احیائے نو (Renaissance) (26)۔۔وہاراامباکر

تیرہویں اور چودہویں صدی میں یونیورسٹیوں کے سکالر ایمپیریکل سائنسی طریقہ بڑھاتے رہے لیکن یورپی سائنسی فکر کا دھماکہ فوری نہیں ہو گیا۔ یورپی سوسائٹی میں موجد اور انجینیر تھے جنہوں نے ابتدا میں ہلچل پیدا کی۔ یہ چودہویں سے سترہویں صدی کے بیچ ہونے والی تبدیلیاں تھیں۔ یہ پہلی بار انسانی تہذیب کی ایجاد تھی جس کا بڑا حصہ انسانی جسمانی قوت پر بھروسے کے بغیر تھا۔ جسمانی طاقت کا کام ٹیکنالوجی کے سپرد ہو رہا تھا۔ پن چکی، ہوائی چکی اور نئی مکینیکل ایجادات دیہی زندگی کا حصہ بن رہی تھیں۔ ان سے لکڑی چیرنے والے آرے، آٹا پیسنے کی مِل اور کئی ہوشیار مشینیں بنائی گئی تھیں۔ ان کا تعلق تھیوریٹیکل سائنس سے نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے آنے والی جدتوں کے لئے راہ ہموار کر دی۔ کیونکہ اس سے یہ سوچ پیدا ہوئی تھی کہ فطرت کی سمجھ انسانی حالت بہتر کر سکتی ہے۔

ایجادات کی اس لڑی میں ایک بڑی اہم ٹیکنالوجی ایجاد ہوئی جس نے آنے والی سائنس پر براہِ راست اثر ڈالا۔ یہ چھاپہ خانہ تھا۔ اس سے پہلے چینی 1040 میں اسے بنا چکے تھے لیکن چینی حروفِ تہجی کے پکٹوگرام ہونے کی وجہ سے یہ زیادہ مفید نہ تھا۔ یورپ میں 1450 میں اس ایجاد نے بہت کچھ بدل دیا۔ لاطینی حروفِ تہجی کا اس پر استعمال آسان تھا۔ 1483 میں ریپولی پریس ایک کتاب کے لئے اتنا معاوضہ لیا کرتا تھا جتنا ایک کاتب تین کتابوں کے لئے۔ لیکن ایک بار سیٹ اپ ہو جانے کے بعد رپولی ہزار یا اس سے بھی زیادہ کاپیاں چھاپ دیتا تھا۔ جبکہ کاتب کو ہر کتاب انفرادی لکھنی ہوتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سے اگلی چند دہائیوں میں یورپ میں اتنی کتابیں چھپیں جو اس سے پچھلی صدیوں کی تاریخ سے کہیں زیادہ تھیں۔

چھاپہ خانے نے کتاب اور انفارمیشن کو مڈل کلاس کی دسترس میں پہنچا دیا۔ نئی مڈل کلاس مضبوط ہوئی اور اس نے انفارمیشن کی سرکولیشن یورپ بھر میں بڑھا دی۔ اب علم کی رسائی زیادہ لوگوں تک پہنچنے لگی۔ چند ہی سالوں میں ریاضی کے پہلے باقاعدہ ٹیکسٹ چھپے اور 1600 تک یہ ایک ہزار تک ہو چکے تھے۔ ایک نئی تحریک پرانی تحریروں کی ریکوری کی تھی۔ یہ سب کچھ زیادہ لوگوں تک پہنچنے لگ گیا۔ تنقید اور تبدیلی کے عمل سے گزرنے لگا۔

ایک بڑا تضاد یہ ہے کہ یورپ کو اس میں ایک فائدہ سیاسی انتشار کا رہا۔ یورپی کے الگ قصبوں اور ممالک کے آپس میں مقابلے کی دوڑ تھی۔ چرچ، ریاست، بادشاہ الگ سمت میں کھینچتے تھے۔ معیشت اور سیاست پر مرکزی کنٹرول نہیں تھا۔ بڑھتی ہوئے صارفیت کی وجہ سے جدتوں پر روک ٹوک نہیں تھی۔ نئی ایجادات اور اختراعات سے منافع کمایا جا سکتا تھا۔ اور اس وجہ سے آرٹ اور سائنس کو تبدیلی کی زیادہ آزادی تھی۔

سیاہ موت نے یورپ کی ایک تہائی سے نصف کے درمیان آبادی کو ختم کر دیا۔ اس نے کئی پرانے جامد سٹرکچر گرا دئے۔ اور اس کے فوری بعد شروع ہونے والا احیائے نو اٹلی سے شروع ہوتا ہوا سولہویں صدی تک جا کر یورپ کے مغرب تک پہنچا۔

آرٹ میں مجسمہ سازوں نے اناٹومی بنانا سیکھی اور مصوروں نے جیومیٹری سیکھی۔ ان کا مقصد فططرت کی مشاہدے پر مبنی عکاسی کرنا تھی۔ اناٹومی کی ایکورسی، روشنی اور سائے سے تین ڈائنمنشن بنانا، لینئیر زاویہ نگاہ سے دکھانا۔ یہ اس سے پہلے کئے جانے والے آرٹ سے بہت مختلف تھا۔ اور اسی نے میڈیکل سائنس کی نئی تفہیم بھی ممکن بنائی جس کو اب ڈایاگرام سے سکھایا جا سکتا تھا۔ موسیقاروں نے صوتیات کو سٹڈی کیا۔ آرکیٹکٹ نے عمارتوں کے تناسب کو اور سکالرز نے نیچرل فلسفے کو جسے ہم اب سائنس کہتے ہیں۔ ڈیٹا اکٹھا کرنا اور اس سے نتائج نکالنے کا طریقہ آیا۔ بجائے اس کے کہ محض منطقی تجزیے سے نتائج اخذ کئے جائیں۔

اس دور کی ایک مثال لیونارڈو ڈاونچی ہیں جو سائنس اور آرٹ میں تفریق نہیں کرتے تھے۔ سائنسدان، انجینیر، موجد کے علاوہ مصور، مجسمہ ساز، آرکیٹکٹ اور موسیقار بھی تھے۔ وہ انسان کو اور نیچرل دنیا کو تفصیلی مشاہدے سے سمجھنے کی کوشش میں تھے۔ ان کے نوٹس اور سٹڈی جو سائنس اور انجینرنگ پر ہے، وہ دس ہزار صفحات پر محیط ہے جو انہوں نے لکھے۔ بطور مصور وہ صرف تصویر بنا دینے پر قناعت نہیں کرتے تھے۔ انسان کی تصویر اس کی اناٹومی سمجھ کر بنانے کے لئے اناٹومی کی تفصیلی سٹڈی کی۔ اس کے لئے لاشوں کے آپریشن بھی کئے۔ نیچر کے ڈیزائن کے باریک نکات کیا ہیں؟ اس کی کھوج میں انہوں نے نئے طریقے نکالے۔

یہ وہ ماحول تھا جس میں احیائے نو کے دور کے آخر میں پیسا کے شہر میں 1564 میں گلیلیو پیدا ہوئے۔ ایک اور قدآور شخصیت ولیم شکسپئیر کی پیدائش سے صرف دو ماہ قبل۔ ان کے والد ایک مشہور بانسری بجانے والے اور میوزک تھیورسٹ تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply