عباس تابش کی شاعری میں جدیدومابعد جدید رجحانات:/تبصرہ : یحییٰ تاثیر

جدیدیت کے تحت اردو ادب اور بالخصوص اردو شاعری میں نئے نئے موضوعات در آئے۔ یہ موضوعات زیادہ طور پر جدید فرد اور اس سے وابستہ رجحانات کے گرد گھومتے ہیں۔ جدیدیت نے سائنسی ترقی کا نعرہ لگایا اور انسان کے سفر کو تیز تر کرنے کےلیے عقل کو سب کچھ گردانا۔ سائنس و عقل نے فرد کو ان دیکھی دنیاؤں کی سیر پر مجبور کیا اور وہ افلاک کی وسعتوں تک پہنچ گیا۔ چوں کہ عقل کا ملکہ انسان کے پاس ہے اس لیے انسان کو مرکز کائنات قرار دیا گیا اور دنیا کو انسان کےلیے سہولتوں کی آماج گاہ ،کہ یہ خاص انسان ہی کےلیے وجود میں آئی ہے۔مادی ترقی کو سب کچھ مانتے ہوئے تمام ممکنات کو انسان کی سربلندی کےلیے بروئے کار لانے میں سائنس و عقل نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔سائنس کو انسان کی زندگی اور ترقی میں کلیدی حیثیت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے اپنی قوت کا شعور خود محسوس کیا اور کائنات و فطرت کو زیرنگیں کرنے کی سوچوں میں گم ہوگیا۔ انسان کے اسی نوآبادیاتی طرز فکر نے اسےتسخیر فطرت پر آمادہ کیا۔عقلیت نے انسان کی انسانیت پر ایسی دبیز تہیں چڑھا لی تھیں کہ وہ یہ احساس بھی نہ کرسکا کہ فطرت کو تسخیر کرنا اصل میں انسان ہی کو تسخیر کرنا ہے۔ کیوں کہ فطرت کی بقا انسان ہی کی بقا ہے۔ لیکن جدیدیت نے فرد مرکزیت اور سائنس کی چودھراہٹ کا جو نعرہ لگایا تھا وہ اس وقت چکنا چور ہوا جب عالمی جنگوں میں سائنس کے مضر اثرات سامنے آئے اور فرد کو ہر حوالے سے کچلا گیا۔ جدیدیت نے سائنس کو کام میں لاتے ہوئے مادی سہولیات سے انسان کو مادی ترقی تو عطا کی لیکن روحانی سکون و اطمینان سے اسے محروم کردیا۔ علامہ اقبالؔ نےکہا تھا :
؎ ہے دل کےلیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات

اس رجحان نے ایک ایسی دنیا تشکیل دی جس میں انسان مادی طور پر تو ترقی کررہا ہے لیکن اس کے اندرونی نشوونما مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے فرد کی زندگی میں اندرونی گھٹن، بے چینی، عدم اطمینان، لاحاصلی، وجود کا کرب، گھن، دھشت و خوف، تنگی، بے جا تیزی و طراری اور انتشار جیسے عناصر شامل ہوگئے۔ یہ رجحانات جدیدیت کے توسیع و ردِ عمل میں ابھرنے والی صورت حال مابعد جدیدیت کا حصہ بھی بن گئےجو جدید شعرا کے ہاں کثرت سے بیان ہوئے ہیں۔ جدید شعرا میں صنفِ شاعری کے ماتھے کا جھومر یعنی غزل کے سرتاج شاعر، عباس تابؔش کے ہاں بھی جدیدیت کا آب و رنگ ملتا ہے۔ مادی مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ دنیا کا فطری نظام سمجھ سے بالاتر ہے۔ دن کا پتہ چلتا اور نہ رات کا۔ ایک دور ایسا بھی تھا کہ فرد کی زندگی ترتیب و تنظیم سے معمور تھی۔ گویا دن مشقت اور رات آرام کے استعارے تھے۔ لیکن آج کے دور میں سکون و آرام کا تصور ایسا مٹ گیا ہے کہ دن رات کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ شاعر عباس تابؔش اس تاثر کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں :
؎ کیسا رنگ و روشنی کا قہر ہے
دن ڈھلے بھی شہر میں دوپہر ہے

زندگی کے جھمیلے اور ضروریات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ دنیا تنگ ہونے کی طرف جارہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا ایک ہی مرکز پر مجتمع ہونے کےلیے بے تاب ہے تاکہ سہولیات اور مادی ضروریات کے انبار میں اپنا وجود کھو کر گویا دوام پالے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا، نہ مادی ضروریات پورا ہونے کا نام لے رہی ہیں اور نہ فرد سکون و چین کی دولت سے متصف ہوسکا۔ دنیا ایک ایسے دہانے پر کھڑی ہے کہ نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے اور نہ اپنے بے سمت سفر کو روک سکتی ہے جو تباہی کی اور جاری ہے۔ آج ہم جس صورت حال سے گزر رہے ہیں یہ میٹروپولائیزیشن کا دور ہے۔ اگر ایک طرف دیہاتی آبادی شہروں کی طرف منتقل ہورہی ہے تو دوسری طرف دیہات اپنی سرحدات بڑھا کر شہروں میں ضم ہورہے ہیں۔ ایسی صورت میں یادیں اور فطری پن کو ضائع کرنے کا دکھ تو انسانی ذہن کا حصہ بن ہی جاتا ہے جو بعد میں ناسٹلجیا کی شکل اختیار کرتا ہے ،یوں آدمی کی زندگی بھی مادے تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے جس سے نکلنا پھر محال امر ہے۔ مذکورہ مابعدجدید صورت حال کا اظہار عباس تابؔش اس طرح کرتے ہیں :
آدمی اب بھاگ کر جائے کہاں
شہر کے چاروں طرف بھی شہر ہے

سادگی، فطرت، کھلی فضا، پاکیزہ ماحول، میل جول، محبت، انسانيت اور خالص پن دیہات کا حصہ ہیں۔ دیہات کا بندہ اگر شہر کا رخ کرتا ہے تو ان چیزوں سے نہ صرف خود کو محروم کرتا ہے بل کہ ان کے متضاد رجحانات کا سامنا بھی کرتا ہے۔ سادگی کے مقابلے میں تصّنع،کھلی فضا کے مقابلے میں تنگی و محدودیت، پاکیزہ ماحول کے بجائے آلودگی، میل جول اور محبت کے برعکس مفاد پرستی، انسانیت کے برخلاف منافقت اور خالص پن کے مقابلے میں مصنوعیت کو اپنے سامنے پاتا ہے۔ اس لیے ان تمام مثبت رجحانات کی طرف وہ مراجعت کا خواہش مند ہوتا ہے لیکن مادے کی کشش اسے اپنی طرف مسلسل کھینچتی رہتی ہے۔ گویا یہ فرد ایسی زندگی کے لپیٹ میں آجاتا ہے جو دیہات کی معدومیت کا نظارہ کرتی ہے لیکن وہ اسے بچانے سے قاصر ہوتا ہے۔ ایسے فرد کا نوحہ عباس تابؔش یوں بیان کرتےہیں :
مرگیا ہے چاند بھی چڑیوں کے ساتھ
جھیل کے پانی میں کتنا زہر ہے

ایک ایسا وقت بھی اس جدید فرد پر آتا ہے جب وہ زندگی سے مایوس ہوکر پشیمانی کا اظہار کرتا ہے۔لیکن زندگی میں یہ پشیمانی اسے اصل زندگی (روحانیت) عطا نہیں کرسکتی۔محبت، خلوص، عقیدت، یقین اور ذوقِ سلیم کی موت یہاں ہو ہی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اس جدید دور میں مادیت اور روحانیت کی جنگ میں جیت(ظاہراً) مادیت ہی کی ہوئی ہے۔ بقولِ تابؔش :
اس بے یقین شہر نے کتنا برا کیا
برباد کرکے رکھ دیا ذوقِ سلیم کو

شہر کے بے یقینی فرد کو ایسی کیفیت تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ اپنا ذوقِ سلیم بھی کھو بیٹھتا ہے۔ آوارگی اور وحشت کی یہ کیفیات یوں ہی پیدا نہیں ہوتیں بل کہ جڑوں کی بازیافت میں ناکامی بندے کو ایسا بنا دیتی ہے۔ شہر میں لاتعلقی ایک عام سی بات ہوتی ہے۔ پڑوس میں رہنے والے ایک دوسرے سے بے خبر ہوتے ہیں کیوں کہ یہاں ہر کوئی اپنی زندگی کو بسر کرنے کےلیے ذاتی جتن اٹھاتا ہے۔ بے یقینی کا رجحان بھی اسی ذاتیّت ہی سے پیدا ہوتا ہے جو آگے جاکر ذوقِ سلیم اور انسانیت کا گلا بھی گھونٹ دیتا ہے۔دیہات کی زندگی اگرچہ سہولیات اور آلائشوں سے دور ہوتی ہے لیکن دیہات کا فرد اگر ان سہولیات کا شعور نہ رکھتا ہو تو کبھی بھی اپنی زندگی سے مایوس نہیں ہوتا ہے۔ عباس تابؔش کہتے ہیں :
کھا کے سوکھی روٹیاں پانی کے ساتھ
جی رہا تھا کتنی آسانی کے ساتھ

شہری زندگی کی برق رفتاری کو دیکھ کر انسان کو اپنی وہی سادہ اور محروم زندگی یاد آجاتی ہے جس میں کم از کم سکون کا عمل دخل ہوتا ہے۔ دیہات کی زندگی کی آسانیاور سادگی، شہری زندگی کی آلائشوں سے ہزار درجے بہتر ہوتی ہے۔ شہر میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ ہونے کا احساس، مادہ پرستی پر آمادہ کرتا ہے۔ جب بندہ اپنی بساط سے زیادہ پانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے تو اسے لاحاصلی کا دکھ لاحق ہوجاتا ہے۔ لاحاصلی بندے کو مزید پانے کی طرف مائل کرتی ہے۔ مزید سے مزید تر کا یہ سفر یوں نامختتم چلتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے عباس تابؔش کہتے ہیں :
ابھی میں نشہ لاحاصلی میں رہتا ہوں
ابھی یہ تلخیٔ دنیا مجھے گوارا نہیں

لاحاصلی کا یہ نشہ فرد کو دنیا کی تلخی دکھاتی ہے۔ اس حریص سفر میں پڑھ کر بندہ عدم اعتماد کا شکار بھی ہوجاتا ہےاور وہ اپنے علاوہ کسی پر بھروسا نہیں کرتا۔ اپنی زندگی وہ صرف اپنے لیے جینے لگتا ہے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہے کہ کوئی محض اپنی ذات کےلیے جیے اور کامیابی حاصل کرے۔ایسا کرنے سے تنہائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ایسے فرد کی حالت عباس تابؔش کچھ یوں بیان کرتے ہیں :
اسی لیے میرا سایہ مجھے گوارا نہیں
یہ میرا دوست ہے لیکن میرا سہارا نہیں

زندگی وہ ہے جو دوسرے انسانوں کی بیچ بسر کی جائے۔ ایک دوسرے کا سہارا بننا زندگی کو آگے لے جاتا ہے۔ اور یہ تصور دیہات میں پروان چڑھتا ہے جب کہ شہر میں بھیڑ کے باوجود تنہائی کا احساس ساتھ رہتا ہے۔ اس لیے چین و سکون اور روحانی تسکین سے شہری زندگی کوسوں دور ہوتی ہے۔ زندگی بزم دوستاں و محفل یاراں سے سرسبز و شاداب بنتی ہے۔ زندگی میں اگر لاکھوں مسائل ہوں لیکن ایک بھی ایسا دوست مل جائے جو آپ کے دکھوں کا مداوا بنے تو تلخیٔ حیات کو بندہ بھول جاتا ہے اور زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ جدید فرد ایسی محافل اور ہم سفر سے محروم ہے۔ بقولِ عباس تابش:
نہیں ہے شہر میں کوئی بھی جاگنے والا
کسے کہیں کہ چلو سیرِ مہتاب کریں

شہروں کی ظاہری رونق اور تصنع کے پیچھے کئی دکھ پنہاں ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وہاں کوئی دکھ بانٹنے والا نہیں ہوتا۔وہاں ہر کوئی اپنے غم کا رونا خود روتا ہے۔ جب کہ گاؤں میں اجتماعیت کا تصور ملتا ہے۔ وہاں خوشی اور دکھ درد دونوں موقعوں پراپنے لوگ کندھے سے کندھا ملا کر تعزیت کے طور پر ملتے جلتے ہیں۔ ایک کا دکھ سب کا دکھ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس شہر میں انفرادیت کا تصور ہے۔ عباس تابؔش کہتے ہیں:
یہ بھی رہتے نہیں ویران جگہ پر تابش
دکھ پرندوں کی طرح شہر میں آ رہتے ہیں

ان تمام تصورات کے علاوہ عباس تابش کا جہاں سخن جدیدیت کے تصورات سے بھرا پڑا ہے۔ انھوں نے جدید شاعر ہونے کے ناطے جدید فرد سے وابستہ مسائل کا ذکر جگہ جگہ کیا ہے۔ انتشار کے اس دور میں شاعر کو انسانیت پھیلانے کی فکر لاحق ہے۔ ان کے خیال میں اس قحط الرجال کے دور میں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ انسیت اور مروّت سے رہنے کی ضرورت ہے ۔ آدمیوں کے اس بھیڑ میں انسان کے بچے ڈھونڈنا محال ہے۔ ایک انسان آخر کب تک دوسرے انسانوں سے کٹ کر جی سکتا ہے۔ ایک نہ ایک دن ضرور وہ مجبور ہوکر دوسرے انسانوں کی ضرورت محسوس کرتا ہے:
اب اور کیا ثبوت ہو قحط الرجال کا
اِک دوسرے کی ہم کو ضرورت ہے آج کل

تاریخیت، جدیدیت کے زیرِ اثر پروان چڑھنے والی صورت حال ہے۔ جدیدیت نے مرکزیت، حتمیت، مطلقيت اور آفاقیت کا تصور پیش کیا۔ یہ تمام صورتیں تاریخیت کا حصہ بھی ہیں۔ تاریخیت کے مطابق تاریخ مطلق اور حتمی ہے۔ مؤرخ نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ من و عن اٹل اور صاف ہے۔ تاریخ کے واقعات جس طرح پیش آئے، اسی طرح تاریخ نے اسے اپنی ذات کا حصہ بنایا ہے۔ تاریخیت نے آفاقیت کا تصور بھی کچھ یوں پیش کیا کہ کوئی بھی تاریخی واقعہ دنیا کے کسی بھی خطے کےلیے اسی طرح قابل قبول ہے جس طرح باقی دنیا اسے دیکھتی ہے۔ تاریخیت کے اس تصور سے گویا مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کےلیے ایک نوعیت کا بن جاتا ہے کہ یہ دونوں ممالک اس مسئلے کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں جب کہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔ چوں کہ تاریخ لکھنے والا مصنف ہی ہوتا ہے اس لیے تاریخی واقعات کے بیان میں مصنف کے ذاتی تاثر اور تخیل کا شامل ہونا ممکن ہے۔ یہ بھی ہوا ہے کہ کچھ مؤرخین نے ذاتی پسند و ناپسند سے کام لے کر حقائق پر پردے ڈالے ہیں، بعض تاریخیں تو حکما کے منشا کے مطابق بھی لکھی گئی ہیں اور ایسے انکشافات بھی ہوچکے ہیں کہ کچھ تو حکما نے مؤرخوں سے جبراً بھی لکھوائی ہیں۔ مدعا یہ کہ تاریخیت اس تاریخ کو سامنے لاتی ہیں جو دراڑوں اور شگافوں سے بھری پڑی ہے۔ جس میں حقائق پر زنگ چڑھا کر مسخ کردیا گیا ہے۔ اس کے برعکس نو تاریخیت، مابعدجدیدیت کے زیرِ سایہ سامنے آئی جس نے تاریخیت کے برعکس عدم مرکزیت، اضافیت، غیر مطلقيت اور مقامیت کا تصور دیا۔ نو تاریخیت، تاریخیت کی توسیع کرکے ان میں موجود شگافوں کو پُر کرتی ہے۔ آفاقیت کے برعکس مقامیت کا تصور پیش کرکے یہ بات واضح کرتی ہے کہ تاریخ کے واقعات اضافی ہیں۔ کیوں کہ ایک ملک کے افراد ایک تاریخی واقعے کو جس نظر سے دیکھتے ہیں دوسرے اقوام اس واقعے کو اپنے مخصوص رجحانات کے تحت دوسری نظر سے پرکھتے ہیں۔ اس تصور کے مطابق تاریخ اضافی اور غیرمطلق ٹھہرتی ہے۔ یہ تصورات ادب پر بھی اثر انداز ہوئے۔ اس لیے مختلف اصناف میں ان کا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ جدید شاعری میں عباس تابش الگ مقام رکھتے ہیں جن کی شاعری میں جدید و مابعد جدید رجحانات کثرت سے بیان ہوئے ہیں۔ دوسرے محرکات کی طرح نوتاریخیت کے تصورات کا بیان عباس تابش کی شاعری میں ہوا ہے۔ موجودہ تاریخ جس میں واقعات زنگ آلودہ پیش ہوئے ہیں ،کے متعلق عباس تابش کہتے ہیں :
تاریخ ہے تو وہ بھی تمھاری لکھی ہوئی
اب تم بتاؤگے ہمیں غدار کون ہے؟

مؤرخین نے تاریخ کے تلخ صفحات اپنے اصل حقائق کے بغیر پیش کیے ہیں۔ کئی طریقوں سے انھوں نے حقیقتیں پوشیدہ رکھی ہیں، یا تو انھوں نے سفاکی پر مبنی حقائق حاکم وقت کے بجائے عوام سے وابستہ کیے ہیں یا اپنے عقل و فراست سے واقعات میں اضافہ کیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بعض تاریخ دانوں نے خود سے بھی روشن واقعات گڑھ کر حاکموں سے جوڑے ہیں۔ تاریخیت میں موجود یہ دراڑیں یا بےجا اضافے نوتاریخیت آشکارا کرتی ہیں اور اصل حقائق سامنے لاکر تاریخ کو شفاف اور قابل قبول بناتی ہے۔ تاریخیت پر چوٹ کرتے ہوئے عباس تابش کہتے ہیں:
اے مؤرخ تیرا جنگل نہ کٹے گا ہم سے
تو نے تاریخ میں شجرے کی شجرکاری کی

عباس تابش کو یہ احساس ہے کہ مؤرخ نے خود سے گھڑے ہوئے واقعات کا جو جنگل اُگایا ہے اصل میں یہ تاریخ کی مسخ شدہ صورت ہے۔ اصل تاریخ یہ نہیں اصل تاریخ وہ ہے جو پردوں میں چھپی ہے۔ تاریخ کا جو صفحہ مؤرخ نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے اس سے منافقت، غداری اور جانب داری کی بو آتی ہے۔ صاف و شفاف تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو وہ اشرافیہ جو آج وسائل پر قابض ہیں اور عوام کا استحصال کررہے ہیں، اصل میں ناجائز طریقے سے وسائل پر چڑھے ہوئے ہیں۔ تاریخیت کی اس ظلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عباس تابش حقائق کو کچھ یوں سامنے لاتے ہیں:
اصطبل میں تیرے اجداد ہوا کرتے تھے
تیری جاگیر سے بو آتی ہے غداری کی

وہ حکمران جو دوغلے تھے، عوام اور رعایا کے سامنے خود کو منصف پیش کررہے تھے اور پس پردہ انھیں عوام کا خون چوس رہے تھے لیکن مؤرخ نے ان حاکموں کو عادل پیش کیا اور ظاہری وضع قطع اور حالات کو دیکھتے ہوئے صفحات بھر دیے۔ان حکما نے جبراً عوام پر اپنا نام روشن اور بطور عادل حکمران کے پیش کیا۔ عباس تابش کو تاریخ کے ایسے واقعات کا خوب احساس ہے یہی وجہ ہے کہ وہ تاریخ پر چوٹیں لگاتے ہیں اور حقائق منکشف کرتے ہیں:
بات کہنے کی نہیں پھر بھی کہے دیتا ہوں
تیرے ڈر سے بھی تجھے لوگ خدا کہتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

جابر حکمرانوں نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو دبائے رکھا ۔جس کی وجہ سے عوام نے اپنی جان کی سلامتی کو یقینی بنانے کےلیے مجبوراً انھیں ظالم حکمرانوں کو اپنا حاکم مانا۔
مذکورہ تصورات سے پتہ چلتا ہے کہ عباس تابش کی شاعری جدید و مابعدجدید رجحانات سے بھری پڑی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جدید شاعری کے سفر میں ایک ایسے مسافر کی طرح ہیں جو ہر آن زندگی کی نئی موجوں سے ٹکراتے ہیں۔عباس تابش کی شاعری کا سفر اب بھی جاری ہے۔ ان کے اب تک چھ شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں جو کلیات “عشق آباد” میں مجتمع صورت میں پڑھنے والوں کےلیے موجود ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply