جنرل باجوہ اگر چُپ رہ سکیں تو/ ارشاد محمود

روزنامہ جنگ کے مطابق سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ باجوہ نے قسم کھا کر کہا کہ میں نے امریکہ  کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی حکومت نہیں گرائی ۔ شادی کی ایک تقریب میں جناب مجیب الرحمان سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ باجوہ نے جیب سے قرآن پاک نکال کر اس پر قسم کھا کر کہا کہ نواز شریف کو خرابی صحت کی بنا پر لاہور سے لندن بھجوانے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔

جنرل باجوہ کی گفتگو سن کر مجھے سمجھ آئی کہ عذر گناہ بدترازگناکس کو کہتے ہیں۔ جنرل باجوہ کی مہم جوئی، ہوس اقتدار اور رعونت نے پاکستان کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اسے نکلتے نکلتے کئی برس درکار ہیں۔ بلکہ ہر آنے والا دن ملک کو مزید مشکلات کا شکار کرتارہے گا۔

•   بدقسمتی یہ ہوئی کہ فوج جو کہ ایک قومی ادارہ ہے کو ملکی آبادی کی ایک بڑے حصہ جن میں خاص طور پر معاشرے کے فعال طبقات اور بیرون ملک آباد پاکستانی شہری بھی شامل ہیں کے مدمقابل کھڑا کردیا گیا۔

•   جنرل باجوہ نے فوج اور خفیہ اداروں کو سیاست میں ایک فریق بنادیا اب وہ ایک قومی ادارے سے زیادہ ایک سیاسی جماعت کی طرح بیروئے کار آتے ہیں۔ ادارے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔اپنی پسندیدہ سیاسی قوت کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ سیاست دان بالخصوص نون لیگ اور پی پی پی فوجی طاقت کواپنےسیاسی مخالفین کا مکھو ٹھپنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ جوابی طور پرانہیں عسکری ادارے کو سخت سماجی اور سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ جو کہ فطری ہے۔ یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں

•  علاوہ ازیں جنرل باجوہ اور ان کے ہم عصر جنرل حضرات بالخصوص جنرل فیض اور ان کی ٹیم پر مالی بے ضابگیوں کے سنگین الزامات ہیں۔ حتٰی کہ ہاؤسنگ سوسائیٹیوں سے مال اینٹھنے کے واقعات کی گونچ سپریم کورٹ میں بھی سنی گئی ہے۔ لیکن فوج کے خود احتسابی کا نظام ابھی تک حرکت میں آیا اور نہ سپریم کورٹ نے جرآت رندانہ کا مظاہرہ کیا۔

• جنرل باجوہ کی ناک کے تلے بلکہ ان کی رضامندی سے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کو رسوا کرکے نکالا گیا اور پھر چند سال بعد جنرل صاحب کا عمران خان سے بھی دل بھرگیا۔ پھر سارا نظام ان کے خلاف سازشوں میں جت گیا۔ سینکڑوں بے مقصد اور فضول مقدمات انہیں قید وبند کا سامنا کرنا پڑھ رہاہے۔

• آخر انتقام اور ہوس اقتدار کی بھی بھائی کوئی حد ہوتی ہے۔

• ایک طرف عسکری اداروں کا بال بال سیاست میں الجھا ہوا ہےتو دوسری طرف ملک میں امن وامان کا عالم یہ ہے کہ چینی باشندے سرعام مارے جاتے ہیں۔ ہر ہفتے بم دھماکے ہوتے ہیں۔ پولیس اور عام شہری مسلسل جاں بحق ہورہے ہیں۔ جواب میں مذمتی بیانات، جوابی کارروائی کا عزم اور تحقیقی کمیٹیوں کے اعلانات کے سوا کچھ حاصل وصول نظر نہیں آتا۔

• اگر جنرل باجوہ اور ان کے پیش رو فوج اور خفیہ اداروں کو سیاست کی آلودگیوں میں نہ الجھاتے توآج ملک میں کم ازکم امن وامان کی صورت حال اس قدر گھمبیر نہ ہوتی۔

• جنرل باجوہ بجائے اپنی صفائیاں دینے کے قوم سے اپنی غلطیوں پر معافی مانگیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اور اپنے ادارے کو اصلاح واحوال کی طرف متوجہ کریں۔ انہیں اپنے آئینی دائرہ کار میں رہنے کی تلقین کریں۔

• باجوہ صاحب کو قوم معاف کرسکتی ہے اگر وہ عمرکے اس آخری حصے میں اپنے ادارے کو قائل کرسکیں کہ سیاست کا مقابلہ سیاستدانوں کو سیاست سے کرنےدیا جائے۔ ریاستی طاقت کے ذریعے عوام کے دل و دماغ کو مسخر نہیں کیا جاسکتاہے ۔ اگر ریاستی طاقت سے سیاسی حقیقتیں بدل سکتیں تو آج عمران خان کاکوئی نام لیوا اس دھرتی پر نہ پایا جاتا اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کب کی تاریخ کا گم گزشتہ باب بن چکی ہوتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس لیے باجوہ صاحب اداروں کو باورکرائیں کہ وہ سیاسی کارکنان اور صحافیوں کا تعاقب کرنے بجائے دہشت گردوں کی سرکوبی کریں تاکہ قوم سکھ کا سانس لے سکے۔
اگر جنرل باجوہ یہ سب نہیں کرسکتے تو قوم پر ان کا سب سے بڑا احسان یہ ہوگا کہ وہ اپنا منہ بند رکھیں۔

Facebook Comments

ارشاد محمود
Columnist/Commentator at 92 News HD Plus

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply