• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکہ چین سے نہ ختم ہونے والے ٹکراو کی جانب گامزن۔۔سید نعمت اللہ

امریکہ چین سے نہ ختم ہونے والے ٹکراو کی جانب گامزن۔۔سید نعمت اللہ

امریکہ کے سابق وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کیسنجر 99 سال عمر رکھنے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر تزویراتی امور خاص طور پر انتہائی پیچیدہ اور مشکل ایشوز کے ایک ماہر تجزیہ کار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے یوکرین جنگ کے بارے میں حال ہی میں مغربی طاقتوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے مفاہمت کا راستہ اپنائیں۔ ان کے اس مشورے نے عالمی، خاص طور پر امریکی اور مغربی میڈیا میں بہت زیادہ ہلچل پیدا کر دی ہے جو اب بھی جاری ہے۔ ہنری کیسنجر نے حال ہی میں بلوم برگ ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی حکمرانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ چین کے خلاف “نہ ختم ہونے والے ٹکراو” کی جانب رواں دواں ہیں۔ انہوں نے ساتھ ہی امریکی حکام کو نیکسن کی لچک دکھانے کا مشورہ بھی دیا ہے۔

نیکسن کی لچک یا Nixonian flexibility تزویراتی امور میں زیر استعمال ایک خاص اصطلاح ہے جو امریکہ کے سابق صدر رچرڈ نیکسن کی حکمت عملی سے اخذ کی گئی ہے۔ ہنری کیسنجر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ جیوپولیٹیکل میدان میں دو اہم چیلنجز سے روبرو ہے جن کے تناظر میں نیکسن کی لچک پر مبنی حکمت عملی اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پہلا چیلنج، توقع کے مطابق یوکرین جنگ اور اس جنگ کے نتیجے میں روس اور مغربی دنیا کے درمیان ممکنہ بھرپور اور وسیع ٹکراو سے متعلق ہے۔ ہنری کیسنجر کی نظر میں یورپ کے موجدہ سربراہان جیسے فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکرون اور جرمنی کے صدر اولاف شولتز اس چیلنج سے روبرو ہونے کیلئے ضروری سمجھ بوجھ اور معقولیت کے حامل نہیں ہیں۔

ہنری کیسنجر اپنی اس رائے کا اظہار پہلے بھی کئی بار کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی مشور کتاب “لیڈرشپ: عالمی اسٹریٹجی کے چھ کیسز” میں بھی اس رائے کا اظہار کیا ہے۔ اس کتاب میں ہنری کیسنجر نے فرانس کے سابق سربراہ چارلز ڈوگل اور جرمنی کے سابق سرگراہ کینراڈ ایڈورونو کا موازنہ فرانس اور جرمنی کے موجودہ سربراہان مملکت سے کیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فرانس اور جرمنی کے موجودہ سربراہان مملکت، یورپ کو یوکرین جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موجود بحران سے نجات دلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہنری کیسنجر سمجھتے ہیں موجودہ یورپی سیاسی رہنما فعال حکمت عملی اپنانے کی بجائے دفاعی پوزیشن میں کھیلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ، روس کے خلاف امریکی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر یوکرین جنگ مزید طول اختیار کرتی ہے اور اس کی شدت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ ہنری کیسنجر کے بقول موجود یورپی سربراہوں میں سوجھ بوجھ اور معقولیت کا فقدان ہو گا۔ امریکہ کو درپیش دوسرا بڑا جیوپولیٹیکل چیلنج، جو پہلے چیلنج سے زیادہ اہم دکھائی دیتا ہے، گذشتہ چند برس کے دوران چین کے ساتھ جاری ٹکراو ہے۔ ایک عرصے سے یہ حقیقت قابل مشاہدہ ہے کہ امریکی حکمرانوں نے عالمی سطح پر چین کے خلاف مہم جوئی شروع کر رکھی ہے۔ اب جبکہ یوکرین جنگ کا آغاز بھی ہو چکا ہے اور یورپی رہنما اس کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں تو امریکی حکمران یورپ کو بھی چین کے ساتھ اپنے ٹکراو میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہنری کیسنجر اس ٹکراو کو “نہ ختم ہونے والا ٹکراو” قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس کی کوئی آخری حد قابل تصور نہیں ہے۔ اسی طرح ایسے ٹکراو کی وسعت کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ ہنری کیسنجر چین کی برتری کے مخالف ہیں اور چین یا ہر دوسرے ملک کو حد سے زیادہ طاقتور ہونے سے روکنے پر زور دیتے ہیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ امریکہ کی موجودہ اور گذشتہ حکومتیں چین کے خلاف حکمت عملی وضع کرنے میں اندرونی حالات سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ لہذا انہوں نے امریکی حکمرانوں کو چین کے خلاف پالیسی وضع کرنے میں اندرونی شدت پسند عناصر سے متاثر ہونے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ ہنری کیسنجر سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ میں موجود یہ شدت پسند حلقے مسلسل برسراقتدار آنے والی امریکی حکومتوں کو متاثر کرتے رہے تو چین کے خلاف نہ ختم ہونے والا ٹکراو پیدا ہو جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہنری کیسنجر کی یہ وارننگ اس قدر شدید ہے کہ ان کی نظر میں چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی پہلی عالمی جنگ جیسا سانحہ ایجاد کر سکتی ہے۔ انہوں نے امریکی حکمرانوں کو سابق صدر رچرڈ نیکسن کی حکمت عملی اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ یاد رہے رچرڈ نیکسن نے 1972ء میں چین میں شدید کمیونیسٹ رجحانات کے باوجود اس ملک کا اچانک دورہ کیا تھا جس کے انہتائی مثبت اثرات ظاہر ہوئے تھے۔ ہنری کیسنجر نے اس حکمت عملی کو “نیکسن کی لچک” کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ لہذا ان کی نظر میں جو بائیڈن اور ان کی کابینہ کو چین کے خلاف لچک کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ امریکی کابینہ کی جانب سے عالمی سطح پر شدت پسندانہ حکمت اختیار کرنے کی روشنی میں ہنری کیسنجر کے مشورے پر عمل ممکن نہیں ہو گا۔بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply