• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا مذہب اور دین جدا ہیں؟- ایک مغالطہ/تحریر -عامر کاکازئی

کیا مذہب اور دین جدا ہیں؟- ایک مغالطہ/تحریر -عامر کاکازئی

‎ مذہب کا عربی زبان میں مطلب “راستہ”سے ہے۔ ایسا راستہ جس پر چلا جاۓ۔ یہ عربی لفظ “ذ-ھ-ب” سے اخذ کیا ہُوا ہے۔ لغت میں بھی لفظ مذہب دھرم اور دین کے ہیں۔ تینوں الفاظ کے معانی میں کوئی فرق نہیں مگر مختلف مذہبی اسکالرز خاص کر ہندی سکالرز کے نزدیک لفظ مذہب “رائے یا مسلک” کے معنی میں استعمال کیا جانا چاہیے۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب فرقہ ہے۔
دوسرے معنوں میں لغوی طور پر دین اور مذہب ہم معنی ہیں لیکن فقہی مکاتب کے ہاں لفظ “مذہب” مخصوص سوچ یا نظریے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ تفریق رسول پاک ﷺ کے زمانے میں نہیں تھی نہ  پی ان کے بعد۔ یہ تفریق حالیہ کچھ دو سو سال سے ہند سے تعلق  رکھنے والے مذہبی اسکا لرز نے بیان کرنی شروع کی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب کرسچئن اپنے مذہب کے لیے لفظ “دین” ہی استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح آج کل کے یہودی بھی  عبرانی زبان میں لفظ  “دین” ہی استعمال کرتے ہیں۔ عربی کا لفظ”دین” نکلا ہی عبرانی زبان سے ہے۔

آرتھر جفری،آ سٹریلین   ،زبان کے ماہر، کے مطابق لفظ” دین”  دائینا سے نکلا ہے جو کہ زرتشت کی مذہبی کتابوں میں استعمال ہُوا ہے۔ بدھسٹ نے بھی لفظ دائینا مذہب کے لیے استعمال کیا ہے۔
اگر ہم قرآن سے مدد لیں تو قرآن میں بھی اللہ نے دین سے مراد مذہب ہی لیا ہے اور اسلام کے لیے بھی اور اغیار کے مذاہب کے لیے بھی ایک ہی لفظ “دین” استعمال کیا ہے۔

یہ تفریق بعد کے ادوار میں پیدا کی گئی کہ مذہب اور دین دو الگ الگ تصورات ہیں۔ اس تصور کو فروغ دینے میں ہندی سکالرز کا زیادہ ہاتھ ہے، انہوں نے دوسروں کے مذاہب سے اپنے مذہب کو اونچا کرنے اور اپنے آپ کو منفرد بنانے کے لیے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اسلام دین ہے نہ  کہ مذہب۔ دین سے پھر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسلام زندگی گزارنے کا ضابطہ حیات ہے۔ مطلب کہ دوسرے مذاہب وقت گزاری کے لیے ہیں اور اسلام  آپ کو زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں بتاتا ہے کہ انسان نے پوری زندگی کیسے گزارنی ہے۔

یہ ضابطہ حیات والا خیال سید جمال الدین افغانی سے ہوتا ہُوا ہندی مسلمانوں خاص کر مولانا مودودی صاحب کو متاثر کر گیا، ہندوستان میں مولانا  مودودی نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا کہ دین زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسی نظریہ سے دین اور مذہب کے درمیان کا فرق واضح  ہُوا۔ اس نظریہ کا مقصد صرف اپنے مذہب کو دوسروں کے مذہب سے بہتر اور اعلیٰ  بنانا تھا۔ حالانکہ  یہ صدیوں سے صرف “دین” ہی تھا۔ دین مطلب religion۔

ہمارے ایک دوست جناب مسعود رحمان صاحب نے یہ فرق کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

مذہب اور دین ایک ہی چیز ہے ۔ مذہبی لوگ اسے الگ الگ کر کے اپنے مذہب کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر دونوں کا انگلش میں ترجمہ کیا جائے تو وہ religion ہی بنتا ہے ۔ ہندی میں دھرم بنتا ہے۔ religion کیا ہے ۔ ایک ایسی سوچ اور نظریہ جس میں یہ تسلیم کیا جائے کہ کوئی طاقت یا خدا موجود ہے جو سب کچھ کر رہا ہے پوری کائنات چلا رہا ہے اور جس میں اسکی پوجا یا عبادت کی جاتی ہے ۔ دنیا کا ہر مذہب یا دین اسی سوچ کی پیروی کرتا ہے ۔ مسلمان اس میں تھوڑا اضافہ کر دیتے ہیں کہ جی یہ ایک سسٹم ہے جس میں زندگی گزارنے کا طریقہ ہے ۔ سسٹم ہے یا جو بھی ہے بنیادی فلسفہ تو وہی ہے کہ ایک سپر نیچرل پاور ہے جس کو ماننا یا عبادت کرنا ضروری ہے ۔ اب آپ چاہیں تو مذہب بولیں چاہیں تو دین بول لیں کیا فرق پڑتا ہے ۔

ویسے ہندو سکھ عیسائی یہودی بھی اپنے مذاہب کو سسٹم ہی مانتے ہیں جس میں زندگی گزارنے کے تمام اصول دیئے گئے ہیں مسلمانوں کی طرح اُن کا بھی یہی دعویٰ ہے۔ ان تمام مذاہب میں ایک مذہبی زندگی کے طور طریقوں اور رسموں رواجوں کو اپنے مذہب کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتا ہے ۔ آپ کسی آرتھوڈوکس کرسچئن کی زندگی کو دیکھ لیں ،کسی یہودی آرتھوڈوکس کو دیکھ لیں یا کسی ہندو آرتھوڈوکس کو دیکھ لیں سب میں یہی قدر مشترک ہو گی کہ ان سب کی زندگی کا ایک ایک قدم اپنے مذہب کی تعلیم کی پیروی کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور یہی کچھ مسلمان بھی کرتے ہیں تو اس لحاظ سے سب ایک جیسے ہی ہیں ۔ لیکِن فرق صرف یہ ہے کہ مسلمان باقی مذاہب کے پیروکاروں سے کچھ زیادہ ہی جذباتی اور جنونی ہیں ۔ باقی مذہب میں ایسا نہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ، تعلیم سے ہونے والے شعور اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے بہت کم لوگ مذہب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

غرض کہ سب کو، خاص کر پاکستانی مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ دین اور مذہب کا مطلب ایک ہی ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی انسان سے اعلیٰ  یا برتر نہیں ہیں۔ جس دن آپ نے یہ سمجھ لیا، اسی دن اس ملک سے دوسروں کے ساتھ نفرت ختم ہو جائے گی۔

یہ چھوٹی سی بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت برتر وہ قومیں ہیں جو کہ سائنس، علم اور تعلیم میں آگے ہیں، نا کہ مذہب یا دین یا نسل میں۔

Advertisements
julia rana solicitors

چلتے چلتے مولانہ وحید الدین خان صاحب کا ایک فرمان ان ہندی مسلمانوں کے لیے جو اپنے دین کو  ضابطہء  حیات سمجھتے ہیں۔ مولانا وحید الدین خان صاحب نے  اپنی مشہور کتاب “تعبیر کی غلطی” (جو غالبا” 1963 میں شائع ہوئی )میں ٹھیک یہی موقف اختیار کیا ہے کہ مذہب کا مقصد سیاسی,معاشی یا معاشرتی نظام قائم کرنا نہیں ہے۔بلکہ اس کا اصل مقصد تزکیہ نفس و روحانی پاکیزگی و روحانی نجات ہے۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply