ثاقب تبسم ثاقب کی ایک غزل کا جائزہ/ یحییٰ تاثیر

ادبی تنظیم دھنک کے منتظم ثاقب تبسم ثاقبکا شمار جدید شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں کافی موضوعات کا ذخیرہ ملتا ہے۔ ان کے ہاں بنیادی نکتہ عشق ہے جس کے اردگرد باقی معاشرتی موضوعات گردش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں ان کی ایک غزل کا مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔
پہلا شعر:
پیڑ محوِ نمو نہیں رہتا
کھیت میں جب لہو نہیں رہتا(۱)

یہ شعر جہان معنی کو سمیٹا ہوا ہے۔ ثاقب تبسم ثاقب نے یہاں فطرت کا فطری قانون بڑے واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ فطرت اور انسان ایک دوسرے کا لازمہ ہے۔ فطرت کی بقا میں انسان کی پائیداری اور انسان کی بقا میں فطرت کا دوام پوشیدہ ہے۔ ان دونوں کا وجود ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ شاعر استعاراتی انداز میں اس نامیاتی تصور کو کچھ یوں واضح کرتا ہے کہ زمین میں جب نمی اور زرخیزی کا اثر موجود ہو تو یہ فصل کو پروان چڑھاتی ہے لیکن اگر زمین سے نمی چھین لی جائے تو یہ بنجر ہوکر رہ جاتی ہے۔ مذکورہ شعر میں پیڑ انسان کےلیے جب کہ کھیت فطرت کےلیے بہ طور استعارہ استعمال ہوا ہے۔
دوسرا شعر:
عشق میں چاک جو گریباں ہو
عمر بھر وہ رفو نہیں رہتا(۲)

یہ شعر فلسفہ عشق کو واضح کرتا ہے۔ عشق انسان کا ایک ایسا ذاتی فعل ہے جو انسان کی زندگی کا جزو خاص بن جاتا ہے۔ گویا یہ انسان کے لاشعور میں محفوظ ہوتا ہے۔ اگر عشق حاصل بھی نہ ہوجائے لیکن یہ عمر بھر بندے کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اس کی یادیں زندگی کا ایسا مستقبل حصہ بن جاتی ہیں کہ وقتاً فوقتاً ابھرتی رہتی ہیں۔یہ لمحے اتنے نزاکت لیے ہوتے ہیں کہ کبھی کبھار ایک پنکھڑی کو دیکھنے سے بھی شعور میں آتے ہیں کیوں کہ پنکھڑی اور محبوب میں نازکی کا اثر وجہ مشترکہ ہے۔
تیسرا شعر:
نشے میں پھر نماز کیسے ہو
نیند سے جب وضو نہیں رہتا(۳)

اس شعر میں ثاقب تبسّم ثاقب نے اسلامی و اخلاقی درس دیا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمایا ہوا فرمان کہ نشے کی حالت میں نماز کی قربت اختیار مت کریں، کو اس شعر میں مستعار لیا گیا ہے جس کےلیے شاعر نے پہلے ایک منطقی قیاس بھی تراشا ہے۔ نماز کےلیے وضو کا ہونا ضروری ہے اور وضو نیند سے ٹوٹتا ہے۔ نیند اور نشے میں مشترک قدر بے خودی ہے اس لیے نماز بھی حالت نشے میں نہیں ہوسکتی۔
چوتھا شعر:
بھوک کا ہر طرف بسیرا ہے
عشق اب کُوبکُو نہیں رہتا(۴)

اس شعر میں شاعر نے موجودہ زمانے کے سب سے بڑے المیے کو الگ انداز میں واضح کیا ہے۔ منٹو نے بھوک کو سب برائیوں کی ماں قرار دیا تھا جب کہ ثاقب کے خیال میں بھوک نے انسان سے اس کی جبلّی قدر عشق کو چھین لیا ہے۔ ترقی پسندانہ نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو شاعر نے غربت و افلاس کا بڑا تلخ نقشہ کھینچا ہے کہ بھوک نے ہر طرف اپنی چادر ایسے پھیلائی ہے کہ عشق کو کہیں دفن کردیا ہے۔

پانچواں شعر:
میکشو! شوق پر تمہارے تُف
رقص میں گر سبُو نہیں رہتا(۵)

یہ شعر استعاراتی انداز میں تصوف کے موضوع کو پیش کرتا ہے۔ سائل جب ذکر الٰہی میں مست ہوکر دنیا و مافیہا سے ناطہ توڑتا ہے اور صرف اپنے رب سے لو لگاتا ہے،تو ایسی حالت کو تصوف میں رقص سے منسوب کیا جاتا ہے۔ شاعر رقص کو شدت کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ولایت کا عرفان یہ ہے کہ کہ اپنے رب سے اپنے دل و دماغ ایسے پیوست کیے جائے کہ اطراف میں موجود مادی عناصر بھی آمادہ رقص ہوجائے۔ اس شعر کو مجازی معنی کا لباس بھی پہنایا جاسکتا ہے۔
چھٹا شعر:
آئینہ کیوں نگہ چراتا ہے
دیر تک روبرو نہیں رہتا(۶)

آئینہ بندے کو اپنی حقیقت یاد دلاتا ہے۔ جب کوئی بندہ آئینے میں اپنے عکس کا نظارہ کرتا ہے تو وہ اصل میں اپنے اصل کو ٹٹولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض انسان آئینے کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ حقیقت کو دیکھنے سے خوف کھاتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر نے ایسی کشمکش کی صورت حال کو بیان کیا ہے۔
ساتواں شعر:
قابلِ دید بھی کبھی ثاقب
قابلِ گفتگو نہیں رہتا(۷)

Advertisements
julia rana solicitors london

غزل کے اس آخری شعر میں ناپائیداری اور فنا کو مضمون باندھا گیا ہے۔ حسن چاہے کتنا ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہو زوال کا سامنا کرتا ہے۔ دراصل حسن کی وقعت اس کی نیستی ہی میں ہے اگر یہ ہمیشہ رہتا تو اس کی قدر اتنی نہ ہوتی۔ حسن کا چرچا ایک خاص مدت تک کیا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ یہ خاک ہوجاتا ہے۔
حوالہ جات
۱ )ثاقب تبسّم ثاقب ، روشنی اور میں، مرتب:دعا علی ،۲۰۲۴ء، ص ۱۳
۲ )ایضاً
۳)ایضاً
۴ ) ایضاً
۵ )ایضاً
۶ )ایضاً
۷ )ایضاً

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply