• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا بلاول کا دس نکاتی انتخابی منشور قابل عمل ہے/ارشد بٹ

کیا بلاول کا دس نکاتی انتخابی منشور قابل عمل ہے/ارشد بٹ

بقول چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری انکی کسی سے مخالفت نہیں بلکہ انکا مقابلہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے ہے۔ اس لئے پاکستان پیپلز پارٹی نے غربت، بےروزگاری اور مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے دس نکاتی انتخابی منشور کا اعلان کیا ہے۔ پی پی پی کے دس نکاتی ایجنڈے کو عوامی معاشی معاہدہ کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان کے دگرگوں معاشی حالات کی بنیاد پر بعض تبصرہ کار اس دس نکاتی انتخابی منشور کو ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ بلاول بھٹو اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں ان انتخابی وعدوں پر عملدرآمد کرنے کے طریقوں کی وضاحت کر رہے ہیں۔ بادی النظر میں پی پی پی کا انتخابی منشور مکمل شکل میں قابل عمل معلوم نہیں ہوتا۔ بلاول بھٹو نے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ دس نکاتی پروگرام پر پچاس فیصد عملدرآمد اس پروگرام کی کامیابی تصور ہو گا۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پی ٹی آئی نے ابھی تک اپنےانتخابی منشور کا اعلان نہیں کیا۔ یاد رہے کہ ابھی تک میڈیا مباحثوں اور سیاسی جماعتوں کے عوامی جلسوں میں عوامی مسائل اور ملکی معاشی صورت حال کو اہمیت نہیں دی جارہی۔

بلاول بھٹو کے انتخابی وعدوں میں تنخواہوں میں دگنا اضافہ کرنا، مستحق عوام کو سولر انرجی کے ذریعے تین سو یونٹس کی مفت فراہمی، غریب عوام کے لئے تیس لاکھ گھروں کی تعمیر کے علاوہ سب کےلئےمفت معیاری تعلیم اور مفت طبی سہولتوں کے لئے ہسپتالوں کا جال بچھانا شامل ہیں۔ ایک اہم نکتہ روزگار کے متلاشی نوجوانوں کو ایک سال تک ماہانہ وظائف کے ساتھ پیشہ وارانہ تربیت کی فراہمی ہے۔ ہاری کسان کارڈکے ذریعے سستی کھاد اوربیج ، واٹر سپلائی، زرعی پیداوار کے لئے مارکیٹنگ اور لائیو سٹاک وغیرہ کے لئے سہولیات کی فراہمی شامل ہیں۔ قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کو ہاری کسان کارڈ سے انشورنس کا تحفظ بھی فراہم کیا جائیگا۔ مزدور کارڈ کے ذریعے نجی شعبہ یا ذاتی حثیت میں محنت کرنے والے محنت کشوں کو سوشل سیکورٹی پروٹیکشن پروگرام کا حصہ بنایا جائے گا۔ جس میں پنشن کی سہولت، بڑھاپے اور معذوری کی صورت میں معاشی تحفظ مل سکے گا۔ اس کے علاوہ مستحق خاندانوں کو سستی اور کم قیمت پر خوراک کا تحفظ اور مستحق خواتین کو ذاتی کاروبار کے لئے بلا سود قرضہ کی سہولت کے وعدے کئے گئے ہیں۔

غریب طبقوں کو روزگار کے تحفظ،تعلیمی اور طبی سہولیات کی فراہمی کے بغیر کوئی ملک ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے نہیں کر سکتا۔ اس وقت قومی سلامتی ریاست سے سوشل ویلفیئر ریاست کا سفر دشوار گزار اور کٹھن نظر آتا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں، اس جانب کبھی نہ کبھی تو قدم اٹھانا ہی ہو گا۔امید کی جا سکتی ہے کہ بلاول بھٹو کا دس نکاتی ایجنڈا فلاحی ریاست کی طرف ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ پانچ سالہ دور حکومت میں تنخواہوں میں بتدریج اضافہ ناممکن حدف نہیں ہے۔ ہر سال دس سے پندرہ فیصد اضافہ پانچ سال میں تنخواہوں کو دوگنا کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پانچ سالوں میں تیس لاکھ گھروں کی تعمیر بہت مشکل کام نظر نہیں آتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے ہر سال چھ لاکھ ملٹی فلور فلیٹوں کی تعمیر کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح بے روزگارنوجوانوں کو ایک سال کے لئے پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ مالی وظیفہ دے کر بے روزگار میں کمی لانے کا منصوبہ کسی صورت ناقابل عمل نہیں گردانا جا سکتا۔ غریب طبقے کی خواتین کو بلا سود کاروباری قرضہ کی فراہمی خواتین کو معاشی خومختاری دینے کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ اس سکیم کو شروع کرنے میں کوئی بڑی رکاوٹ حائل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس کا آغاز ایک اچھا قدم ہو گا مگر اس کا مستقبل میں جاری رکھنا زیادہ اہم ہو گا۔ مستحق افراد کو سولر انرجی کے ذریعے تین سو یونٹ کی فری فراہمی یقیناً مشکل منصوبہ لگتا ہے۔ مگر قومی اور بین الاقوامی اداروں کی مدد سے اس منصوبہ کا شروع کیا جانا ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ن لیگ بھی مستحق افراد کو دو سو یونٹ بجلی دینے کا وعدہ کر رہی ہے۔ اس لئے مستحق افراد کو مناسب حد تک فری یونٹ فراہم کرنے کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ کچی آبادی کے رہائشیوں کو مالکانہ حقوق دینے کا وعدہ تو محض وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی یک جنبش قلم کا محتاج ہے۔

مزدور کارڈ، صحت کارڈ اور ہاری کسان کارڈ میں کئے گئے وعدےعوامی معاشی معاہدہ کا اہم ترین حصہ کہے جا سکتے ہیں۔ ان کارڈوں کے ذریعے فراہم کی جانے والی سہولیات کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اگر ان منصوبوں کو سنجیدگی سے شروع کیا گیا تو یہ پاکستان میں سوشل ویلفیئر ریاست کی بنیاد کا نکتہ آغاز بن سکتا ہے۔

دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے روزگار، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، پینے کےصاف پانی اور زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات کے لئے وسائل کی فراہمی سب سے بڑا مسلئہ ہے۔ بلاول بھٹو نے صنعت کاراشرافیہ کو دی جانے والی پندرہ سو ارب روپے سالانہ کی سبسی ڈیز اور سترہ اضافی وفاقی وزارتوں کے خاتمہ سے تین سو ارب سے زیادہ روپے نکال کر عوامی ویلفیئر منصوبوں پر خرچ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ غور طلب بات ہےکہ کیا بلاول بھٹو صنعت کار اشرافیہ اور وفاقی افسر شاہی کے منہ سے اٹھارہ سو ارب روپوں سے زیادہ کا تر نوالہ چھننے میں کامیاب ہو سکیں گئے۔ آج کے حالات میں اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے۔ یہاں ایک سوال اور ابھرتا ہے کہ کیا ہمسایہ ممالک سے باہمی تنازعات گفتگو سے حل کرنے کا عہد کئے بغیر، امن، دوستی اور باہمی تجارت کو فروغ دیئے بغیر ،ملکی وسائل کو ترقی اور عوامی خوشحالی پر استعمال کرنے کا راستے کھل سکتا ہیں۔

عوامی معاشی معاہدہ میں اعلان کردہ سوشل پروٹیکشن سکیمیں ایک سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ ہیں۔ ان انتخابی وعدوں کو ایک ہنگامی مدد یا منصوبوں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ جن کے عملی شکل اختیار کرنے سے غریب عوام کو کچھ وقت کے لئے معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ مگر ان کو مستقبل میں جاری رکھنے کے لئے کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اعلیٰ ترین عوامی مالی مدد کا منصوبہ بھی مستقل قانونی فلاحی ادارے کا متبادل نہیں بن سکتا۔ بلاول بھٹو کےدس نکاتی منشور سے ویلفیئر منصوبے شروع کر کے قانونی ویلفیئر اداروں کی بنیاد رکھنے کا آغاز کرنا چاہے۔ یہ اس سوشل ویلفیئر سسٹم کی بنیاد رکھنے کا آغاز ہو گا، جس کا اعلان بھٹو شہید نے ۱۹۷۰ کے الیکشن جیتنے کے بعد کیا تھا۔ بھٹو شہید نے کہا تھا کہ میرا سوشلزم سے مراد سکینڈی نیوین سوشل ویلفیئر سسٹم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں بلاول بھٹو زرداری کو بتانا ضروری ہے کہ بنیادی تعلیمی اور طبی سہولتیں، شہری ٹرانسپورٹ، پینے کے صاف پانی، سیوریج اور سینی ٹیشن سہولتوں کی فراہمی، نوجوانوں کو پیشہ ورانہ تربیت، روزگار کی فراہمی، خواتین امپاورمنٹ منصوبے، کچی آبادیوں کو مالکانہ حقو ق دینے جیسے بنیادی مسائل ، موثر و خودمختارلوکل گورنمنٹ سسٹم کے بغیر بخوبی پایہ تکمیل نہیں پہنچائے جا سکتے۔ خودمختار لوکل گورنمنٹ سسٹم موثر طریقے سے عوام تک سوشل ویلفیئر کے فوائد پہنچا سکتا ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم سے صوبائی خومختاری یقینی بنائی گئی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں مالی وسائل اور قانونی اختیارات کو صوبوں سے لوکل گورنمنٹ تک منتقل کریں۔ مالی وسائل اور قانونی اختیارات کا وفاق اور صوبوں میں ارتکاذ عوامی فلاح اور خوشحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply