کسی میں جرات نہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد لا سکے۔۔گل بخشالوی

لگتا ہے پارلیمانی جمہوریت کا دستر خوان لپیٹا جانے والا ہے ۔عمران خان نے اپنے وزیروں کی فوج میں دس وزیروں کو حسن ِ کار کردگی کا ایوارڈ دے کر اشار ہ بھی دے دیا ہے ، لیکن بدقسمتی سے کھلاڑی کو چاہنے والی قوم کا واسطہ خود پرست انا ڑیوں سے پڑا ہے، سکرین میڈیا کے فلاسفر وں اور قلم فروش لکھاریوں میں زبانی اور قلمی بحث شروع ہے ، جانے یہ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ عمران خان جو کرتا ہے سوچ سمجھ کر کرتاہے اور دنیا اسے سیاست دان تسلیم کرتی ہے۔
عمران خان کو اپنے عمل کے رد ِ عمل کا علم ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ آؤ عدم اعتماد لاؤ اور تحفے میں اسلامی صدارتی نظام لو ، مطلب ہے “خس کم ،جہاں پاک “۔

لیکن عقل کے اندھے تو چشم ِبصارت سے بھی محروم ہیں، عمران خان جانتے ہیں کہ میرے سیاسی ، علمی ، مذہبی ،وطن پرستی اور عوام دوستی کے قد سے خوف زدہ اپوزیشن کے تِلوں میں تیل نہیں ، یہ وہ بادل ہیں جو میڈیا ، میں سڑکوں پر ، دھرنوں میں صرف گرجتے ہیں یہ وہ آوارہ بادل ہیں جن میں برسنے کے لئے پانی نہیں۔

عمران خان نے انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا   رکھا ہے ۔وہ دوڑ دوڑ کر ہلکان ہورہے ہیں ،حرام کھانے والے حرام خوروں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں ،گذشتہ ساڑھے تین سال میں ہر محاز پر شکست کے باوجود ان کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ مقابلہ کھلاڑی سے ہے اورکھلاڑی جانتا ہے کس وکٹ پر کیسے کھیلا جاتا ہے۔

اگر اپوزیشن میں اخلاقی جرات ہوتی تو ذاتی مفادات اور تحفظات بالائے طاق رکھ کر اپنے اتحاد کو قوم کے لئے مثال بنا دیتے لیکن بد قسمتی سے جب تخت ِ اسلام آباد کے قریب پہنچتے ہیں ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہاتھ کر جاتا ہے کوئی سبز باغ دکھا دیتا ہے تو ان میں طلاق ہو جاتی ہے، پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں کی قیادت اور ان کے زر خرید ترجمان آپس میں سوکنوں کی طرح جب لڑ پڑتے ہیں تو پھر ایک دوسرے کے دامن پر لگے بد نما وہ داغ بھی قوم کو دکھا دیتے ہیں ،جو کسی نے پہلے نہیں دیکھے ہوتے ، لیکن جب ان سے کئے ہوئے وعدے ایفا نہیں ہوتے تو پھر گزشتہ کی بکواس بھول کر ایک دوسرے کے گلے لگ جاتے ۔

معاشرے میں بہترین لوگ کردار وعمل سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ اور قوم اپوزیشن کو ان کے کردار اور قول فعل میں جان چکی ہے ، قوم جان چکی ہے کہ غریب غریب کی  رٹ لگانے سے بہروپیوں سے دور رہنا ہی بہتر ہے اس لئے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ عوام کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں اور جب ان کو اقتدار کی بھوک لگتی ہے تو ان کی مکار آنکھوں سے غریب کے لئے مگر مچھ کے آنسو گرنے لگتے ہیں، اپنی ضرورت کو استعمال کرنے کے لئے غریب کے گیت گانے لگتے ہیں۔

چو ہدری برادران سے ملاقات سے پہلے کے اجلاس میں یہ دعا بھی مانگی گئی کہ آسمان سے کوئی مسیحا آئے اور عمران خان سے ہمیں نجات دلائے، اس نے تو ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیا، یہ لوگ اب  مولانا فضل الرحمان کی امامت میں عمران نیازی کی موت کی دعائیں مانگنے لگے ہیں، اس لئے کہ اس  نے کہا کہ عمران نیازی ان کو خبردار کر چکے ہیں،اگر میں اقتدار میں سیر ہوں تو سڑکوں پر سوا سیر ہوں گا !

اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک میان میں دو تلواریں ہیں، اس لئے فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کو ن باند ھے گا، پہلے آپ ،پہلے آپ، کے احترام  میں گاڑی سٹیشن سے چلی جاتی ہے اور مولانا فضل الرحمان ان کا منہ دیکھتے جاتے ہیں ،مولانا ویسے بھی “نہ  تو تین میں ہیں نہ ہی  تیر ہ  میں” ساتھ اس لئے رکھا ہے کہ اپوزیشن کی خواتین و حضرا ت کی  مجلس میں بولتے کم ہیں مسکراتے زیادہ ہیں، اگر مولانا کی ان کی نظر میں کوئی حیثیت ہوتی تو چوہدری برادران سے حکومت گرانے کے لئے تعاون کی خیرات مانگنے کے لئے مولانا کو ساتھ لیکر جاتے ، یہ لوگ بیمار پُرسی  کے نقاب میں تعاون مانگنے گئے تھے لیکن چوہدری برادران کے زیرک سیاست دان چوہدری شجاعت حسین نے ان سیاسی گداگروں سے کہا کہ ہم وہ ہی کریں گے جو قومی اور ملکی مفاد میں ہو گا لیکن اپوزیشن سے ہمارے شکوے بدستور زندہ ہیں ، عمران حکومت کی سب سے کامیاب پالیسی یہ ہے کی جن کے خلاف قومی دولت لوٹنے کے مقدمات درج ہیں انہیں جیل بجھوانے پر زور نہیں دیتے ،اس لئے کہ سیاست میں جو جیل چلا جائے تو وہ گنگا نہا کر لیڈر بن جا تا ہے اور عمرا ن خان ان کو سیاسی ہیرو نہیں بلکہ سیاست میں زیرو کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

عمران خان اپنی اس حکمتِ عملی میں بڑی حد تک کامیاب ہیں اسی لئے قومی لٹیروں ، موروثی خود پرست سیاست دانوں نے پاکستان کی عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے ،کل جس کو چینی چور کہتے رہے آج وہ جہانگیر خان ہو گئے ،خان نے کئی بار انہیں ا پنے در سے دھتکارا ہے، لیکن پھر بھی ان کوآرام نہیں آیا ۔ اپوزیشن جماعتوں کی بیگمات نے تو جھوٹ بولنے اور مکاری کی حد کر دی ہے شہباز شریف گلا پھاڑ پھاڑ کر قوم سے جس کا پیٹ چاک کر کے دولت نکالنے کا وعدہ کر تے رہے آج اسی زرداری کے قدموں میں بیٹھے ہیں حالانکہ شہباز شریف بخوبی جا نتے ہیں کہ زرداری ان کے جوڑوں میں بیٹھا ہے ۔

قومی سیاست میں تنہا پرواز کرنے والی جماعتِ  اسلامی کے امیر سراج الحق کی نظر میں اپنے علاوہ کوئی دوسرا ایما ندار سیاسی قائد نہیں ہے ،اگر کوئی ہے تو وہ جماعت ِ اسلامی کے امیر یعنی بذات ِ خودہیں ، اس لئے انہوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزراءکی کارکردگی صفر ہے ملک کی بربادی کی ذمہ دار ٹیم کو سر ٹیفکیٹ دینا عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ حکومت کی کارکردگی پر عوام مایوس ہیں اور ان سے فوری چھٹکارہ چاہتے ہیں۔

اپوزیشن الیون ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور عوام کو سڑکوں پر لانے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ایسے فیصلے تو وہ پہلے بھی کر چکے ہیں اور عبرتناک خمیازہ بھی بھگتا ہے  ،دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ہیں ،کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ سپریم کورٹ جاتے اور چیف جسٹس سے سوال کرتے ، ”’ بتاؤ  میری ماں اور میرے دو ماموؤں   کا قاتل کون ہے ؟ “ کہتے ہیں پی ڈی ایم کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد لانے کا فیصلہ جمہوریت کی فتح ہے لیکن جانے کیوں بھول گئے کہ کل جب پی ڈی ایم منزل کے قریب تھی تو یہ قابل ِ اعتماد اپوزیشن کو ہاتھ دکھا گئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ’کسی مائی کے لال میں جرات نہیں کہ تحریک عدم اعتماد لا سکیں‘۔ ’پی ڈی ایم جرات کرے اور کل تحریک عدم اعتماد لے کر آئیں، آپ کو آپ کے اپنے رکن اسمبلی بھی حیران کر دیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply