• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • داستان محمود و ایاز، صنف زوجان، ہم جنس پرستی یا کچھ اور؟ -عثمان انجم زوجان

داستان محمود و ایاز، صنف زوجان، ہم جنس پرستی یا کچھ اور؟ -عثمان انجم زوجان

قریباً ہزار سال پہلے دسویں صدی کے آخر پر سامانی عہد میں سلطنت غزنویہ کا نامزد آزاد سلطان بُت شکن یمین الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین المعروف سلطان محمود غزنوی خرقانی کی داستان صنف زوجان سے متعصف تھی۔ یمین الدولہ مردانہ اور زنانہ صفات کا حامل تھا۔ یمین الدولہ سلطان محمود غزنوی کی جہاں مردانہ وجاہت کا تذکرہ درج ہے، وہاں اس کی زنانہ شباہت کا تذکرہ بھی درج ہے کہ محمود بدن میں ایک پوری عورت تھی، لیکن کسی بھی مورخ نے اس کا ذکر اس اعتبار سے نہ کیا بلکہ اس کے صنفی کردار کو مشکوک کر کے اسے جنسی کردار کے الزام سے متنازع  بنا دیا۔

کہیں مورخین نے سلطان محمود غزنوی کے واقعات بیان کرتے ہوئے   اشارے میں بھی ایاز کا ذکر نہیں کیا۔ مثلًا علامہ ابن کثیر نے البدایۃ و النہایۃ میں 366ھ تا 421ھ کے واقعات میں 16 مقامات پر سلطان محمود غزنوی کا ذکر کیا، لیکن ایاز کا ذکر ایک بار بھی نہیں آیا۔ ابن کثیر نے سلطان محمود کی وفات پر ان کے نام کے ساتھ “رحمۃ اللہ علیہ” لکھا ہے۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ ابن خلدون میں سلطان محمود غزنوی کے واقعات کو تقریبًا 40 صفحات پر بیان کیا ہے، لیکن ایاز کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان مورخین کے نزدیک ایاز کوئی اہم شخصیت نہیں تھا نہ ہی وہ محمود کی زندگی میں کوئی بہت بڑی اور اہم شخصیت تھا، ورنہ جہاں سلطان کے باقی سرداروں اور امراء کا ذکر ہوتا ہے وہاں ایاز کا بھی ذکر ہوتا۔ محمود و ایاز کے باہمی تعلقات کا زیادہ تر بیان صوفیاء اور عام شعراء کے کلام میں آیا ہے۔ صوفیاء اور عام شعراء نے زیادہ تر محمود و ایاز کے باہمی تعلقات کو حکمت و اخلاص بھرا تعلق بتایا ہے جبکہ چند شعراء نے بغیر کسی ثبوت کے اسے حسن و عشق کی داستان بنا دیا ہے۔ہر شاعر کا اپنا اپنا اندازِ بیان ہے۔

شیخ سعدی، مولانا روم، شیخ فریدالدین عطار، مولانا جامی نے ایاز کی آقا سے وفاداری اور اس کے پُر حکمت اقوال کو واقعاتی صورت میں پیش کیا ہے اور ان سے اللہ اور بندے کے تعلق کیلئے اسباق اخذ کیے ہیں۔ جبکہ کچھ دنیادار شعراء نے محمود و ایاز کے تعلق کو قصہ گوئی کے انداز میں بڑھا چڑھا کر داستانِ عشق بنا دیا ہے اور شعری ضروریات کے تحت ایاز کو حسن کا پیکر اور محمود کو اس کے حسن کا شیفتہ ظاہر کر دیا ہے۔

سلطان محمود کے 900 سال بعد آنے والے علامہ شبلی (م : 1914 عیسوی) نے اپنی کتاب شعرالعجم صفحہ 62 پر ایک واقعہ درج کر دیا تھا، جس سے کہانی نویسوں کو سلطان پر ہم جنس پرستی کا الزام لگانے کی جرات ہو گئی ہے۔ اس قصہ میں ہے کہ ایاز محمود کا ساقی تھا، شعر العجم کی تحریر درج ذیل ہے

سلطان محمود غزنوی کو جو ایاز سے محبت تھی اگرچہ حد سے زیادہ تھی لیکن اس میں ہوس کا شائبہ نہ تھا ۔ایک دن بزم عیش میں بادہ و جام کا دور تھا، محمود غزنوی خلاف عادت معمول سے زیادہ پی کر مست ہو گیا اسی حالت میں ایاز پر نظر پڑی ،اس کی شکن در شکن زلفیں چہرہ پر بکھری ہوئی تھیں محمود غزنوی نے بے اختیار اس کے گلے میں ہاتھ ڈال دیے لیکن فوراً سنبھل گیا اور جوش تقوی میں آکر ایاز کو حکم دیا کہ زلفیں کاٹ کر رکھدے، ایاز نے فوراً حکم کی تعمیل کی، اگلے دن جب اسے ہوش آیا تو اسے بہت ندامت ہوئی

تاریخ کے غزنوی کی تڑپ اور زلف ایاز کے خم پر کچھ لوگوں کی  تیوریاں چڑھ سی جاتی ہے!

اس موضوع پر میں ایک مفصل مضمون لکھ چکی ہوں، البتہ یہاں پر بال جبریل سے اقبال کے ایک شعر سے استفادہ کرتے ہیں!

شہید ِ محبّت نہ کافر نہ غازی
محبّت کی رسمیں نہ تُرکی نہ تازی
وہ کچھ اور شے ہے، محبّت نہیں ہے
سِکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی

اقبال کے اس شعر میں ایک اہم راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ محمود غزنوی اور اس کے پسندیدہ غلام ایاز کے مابین جو رشتہ تھا وہ کچھ اور تو ہو سکتا ہے لیکن اسے جذبہ محبت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا!

اس تعلق کو اقبال کے نقطہ نظر کی روشنی میں واضح کیا جائے تو بات صنف، جنس اور نفس پرستی تک چلی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مورخین نے اس صنف زوجان کو پس پشت رکھ کر ہی رومی و شمس، ہارون جعفر، خسرو و نظام ، بلھا وعنایت، لال و مادھو اور محمد و پیرا پر ہم جنس پرستی اور نفس پرستی سے جیسے الزامات لگائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply