• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چھتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چھتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

یونیورسٹی میں قدم قدم پر رکاوٹیں تھیں، کئی بار تو ایسا ہوا کہ ہم صحیح ہوتے ہوئے بھی خاموشی کا گھونٹ پی کر اپنے ہونٹوں کو سی دیتے کہ کسی کی قومی یا مذہبی غیرت نہ جاگ جائے۔ خاموشی میں ہی عافیت تھی۔یونیورسٹی کے ہر شعبے میں زور و شور سے 1947 کی آزادی کا جشن منایا جاتا، بےمعنی تقریریں اور کچھ ملّی نغموں کو بار بار دہرایا جاتا۔ اساتذہ، طالبعلم ہر کوئی ایک ہی رنگ میں رنگا ہوتا۔ ان بےمعنی نعروں، تقریروں اور نغمات سے ہم پہلے ہی عاجز تھے ،اس لیے ہماری کوشش ہوتی کہ ہم اپنے ڈیپارٹمنٹ سے نکل کر یونیورسٹی کا چکر لگائیں اور یہ دیکھیں کہ مزید کیا کچھ ہو رہا ہے، شاید کسی شعبے میں کچھ نیا دیکھنے کو مل جائے، کچھ نیا دیکھنے کی آرزو میں ہم ایک شعبے سے دوسرے شعبے میں پہنچتے، ہر طرف یکسانیت ہی چھائی رہتی، اگر کچھ نیا تھا تو وہ چودہ اگست کا کیک تھا، ہر ڈیپارٹمنٹ میں 14 اگست کے کیک پر خوب محنت کی گئی ہوتی، ہم خوشی خوشی ندیدوں کی طرح کیک کے ایک، دو پیس کھا کر آگے بڑھ جاتے۔ یوں 14 اگست کا پورا دن ہم کیک کاٹنے اور کیک کھانے میں گزارتے۔ کئی بار ہم نے سوچا کہ آخر کب تک ہم 14اگست کو یونہی مناتے رہیں گے۔ دہائیاں گزر گئیں لیکن ہم ابھی بھی ان ہی مسائل کا شکار ہیں، جن سے ہمارے آباؤ اجداد قیام پاکستان سے قبل دوچار تھے۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، کچھ یہی صورتحال جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں کی عوام کو بھی درپیش ہے جو کبھی ایک جغرافیائی حدود کے اندر رہائش پذیر تھے۔ پشاور سے لاہور، امرتسر، دہلی، کولکتہ، چٹاگانگ، ڈھاکا، ممبئی، کراچی، کوئٹہ سب ہی جگہ عوام کی بڑی تعداد بنیادی انسانی ضروریات زندگی سے محروم ہے۔ اکثریت کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ تعلیم و صحت کی سہولیات سے محروم یہ لوگ کیا واقعی میں آزاد شمار کیے جا سکتے ہیں۔۔۔ ان کو اس غیرانسانی صورتحال سے نکالنے کی ذمہ داری کن پر عائد ہوتی ہے۔۔۔

ایک طرف بیش قیمت جنگی ہتھیار اور دوسری طرف عوام کی یہ حالت۔۔۔۔ جو بےتحاشا پیسہ جنگی ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر صرف کیا جا رہا ہے اگر اس کا آدھا حصہ بھی ان لوگوں کی فلاح و بہبود پر لگا دیا جائے تو کتنے کروڑوں آنسوؤں کو بہنے سے روکا جا سکتا ہے۔

ہم اکثر پلان بناتے کہ اس بار یونیورسٹی میں 14 اگست کو جناح اور گاندھی کے پوسٹر لے کر امن والک کریں گے، کیونکہ عوام کے مسائل ایک سے ہیں، اگر ہم امن کی بات کریں گے تو لاتعداد مسائل اسی سے پیوست ہیں۔ امن کا راستہ اختیار کر کے ہی عوام کی زندگیوں کو فوری طور پر محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا یہ پلان محض پلان ہی رہا، یونیورسٹی میں ایک انچ بھی ہم اس کو آگے نہیں بڑھا پائے۔

دسمبر 2010 کا اختتام ہو چکا تھا۔ نئے سال کے آغاز میں ایک کرسچن عورت کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہونے لگے، ہر کوئی اس کو پھانسی پر چڑھانے کے لیے بڑھ چڑھ کر بیانات دے رہا تھا۔ ناموس رسالت کے قانون کے تحت لوگوں کی بس ایک ہی خواہش تھی کہ کسی طرح اُس “گستاخ” کو پھانسی کے تختے پر جھولتا ہوا دیکھے۔ ہم جیسوں کے لیے وہ تاریک دن تھے۔ طلوعِ آفتاب کے باوجود روشنی کا گمان نہ ہوتا تھا۔ اُس کرسچن عورت کی حمایت کرنے پر ہمیں بھی گھر اور گھر سے باہر دھمکایا جا چکا تھا۔ خوف کے اُسی ماحول میں ایک قتل کی خبر سے ہر ایک پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے،کسی کو یقین نہیں آتا کہ یہ سچ ہے،لیکن وہ سچ تھا۔۔۔

ٹی وی  سکرین پر بریکنگ نیوز بار بار دکھائی جا رہی تھی “گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کے گارڑ نے قتل کر دیا، قاتل گرفتار”۔ میں نے اس مختصر خبر کو موبائل پر ٹائپ کر کے شیماجی کو “ایس ایم ایس” کر دیا، ان کا فوراً جواب آیا کہ “کیا۔۔۔۔ آر یُو سیریس؟”۔ میں نے ان کو لکھا ہاں یہ سچ ہے آپ ٹی وی آن کیجیے، یہ خبر ابھی بھی  سکرین پر چل رہی ہے۔

گھر پر میں اور صائمہ اس قتل پر شاکڈ تھے، جس کو حفاظت کی غرض سے رکھا گیا وہ ہی قاتل کے روپ میں نکلے گا، اس بات پر ہمیں یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ اس بات پر ہمیں یقین کرنا پڑا۔ ہماری تاریخ میں بھی تو کئی ایسے قابلِ ذکر نام ہیں جن کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ہمارے یہاں عقیدے کے نام پر کسی دوسرے شخص کی جان لینا عین سعادت سمجھا جاتا ہے اور جب ملکی قوانین ہی ایسے بنا دیے جائیں تو پھر سوال اٹھانے کا حق ختم ہو جاتا ہے۔

گورنر پنجاب کے قتل پر ٹی وی اینکرز نے اپنے ٹاک شوز کی نئی بساط بچھا دی۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں عوام کے جذبات کو مزید اشتعال انگیزی کی طرف دھکیل رہا تھا۔ کسی نے بھی کھل کر اس قتل کی مذمت نہیں کی۔

قتل کے اگلے روز شہر میں پریس کلب کے پاس سلمان تاثیر کی یاد میں ہاتھوں میں موم بتیاں روشن کیے ایک مختصر واک کی گئی۔ اس میں شہر کے تقریباً  سب ہی انسانی حقوق کے کارکن شریک ہوئے۔ ہم لوگ سلمان تاثیر کے قاتل کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے موم بتیوں کو روشن کیے آگے بڑھ رہے تھے۔ خوف کے دنوں میں مختصر سا یہ قافلہ اس بات کی علامت تھا کہ لوگ بیدار ہیں۔ اس واک کے کچھ دن بعد میں اور صائمہ شیما جی کی طرف گئے تو وہ لوگ مذہبی انتہا پسندی اور حالیہ جنونیت کی لہر پر ایک  سٹریٹ تھیٹر بنانے کے بارے میں سوچ بچار کر رہے تھے۔ میرے اور صائمہ کے پاس بھی ایک آئیڈیا تھا، ہم نے انور جعفری کو مختصراً بتایا تو انہیں وہ خیال پسند آیا۔ اسی وقت انہوں نے کہا کہ آپ ان خیالات کو کرداروں کا روپ دے کر ڈائیلاگ لکھیں اس کے بعد ہم مزید اس پر کام کریں گے۔ چنانچہ میں نے اور صائمہ نے اس شام چار، پانچ کرداروں پر مشتمل ایک مختصر سا ڈرامہ لکھا۔ اس ڈرامے میں انور جعفری نے کچھ چیزوں کو مزید بہتر بنایا، نئے ڈائیلاگ بھی ایڈ کیے اور یوں ایک کھیل مکمل ہو گیا۔

وہ کھیل خصوصی طور پر ان عوامل (مذہبی بربریت) کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا جو ہمارے سماج کو کھوکھلا کر رہے تھے۔ شیما جی نے اس ڈرامے میں مجھے بھی کام کرنے کے لیے کہا، میرے لیے یہ خوشی کی بات تھی کہ ایک ایسے ڈرامے میں مجھے کام کرنے کا موقع مل رہا ہے جس پر بات کرنے سے ہر کوئی گھبراتا ہے۔ میں نے فوراً ہامی بھر لی۔

ایم اے کا پہلا سمسٹر شروع ہو چکا تھا، یونیورسٹی میں کلاسز کے بعد اس ڈرامے کی ریہرسل کے لیے میں روزانہ شیما جی کے گھر جاتا۔ دو ہفتوں کی مسلسل ریہرسل کے بعد ہم سب اس قابل ہو گئے تھے کہ اس کو پبلک کے سامنے پیش کر سکیں۔ اس ڈرامے کی ریہرسل کے دوران میرے اندر ایک نیا حوصلہ پیدا ہوا۔ مذہبی جنونیت کی باریکیوں کو بھی سمجھنے کا موقع ملا۔

کلفٹن، کوٹھاری پریڈ کے قریب سڑک پر وہ ڈرامہ جب پیش کیا جا رہا تھا تو راہگیروں کی اچھی خاصی تعداد جمع ہو چکی تھی۔ مذہب کے نام پر قتل کیے گئے بہت سے لوگوں کی زندگیوں پر مبنی اس تھیٹر پلے کو دیکھنے والوں نے خوب سراہا تھا۔ اس کھیل کے اختتامی گیت کے بول تھے۔۔
ان بڑھتے اندھیاروں کو، خون کے ان فواروں کو
ہم روکیں گے، ہم روکیں گے، ہم روکیں گے!

سال گزر رہے تھے اور گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ لوگ بھی قتل ہو رہے تھے۔ کچھ لوگ ناموس رسالت کے نام پر جیلوں میں قید تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں پر بھی ناموس رسالت کے الزامات کی خبریں اخبارات میں شائع ہونے لگی تھیں۔

پنجاب میں یونیورسٹی کا ایک لیکچرر جیل کی کال کوٹھڑی میں قید کسی وکیل کا منتظر اور کوئی وکیل اس کا کیس لڑنے کے لیے رضامند نہیں۔۔۔ ایسے میں بہت ہمت کر کے انسانی حقوق کا نمائندہ وکیل “راشد رحمٰن” اُس لیکچرر کے لیے آواز اٹھاتا ہے لیکن کچھ ہی دن بعد وہ وکیل قتل کر دیا جاتا ہے۔ خوف، دہشت کا راج سب ہی کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔

اندھیرے مستقل بڑھتے رہے، انسانی خون فواروں کی شکل میں بلند سے بلند ہوتا گیا لیکن ہم میں سے کوئی آگے بڑھ کر ان کو روک نہ سکا۔۔۔ جس نے روکنا چاہا اس کی سانسوں کو روک دیا گیا۔میں سوچتا ہوں کاش یہ زندگی اُس تھیٹر پلے کے اختتامی گیت کی مانند ہوتی جس میں ہم سب “گا” کر اس بات کا اعلان کر رہے تھے اور ہمارے سامنے کھڑے ہوئے لوگ بھی ہماری آواز سے آواز ملا کر گا رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان بڑھتے اندھیاروں کو، خون کے ان فواروں کو
ہم روکیں گے، ہم روکیں گے، ہم روکیں۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply