کو تو جیسے پیوند لگانے کی اٹکل ہی نہ رہی تھی کہ کبھی نہ پھٹنے والے نائیلوں کے کپڑے رواج پا گئے تھے۔
صرف ہنر مندیاں نہ منہدم ہوئی تھیں ان کی کاریگری بھی اس مٹی میں جا سوئی تھی۔ اب گاؤں پکے مکانوں سے بھر رہے تھے ٹینکیاں اور ٹونٹیاں لگ گئی تھیں۔ ہینڈ پمپ بھی یادگار بن رہے تھے۔ پوری دوپہر سنی کے رسے بٹنے اور اٹیرن پر انہیں چڑھانے والے بوڑھے بھی رخصت ہو رہے تھے۔ پرانے بڑ، شیشم اور پیپل کے جھنڈ خالی ہونے لگے تھے۔ اب کھاد کے پلاسٹک بیگوں سے رس سے بٹ لیے جاتے تھے۔ اب گرمیوں کی لمبی دوپہریں کس قدر سنسان ہو گئی تھیں۔ اب چرخے کی ہوک پر کوئی جوگی پہاڑ سے اتر کرنا نہ آتا تھا۔ اب تو چرواہوں اور کنواریوں کے ٹپوں اور ماہیوں کا مزاج بھی بدل گیا تھا ان میں بھی جدید ایجادات اور رویوں کا اظہار ہونے لگا تھا”
ان اقتباسات کو دیکھ کر ہم گاؤں پر قیاس کر سکتے ہیں ، میں خود گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں اور کئی تبدیلیاں ان میں سے میں نے اپنی آنکھوں دیکھی ہیں ۔ اب تو ہماری نئی نسل وہ کھانے بھی نہیں بنا سکتی جو ہمارے سے پہلے کی نسل کا روز کے کھانے تھے۔ ساگ اور مکئ روٹی اب کوئی خاص طور پر سیکھے تو الگ بات ہے ورنہ میری عمر اور ہمارے بعد کے لوگ اس کو بنا نہیں سکتے۔ ہمارے ہاں موسیقی میں بھی کچھ الفاظ متروک ہو چکے ہیں اب چرغے کا ذکر نہیں ، شاید آگے خطوں کا ذکر بھی ختم ہو جائے کیونکہ عملی زندگی میں تو ان کا کردار بہت محدود ہو چکا ہے۔ ہمارے نئے گیتوں میں ان کا بھی ذکر معدوم ہو جائے گا۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بڑے کینوس پر پھیلے اس ناول میں اس اہم چیز کا خیال رکھا جو کہ زمانے کے بدلنے اور ترقی کی صورت میں سماج پر پڑتا ہے اور اس کو بہت خوبصورتی سے ذکر کیا ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ اقبال کا یہ ناول بیشک اردو ناول نگاری کی تاریخ میں بڑی ناولوں میں شمار کیے جانے کے لائق ہے۔ ان کا اسلوب بہت شاندار ہے۔ کہانی کا دورانیہ کافی طویل ہے جو کہ اس کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہے لیکن اس طویل دورانیے کی وجہ سے کئی کمزور پہلو بھی نظر آ جاتے ہیں۔ اس کی گنجائش ہم لکھاری کو دے سکتے ہیں۔ جس خوبصورتی سے مصنفہ نے پہلا باب لکھا ہے محسوس ہوتا ہے کہ اس کو اگلے نو ابواب میں اس طرح مصنفہ برقرار نہیں رکھ پائیں مگر اس کے باوجود کہانی پر ان کی گرفت قائم رہتی ہے گو کہ اس میں پہلی کی نسبت کچھ ڈھیل بھی محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ اقبال صاحبہ کے قلم میں بے باکی کو بھی بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور انہوں نے ہمارے سماج کے کئی نازک پہلوؤں اور شعبوں کو چھیڑا ہے۔ جس کی ہمت کم ہی لوگ کر پاتے ہیں اور پھر جس طرح خاندانی پس منظر کے باوجود جاگیرداری نظام کو دریدہ دہنی سے بے نقاب کیا ہے وہ الگ بات ہے۔ مجموعی طور نیلی بار اردو ادب کے اثاثوں میں اضافے کا سبب ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply