میں کیا کرسکتا ہوں؟-ڈاکٹر اختر علی سیدّ

میرے استاد گرامی ڈاکٹر اختر احسن نے نفسیاتی امراض اور ان کے علاج کی تربیت کرتے ہوئے ایک اہم سبق ذہن نشین کرایا تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ کبھی مرض کی علامات کا علاج نہ کرنا بلکہ ہمیشہ نفسیاتی مسائل کی اصل وجہ جاننے کی کوشش کرنا اور اسے اپنی تھیراپی کا اصل مخاطب اور ٹارگٹ بنانا۔

اس اصول کو استعمال کرتے ہوئے جب ملکی صورتحال کو دیکھتا ہوں تو علامات یہ نظر آتی ہیں۔
معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔لوگ ایک دوسرے کی نفرت میں دوسروں کا خون بہانے سے بھی نہیں چوکتے۔ نفرت کی وجہ پوچھیں تو وہ رنگ، نسل، نظریات، زبان اور عقیدے کا فرق بتائیں گے۔ معاشرے میں آگ بھڑکانے والے شعلہ بیان خطیبوں کا راج ہے۔ جو مختلف سیاسی مذہبی اور سماجی گروہوں کے قائدین ہیں یہ نفرت کی خلیج کو پاٹنے کی بجائے اس آگ پر تیل ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر انسان نے جو نظریہ یا عقیدہ اختیار کر لیا ہے وہ اس پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے باقی تمام کو نہ صرف غلط سمجھتا ہے بلکہ اپنے سے مختلف ہر شخص کو وہ زندہ ہی نہیں دیکھنا چاہتا۔ کوئی کسی کے حق اختلاف کا نہ تو قائل ہے اور نہ یہ حق دینے پر آمادہ۔۔ اس لیے وہ چاہے مذہبی لوگ ہوں یا پاکستان میں پائے جانے والے نیم پختہ لبرلز۔۔۔۔سب ہی کے سر میں تبلیغ کا سودا ایسا سمایا ہے کہ کوئی بھی دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش ترک کرنے پر تیار نہیں ہے۔ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ جو بصیرت اس کے عالی ذہن پر الہام کی گئی ہے وہ دوسروں کو ضرور بالضرور اس سے فیض یاب اور اس پر قائل کرے۔معاشرے کا ہر فرد شدید غصے کی حالت میں ہے اور اپنے وسائل کے زیاں اور مسائل کی وجہ اپنے جیسے دوسرے بے بس افراد کو قرار دیتا ہے۔ کسی کی نظر میں مذہب مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کوئی معاشرے میں شیعوں، قادیانیوں، اور عیسائیوں کی موجودگی کو نحوست اور عذاب خداوندی کا سبب سمجھتا ہے اور کوئی عورتوں کی بے حیائی اور مردوں کی بداعمالیوں پر زوال کا ملبہ گراتا نظر اتا ہے۔ غیر حقیقی اور مردہ اختلافات ہر روز زندہ کر کے نئی فالٹ لائنز گھڑی جاتی ہیں۔

ہمارے سماجی مرض کی نئی اور سب سے خطرناک علامت یہ ہے کہ نظریہ یا عقیدہ تو ایک طرف رہا، آپ کسی تاریخی حقیقت کو اٹھا کر دیکھ لیں ،اس کے حق اور مخالفت میں یکساں دلائل دینے والے لوگ آپ کو بآسانی مل جائیں گے۔ پاکستان کی افغان جنگ میں شرکت تو کوئی چودہ سو سال پرانا واقعہ نہیں ہے جس کے بارے میں راویوں کی بھول چوک اور ان کے ثقہ، غیر ثقہ اور معتبر اور ضعیف ہونے کا شائبہ بھی کیا جا سکے۔ یہ کل کی بات ہے۔ اس جنگ کی وجوہات اور اس میں پاکستان کی شمولیت پر اس کے منصوبہ ساز کتابیں لکھ چکے ہیں مگر پاکستان میں یہ ایک متنازع معاملہ ہے۔ یہ جنگ کس نے اور کیوں چھیڑی تھی اور پاکستان کا اس میں حصہ لینا درست فیصلہ تھا یا غلط، اس میں جان سے جانے والوں نے اپنی جانیں گنوائیں یا شہادت کی موت پائی، آج تک اس پر اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے فوجی جوان شہید تھے یا ان کے ہاتھوں قتل ہونے والے؟ کسی کو نہیں معلوم۔

روزگار تو چھن ہی گیا تھا ایک بہتر دن کی امید بھی باقی نہیں رہی۔ اس کا نتیجہ اپنی بے بسی اور زبوں حالی پر ایک کامل اور پختہ ایمان کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ کیفیت بے بسی، نا امیدی اور یاسیت پھیلاتی ہے۔ مایوس لوگ مسائل سے لاتعلقی اور غصے میں جلتے بھنتے لوگ (زبانی یا جسمانی) تشدد کی راہ اختیار کرتے ہیں.

یہ وہ علامات ہیں جو آپ کے روز مرہ مشاہدے میں ہے۔ ان ساری علامتوں کو ملا کر دیکھیں اور مرض کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ استعماریت اور فسطائیت کے تا دیر شکار رہنے والے معاشروں میں اسی طرح کی علامات دیکھی جاتی رہی ہیں۔ وہ استعماریت کا شکار ہندوستان ہو یا فسطائیت کے شکار جرمنی یا اٹلی ہوں دونوں معاشروں میں ایسے سماجی رجحان کی موجودگی آج بھی تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ استعماریت لوگوں کے اقتصادی اور حکمرانی کے حقوق چھین لیتی ہے، ان کو مصنوعی جنگوں میں الجھاتی ہے، لوگوں کے درمیان پہلے سے موجود اختلافات کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ نئے نئے اختلافات پیدا کر کے معاشرے کو تقسیم کرتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر افراد کے اندر بے بسی کے ایسے گہرے اثرات پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنے حالات سے لا تعلقی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

فسطائیت قومیت کا نعرہ لگاتی ہوئی ایک ایسی تحریک ہوتی ہے جو عموماً ملک کے اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔ یہ تحریک لوگوں کو یہ بتاتی ہے کہ وہ کتنے عظیم تھے اور اب وہ کس زبوں حالی کا شکار ہیں۔ یہ تحریک پُر عظمت ماضی کو یاد کر کے آنسو بہاتی ہے اور عظمت رفتہ کو تازہ کرنے کا نعرہ لگاتی ہے۔ اس تحریک کے قائدین انتہا پسندانہ نظریات کے حامل ایسے افراد ہوتے ہیں جو عوام کی مایوسی اور غصے کا رخ اپنے سیاسی مخالفین کی جانب موڑنے پر مہارت رکھتے ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اگر ان کے سیاسی مخالفین سے قوم نے نجات پا لی تو جنت ارضی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ ان کا خطہ ترقی اور تعلیم کا نمونہ بن جائے گا اور دنیا بھر کے لوگ تعلیم اور روزگار کے لیے ان کے خطے کا رخ کریں گے۔ یہ قائدین خود کو حق اور مخالفین کو کلیتا باطل قرار دے کر معاشرے کو تقسیم در تقسیم کی ایسی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ ممکن نہیں رہتا۔ فسطائی گروہوں کے افراد کا اس بات پر کامل یقین ہوتا ہے کہ ان کا لیڈر غلط نہیں ہو سکتا وہ ان میں ایسی خصوصیات دیکھتے ہیں جو کسی اور انسان میں ممکن نہیں ہو سکتیں۔

فسطائی گروہوں سے تعلق رکھنے والے یہ افراد اپنے قائدین کی طرح بے ہمت اور بے بضاعت ہوتے ہیں۔ تاریخ نہ پڑھتے ہیں نہ اس سے سبق سیکھتے ہیں اور نہ کسی سماجی مسئلے کو اس کی گہرائی میں سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ سیاسی قائدین کے گھڑے ہوئے نعروں سے بہک جانے والے ان افراد کو مشہور ماہر نفسیات ولہلم رائخ نے بالشتیا کہہ کر پکارا ہے۔ میں نے فسطائی معاشرے کی یہ تمام علامات نفسیات کی کسی کتاب سے نہیں بلکہ فستائیت کی تاریخ سے دہرائی ہیں۔

آپ کو آج اگر پاکستانی معاشرے میں استعماری اور فسطائی معاشروں جیسی علامات نظر آرہی ہیں تو زندہ باد اور مردہ باد کی اس کڑکی (چوہے دان) کو پہچانیے جو آپ کی توجہ اور توانائی کو ٹریپ کرنے کے لیے لگائی گئی ہے۔ اگر آپ بھی کسی کے لیے زندہ باد اور کسی کے لیے مردہ باد کے نعرے لگانے پر تیار ہو چکے ہیں تو یقین رکھیے کہ آپ اس کڑکی میں پھنس چکے ہیں جہاں آپ کی نظر محدود اور سچ جاننے کی صلاحیت کا محبوس ہونا لازم ہے اب آپ کبھی بھی کڑکی لگانے والوں اور اس میں روٹی کا ٹکڑا رکھنے والوں کو دیکھ نہیں پائیں گے۔ آنے والے انتخابات کو بے معنی بنانے کے اہتمام جن قوتوں نے کیے ہیں ان کو آپ کبھی شناخت نہیں کر پائیں گے۔ انتخاب کو بے معنی اور بے نتیجہ بنانا پلان کا حصہ ہے۔۔ اس کے بعد پیدا ہونے والا سیاسی عدم استحکام دیوار پر لکھی تحریر ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی کنفیوژن ایک لازمہ ہے۔ اس کنفیوژن سے بے بسی مایوسی اور غصہ لازمی پیدا ہوگا۔ مجھ ایسا ایک آدمی اس کو قبل از وقت دیکھ لے تو یہی غنیمت ہے۔ اگر میں یہ دیکھ سکا تو ہو سکتا ہے کہ شاید کسی قاتل ہجوم کا حصہ نہ بنوں۔ کسی شعلہ بیان خطیب کی تقریر سن کر معصوموں کی جان اور مال کے درپے نہ ہوں۔اگر میں خاموش بیٹھ کر استعماریت اور فسطائیت کی نمائندہ علامات اختیار کرنے سے انکار کردوں تو شاید تاریخ کے ان لمحات میں یہی میری ایک کنٹریبیوشن ہوگی۔

عورت مرد، مذہبی غیر مذہبی، یہ سیاسی جماعت یا وہ سیاسی جماعت، یہ سب تفرقات جعلی، بے معنی، گھڑے گئےاور فسطائی ہیں جو منصوبہ سازوں نے اپنے پے رول پر موجود تنخواہ داروں کی مدد سے پیدا کیے ہیں۔ جو انجانے میں ان گروہوں کا حصہ بنا وہ کڑکی میں پھنس گیا جس نے جانتے بوجھتے ان تفرقات کو ہوا دی وہ معاشرے کا غدار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معاشرے میں صرف چار گروہ ہیں ۔ ایک پاور سنٹر، دوسرے ان کے آلہ کار، تیسرے ان آلہ کاروں کے لیے زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگائے والے اور چوتھے طاقت کے اس کھیل کو سمجھنے اور سمجھانے والے۔
خود فیصلہ کیجیۓ آپ کس گروہ میں ہیں ۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply