وطنِ عزیز کا تازہ ترین المیہ/احمد علیم

پہلے پبلک قمر جاوید باجوہ،عاصم سلیم باجوہ، اور فیض حمید کی چال کو سمجھنے کے باوجود ان سے خوفزدہ رہتی تھی، اور انہوں نے بھی عمران خان کو سامنے رکھا اور سی پیک کو لُوٹ کر رول بیک کرنے کی امریکہ سے اندر کھاتے کمائی بھی کر لی۔

اب گرچہ فوجی تو انسان بنے ہوئے لگتے ہیں لیکن بندیال کے ٹرکی ججز اپنی سابقہ کرپشن کے تحفظ کے لیے متحرک ہیں، اسی لیے جہاں تک ممکن ہو عمران خان کو بچا رہے ہیں کیونکہ جس دن اسے آئین اور قانون کے مطابق سزا ملی اس نے گویا خود ساختہ سلطانی گواہ بن کر پورے سسٹم کا  سفلی کردار سامنے لے آنا ہے۔

اب پبلک کا ڈر کافی حد تک اُتر چکا ہے، لیکن پبلک گالم گلوچ کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتی، سو یہی وطنِ  عزیز کا تازہ ترین المیہ ہے، پبلک اپنی مہنگی ہوتی زندگی کی حسرتوں میں مبتلا نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ بات تو سچ ہے کہ جب زندگی ہاتھوں سے نکلتی، جاتی دکھائی دے رہی ہو تو شخصیت میں عزت ِنفس کے اعلیٰ پیمانے اور وضع داریاں نہیں در آتیں، زبان و بیان کم از کم عمران خانی اوئے توئے جیسا نشہ آمیز تو ہو ہی جاتا ہے، اور یہ تو نسبتاً خود کفیل لوگوں کے ساتھ ہے، نچلی سطح کے غربت کے مارے ہنر مند مستری مزدور ٹائپ اپنی ڈب میں چاقو چھری پستول چھپائے سٹریٹ کریمنل ہونے کی تلاش میں ہیں۔

وطن ِعزیز کی اس کمتر حالت کے ذمہ دار قمر جاوید باجوہ، عاصم سلیم باجوہ، فیض حمید اور دیگر  ایسی ہی شخصیتوں کے مالک  فوجی تو بنیادی مجرم تھے لیکن فوج سے کہیں زیادہ ملک دشمن کردار ہماری عدلیہ کے غلیظ ترین ثاقبوں  کا رہا۔۔افسوس! ان ٹرکی ججوں نے انصاف کے نام پہ دلالی کی اور آئین اور قانون سے روگردانی کرتے ہوئے پاکستان کو ڈیفالٹ کے دہانے پہ لا کھڑا کیا۔

اب ایسی صورت حال میں عوام  جانتے بوجھتے ہوئے اپنی زندگی کی روزمرہ بڑھتی ہوئی ہر قسم کی مشکلات سے لڑتے لڑتے اگر نیوروسس سے ہو کر سائیکوسس کی کیفیت میں مبتلا ہو جائے تو کچھ عجب نہیں ہے۔ اِسی پاگل پن میں اگر پبلک نفرت کرتی ہے تو کیا بُرا کرتی ہے۔ پبلک کو نفرت کرنے کا جواز بھی تو باجوہ اینڈ کمپنی اور ثاقب   اینڈ کمپنی نے  فراہم کیا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا معاشرے میں تحمل مزاجی،  وضح داری یا یوں  کہیں کہ انسانیت کی پھر سے کوئی گنجائش ہو گی یا سب کچھ اسی طرح گراوٹ کا ہی شکار رہے گا۔؟ اس کا کوئی مناسب حل بھی ہو گا؟

اس تمام ذلالت کا حل صرف فوج کے ہاتھ میں ہے۔ سب سے پہلے اپنے اندر کے دلالوں کو گرفتار کر کے حقیقی سزائیں دے، اس کے بعد ثاقب ناسور اینڈ کمپنی کے دلالوں کو بندیال سمیت ٹرکی ججوں کو کمرہ نمبر1 کے کٹہروں میں کھڑا کیا جائے۔ عمران خان کے ساتھ البتہ مناسب سلوک کیا جائے، اس گدھے کو لا کر جنہوں نے اسے 4 سال صرف بک بک کرنے پہ رکھا اور اندر ہی اندر ملک لوٹ کر کھا گئے، سخت سزا کے حقدار تو وہ ہیں۔۔ عمران خان کی سزا بہرحال ناگزیر ہے، بہتر ہے کہ اسی سے پوچھ لیں کہ مکمل جلاوطنی اور پی ٹی آئی کا خاتمہ چاہیے، عمر قید بامشقت یا  لوٹے گئے کھربوں روپوں کی واپسی پہ کچھ سہولتوں کا امکان، بیگم بشری کو ساتھ رہنے کی خصوصی اجازت  اور بھی بہت کچھ۔۔

بات بس اتنی ہے کہ پبلک ان سب دلال ٹائپ کرداروں کو اپنی حسرتوں، آرزوؤں اور مشکلات کا باعث سمجھتی ہے، یہ لوگ قانون کے اپنے ہمکاروں، سہولتکاروں ،ناسوروں کے سہارے بچ بھی جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے،پبلک تو ہمیشہ گندی گندی بد دعائیں دے کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر لیتی ہے
جا بے باجوے تجھے کیڑے پڑیں۔۔ ابے ثاقب ناسور منحوس تجھے آئے کسی کی آئی۔۔ ارے کھوسہ تو بلڈاگ ہو کے مرے گا۔۔ اوئے فیض حمید کاش تیری بیوی نے تجھے سینے پہ گولی ماری ہوتی۔۔بھگوڑے پیچھے سے گولی کھانے والے ۔۔ وغیرہ وغیرہ

Advertisements
julia rana solicitors london

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں (غالب)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply