عمران خان بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟

عمران خان بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟
آصف محمود

عمران خان نے جس ناتراشیدہ لہجے میں غیر ملکی مہمان کھلاڑیوں کی تضحیک کی ہے اس نے ایک بار وہی سوال جنم دیا ہے : عمران خان بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟

سوال یہ ہے کہ عمران خان کو کیا ہو گیا ہے اور جواب یہ ہے کہ انہیں ایک عرصے سے جو خط عظمت لاحق ہو چکا تھا وہ اب بڑھاپے میں بگڑ کر ایک ناسور کی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے.

لاہور میں فائنل کرانے پر ان کی تنقید ایک قابل فہم بات تھی. صف نعلین میں کھڑے میرے جیسے طا لب علموں کی رائے بھی یہی تھی کہ پہلے ساری توانائیوں کے ساتھ دہشت گردی سے نبٹ لیں پھر میچ ہوتے رہیں گے. لیکن دوسری طرف کے موقف میں بھی خاصا وزن تھا کہ کہیں سے تو آغاز کرنا ہے خوف کا بت توڑنے کے لیے. میچ ہوا اور اللہ کے فضل سے کامیاب ہوا. چہروں پر ایک عرصے بعد رونقیں لوٹیں. اب حکومت سے جو بات کہنے کی تھی وہ یہ تھی کہ میچ ہو گیا مبارک ہو. اب وہ آگے بڑھے اور اسی توانائی کے ساتھ دہشت گردی سے نبٹے اور سول ڈھانچے کو طاقتور کرے. سب کچھ فوج پر نہ چھوڑے.

لیکن ایک کامیاب میچ نے معلوم یہ ہوتا ہے عمران خان کی پہاڑ جیسی انا کو ٹھیس پہنچا دی. اب ردعمل میں وہ مہمان کھلاڑیوں کی توہین پر اتر آئے ہیں اور غیر معیاری زبان استعمال کرنے لگے ہیں. جب وہ توہین آمیز لہجے میں ان کھلاڑیوں کو ” ریڑو کٹا” کہہ رہے تھے اور سفید فام نسل پرستوں کی سی رعونت کے ساتھ فرما رہے تھے کہ پتا نہیں کہاں افریقہ سے یہ کھلاڑی پکڑ کر لے آئے ہیں تو میں سوچ رہا تھا نرگسیت کا یہ سفر عمران کو کہاں لے جائے گا. سیمی جیسا کھلاڑی یہاں موجود تھا اور سر ویوین رچرڈ جیسا عظیم کھلاڑی کھیل بھلے نہ رہا ہو پی ایس ایل کا حصہ تھا اور یہاں موجود تھا. سر رچرڈ پاکستان تشریف لائے اور سیمی نے پختون کی دستار پہن کر انعام وصول کیا…. کیا ان کے احترام میں ہم مچلتی زبانوں کو تھوڑی دیر تھام نہیں سکتے تھے؟ آخری تجزیے میں لیکن معلوم یہ ہوا کہ عمران قومی مہمانوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے ہیں جو بنی گالہ آءے مہمانوں کے ساتھ ہوتا ہے. کبھی جسٹس وجیہہ الدین خود ہی بتا دیں کہ انہوں نے یہ کیوں کہا کہ میں کپتان سے تو پیار کرتا ہوں اس کے کتوں سے نہیں.

ارشاد تازہ نے تو ایک اور سوال بھی جنم دے دیا ہے : کیا عمران خان نسل پرست سفید فام تعصب کے بھی اسیر ہیں؟
زرا انداز گفتگو دیکھیے . فرماتے ہیں : پتا نہیں کہاں افریقہ سے کھلاڑی اٹھا کے لے آئے. تو جناب کرکٹ کیا صرف سر جیمز گولڈ سمتھ کا خاندان کھیل سکتا ہے؟

عمران کی تنقید بودی ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے. یہ غیر معمولی حالات تھے جن میں میچ کرانے کا فیصلہ ہوا. اس میچ پر نجیب آدمی کی طرح خوش نہ ہوا جا سکے تو نیم خواندہ سوتنوں کی طرح ہاتھ. نچا نچا کر کوسنے بھی نہیں دینے چاہئیں.

عمران خان تیزی سے بے نقاب ہو رہے ہیں. اعتدال توازن تدبر اور حتی کہ فکری دیانت بھی…… ہر معاملے میں وہ لمحہ لمحہ بے نقاب ہو رہے ہیں. اس کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک وقت آئے گا لوگ انہیں سنجیدگی سے لینا ہی چھوڑ دیں گے. اور ظاہر ہے یہ ایک المیہ ہو گا.

مکرر عرض ہے کہ عمران خان نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہیں. وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب سے افضل ہیں. ان جیسا کوئی نہیں. دوسرے پیدا ہی صرف اس لیے کیے گئے ہیں کہ ان سے محبت کریں اور چاہتے رہیں لیکن جواب میں انہیں کسی سے محبت کرنے یا کسی کا احترام کرنے کی ضرورت نہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران خان سے گزارش ہے وہ خود کو دیوتا نہ سمجھیں، انسان سمجھیں………. . وہ دیوتا نہ بنیں، انسان بنیں.

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply