مہمان اور حفاظت کے تنخواہ دار/شہنازاحد

ایک وقت تھا کہ کراچی کی سڑکیں مہمانوں کی آمد سے سال میں کئی  بار رونق افروز ہوتی  تھیں۔ بجلی کے کھمبے مہمان ملک کے جھنڈوں سے  سجتے  تھے، تو دوسری جانب ہمارا چاند ستارہ بھی خوب اٹھکھیلیاں کرتا نظر آتا۔ آنے والے مہمان کی آمد پر زیادہ خوشی کا اظہار کرنا ہوتا تو تصویری جھنڈیاں بھی لگ جاتی تھیں۔ آمد مہمان کے روز سرراہ اور تھوڑے فاصلے کے تمام اسکولوں کے بچوں کو رنگ برنگی جھنڈیوں کے ساتھ آمد کی راہ داری کے دونوں جانب کھڑا ہونا ہوتا تھا۔ بچے سکھائے گئے  نعرے لگاتے، جھنڈیاں ہلاتے، کھلی چھت کی گاڑی میں سوار مہمان کھڑے ہوکے ہاتھ ہلاتا گزر جاتا اور بچے دیو مالائی  کہانیوں کے قصوں کی طرح مہمان کی کہانی سوچتے  سوچتے گھروں کو لوٹ جاتے۔

کل رات سے میرے پردہ ذہن پر وہ سارے مہمان چہل قدمی کیے  جا رہے ہیں۔ مسکراتے ہوۓ صدر سوئیکارنو،چمکتی ہوئی  ملکہ الزبتھ ، سجل سی جیکولین کینڈی،کھڑی ناک والے شاہ ایران اور ان کے پہلو میں دمکتی ہوئی  فرح دیبا،لمبی تھوڑی والے شاہ فیصل۔۔
ان یادوں میں چہرے تو ابھی بھی گھوم رہے ہیں لیکن ناموں کا گھپلا مچا ہوا ہے۔

جب جب مہمان آتے تھے اگلے دن سارے اخبار ان کی بڑی بڑی سیاہ سفید تصاویر شائع کرتے کہ وہ زمانہ بلیک اینڈ وایٹ کا تھا اور سچ پوچھیں تو ان دنوں ہر چیز یاتو سیاہ ہوتی تھی یا سفید، رنگوں کا کوئی  گرے زون نہ  ہوتا تھا۔ ہاں ہوتی تھی یانہ ،نہ مصلحت ہوتی تھی نہ منافقت،کیسا اُجلا دور تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آپ ہی بتائیں جب گھر کوئی  مہمان آتا ہے تو کیاہم کھڑکیاں دروازے بند، راہ داریاں اندھیر ی،گزر گاہیں سنسان کر کے چرند پرند کواُڑا دیتے ہیں،سبزہ گل سے کہتے ہیں انگڑائی  مت لینا،چاند تاروں کا چمکنا ممنوع کردیتے ہیں؟
پھر یہ کیا ہے؟
یہ بند وہ بند، بس یہ حکم نہیں صادر ہوا کہ سانس بھی آہستہ لینا ورنہ سانسیں ناپنے آجائیں گے۔
عجب وقت آگیا ہے۔
چھ ساڑھے چھ لاکھ نفوس پر مشتمل جواں مرد فوج، ہواؤں سے سرگوشیاں کرنے والے ہواباز اور سمندر کی تہوں میں تہلکہ مچاتے سمندری جوان، یہاں سے وہاں تک پھیلے رینجرز، سول آرمڈ فورسز،ایف سی ،فرنٹیئر کور، فرنٹیئر کانسٹبلری، لیوز ،کوسٹ گارڈز۔ ۔۔ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہواکہ اس کے بعد سول انتظامیہ کی دست راست پولیس اور پولیس کے اندر در اندر مختلف ناموں والی سو کالڈ حفاظتی ایجنسیاں پھر ان ایجنسیوں سے بچاؤ کے لئے پالے جانے والے گارڈز ، کمپنیوں کے گارڈز سے بچانے کے لئے ذاتی گارڈز۔۔ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
ابھی کل ہی اخباروں نے سینہ تان   تان کے خبر لگائی ہے کہ برطانوی فوج کے سربراہ نے پاکستانی فوج کی تعریف کی ہے۔
اتنی تعریفیں اتنے قلابے اور ایک مہمان آۓ تو شہر بیابان،گلیاں ویران،دریچے اجاڑ گویا شہر نہ ہوا قبرستان ہوگیا جہاں اداسی بال کھولے  پھر  رہی ہو۔
پھر کوئی  یہ بھی تو بتاۓ کہ یہ سب در دروازے بند کرنے کے نتیجے میں جو کروڑوں  اربوں کا نقصان ہوگا وہ کون پورا کرے گا۔؟
آنے والا مہمان، آئی  ایم ایف،حفاظتی امور پر مامور وہ لاکھوں لاکھ لوگ جو برسہا برس سے حفاظت کے تنخواہ دار ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply