حضرات!کیا میں نے غلط کہا؟۔۔گل نوخیز اختر

آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتاہے‘ بچوں کا عالمی دن منایا جاتاہے لیکن مردوں کا کوئی عالمی دن نہیں۔ عالمی دن طے کرنے والا جو کوئی بھی ہے مردوں کا ازلی دشمن لگتاہے ورنہ کبھی اتنی بے انصافی نہ کرتا حالانکہ مرد سے زیادہ بے بس اور جبر کا شکار دنیا میں کوئی نہیں اس کے باوجود نہ ہمارا کوئی دن منایا جاتاہے نہ ہمیں عورتوں کے برابر حقوق دیے جاتے ہیں۔عام طور پر یہی سمجھا جاتاہے کہ مرد بڑی آزادانہ اور خوشگوار زندگی گذارتے ہیں لیکن بھائیو! میں اور آپ ہی جانتے ہیں کہ ہم پر کیا کیا پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ہم اپنی مرضی سے ٹی وی کا چینل نہیں تبدیل کر سکتے۔ بس میں کوئی ہمارے لیے سیٹ خالی کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ ہمارے لیے کہیں کوئی نہیں کہتا کہ ’مردوں کی عزت کریں‘۔ مرد عورت کو چھیڑے تو کیس بنتا ہے‘ عورت مرد کو چھیڑے تو مذاق بن جاتاہے۔عورت اسکرٹ پہن لے تو فیشن ایبل اور ہم نیکر پہن لیں تو بے شرم۔عورت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے تو پُراعتماد کہلاتی ہے‘ ہم کریں تو لوفر۔عورت ہنس کر بات کر ے تو خوش اخلاق کہلاتی ہے‘ یہی حرکت ہم کریں تو شکاری کہلاتے ہیں۔ہمیں بار بار طعنہ دیا جاتاہے کہ یہ مردانہ معاشرہ ہے حالانکہ دوستو بزرگو! یہ سراسر زنانہ معاشرہ ہے۔ہم مرد جس معاشرتی بے حسی کا شکار ہے اس کے بارے میں لکھتے ہوئے میرا قلم کانپ رہا ہے‘ آنکھوں میں آنسو ہیں اوربہت بھوک لگی ہے۔آپ خود ہی سوچئے، کیا ہم مرد آزادہیں؟ہمیں توویگن خالی ہونے کے باوجود کوئی اگلی سیٹ پر بٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اگر کبھی خوش قسمتی سے یہ موقع مل بھی جائے تو ڈرائیور گھور کر کہہ دیتاہے’پرے ہوکر بیٹھو، گیئر بھی لگانا ہوتاہے‘……!!!

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے لیے کوئی این جی او نہیں‘ کوئی دارالامان نہیں‘ کوئی مخصوص نشستیں نہیں‘ کوئی ادب و آداب کے قاعدے نہیں۔ہمارا تو خوفناک ایکسیڈنٹ بھی ہوجائے تو ہمدرد لوگ ہمیں اُٹھانے کی بجائے اُس خاتون کی طرف لپکتے ہیں جسے خراش تک نہیں آئی ہوتی۔ہم فیس بک پر اپنی تازہ تصویر لگا دیں تو جگتیں پڑنے لگتی ہیں‘ خاتون لگا ئے تو ماشاء اللہ‘ سبحان اللہ اور واہ واہ کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ہم ہر قسم کے حالات کا ”زنانہ وار‘‘ مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن کوئی ہم پر یقین ہی نہیں کرتا۔ہم تو اتنے قابل رحم ہیں کہ عورتوں کی برابری کا سوچ بھی نہیں سکتے۔کاش دنیا ہم سے بھی میٹھے لہجے میں بات کرے‘ کاش ہماری تصویر بھی تحریر سے زیادہ ہٹ ہوجائے‘ کاش کوئی ہمارے شعروں کے بھی ڈیزائن بنا کر ہمیں گفٹ کرے‘کاش کوئی ہمیں بھی ایزی لوڈ کرائے۔کاش ہمارے لیے بھی کوئی کما کرلائے‘ ہمارے بھی کوئی ناز نخرے اٹھائے……لیکن نہیں! ہماری قسمت میں باس کی جھاڑیں ہیں، دوکاندار کے طعنے ہیں‘ گھر کے خرچے ہیں اور بچوں کی فرمائشیں ہیں۔
مرد ہونا کوئی آسان کام ہے؟ یہ مرد ہی ہے جو اپنی چھت بناتاہے‘ یہ مرد ہی ہے جو رکشہ چلاتاہے‘ یہ مرد ہی ہے جو صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح صرف اس لیے کام میں جتا رہتا ہے تاکہ گھر کا کرایہ ادا کر سکے‘ بچوں کے سکول کی فیس دے سکے۔ پھر بھی ہمارا کوئی دن نہیں منایا جاتا‘ حالانکہ ہمارا تو پورا ہفتہ منانا چاہیے۔جس کو دیکھو وہ خواتین کے حقوق کے لیے کمربستہ نظر آتاہے‘ گویا ہم مرد وں کو سارے حقوق حاصل ہوچکے ہیں۔کس کس کو بتائیں کہ یار!ہم عورتوں سے زیادہ مجبور ہیں، آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی ناکے پر پولیس والوں نے عورت کی گاڑی روک کر اس کی تلاشی لی ہو۔ یہ صدمہ بھی ہم مردوں کو جھیلنا پڑتاہے۔ہمیں تو فقیر اُس وقت تک منہ نہیں لگاتا جب تک ہمارے ساتھ کوئی عورت نہ بیٹھی ہو۔ہم کدھر جائیں، کس سے فریاد کریں؟ عورتیں کھلے گلے پہن کر دفتر آئیں تو روشن خیال کہلاتی ہیں، ہم گریبان کا ایک بٹن بھی کھول لیں تو باس دانت پیسنے لگتاہے’اوئے تینوں تمیز نئیں دفتر آن دی؟‘۔
آپ نے آج تک مختلف دفاتر میں یہی لکھا دیکھا ہوگا کہ ’خواتین کا احترام کریں‘۔کبھی یہ بھی دیکھا ہے کہ کہیں ٹوٹی پھوٹی عبارت میں مرد کے احترام کا بھی نوٹس لگا ہو؟صرف اس لیے کہ مرد کا احترام سننے میں ہی بڑا مضحکہ خیز لگتاہے۔شادی کے وقت بھی یہ حق لڑکی والوں کا ہوتا ہے کہ وہ لڑکے کے دوستوں سے ملیں اور پوچھیں کہ موصوف کا کردار کیسا ہے؟ لڑکے والے کبھی لڑکی کی سہیلیوں سے رابطہ کرکے ایسا بیہودہ سوال نہیں پوچھتے۔عورت اپنے شوہر کے لیے دو وقت کی روٹی بنائے تو معتبر ٹھہرتی ہے لیکن اُس مرد کے بارے میں کیا کہیں گے جو شدید گرمی میں جھلستے ہوئے تندور پر کھڑا روزانہ ہزاروں روٹیاں لگاتاہے۔ لڑکیاں بال چھوٹے کروا لیں‘ جوگر پہن لیں‘‘ پینٹ پہن لیں کوئی حرج نہیں، لیکن لڑکے کان میں بالی پہن لیں تو ابا جی جوتی اتار لیتے ہیں کہ’بے غیرتا!اپنے مامے تے ای گیاایں ناں‘۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہم مرد لوگ انتہائی شریف النفس‘ باکردار اور شرم و حیاء کے پیکر ہوتے ہیں۔ جو لوگ اس بات پر دندیاں نکال رہے ہیں انہیں شرم آنی چاہیے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ مرد ہر طرف سے ٹھکرائی ہوئی مخلوق ہے۔ ہم گنجے ہوں‘ موٹے ہوں یا کالے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم محنت کرتے ہیں اور خود دھوپ میں جل کر بھی اپنے بیوی بچوں کو سایہ فراہم کرتے ہیں۔ہماری خوبصورتی ہمارے چہروں میں نہیں ہمارے دل میں ہوتی ہے۔ہم عید پر بے شک اپنے لیے کوئی کپڑا نہ خریدیں لیکن بیوی بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرلیتے ہیں۔میری گذارش ہے کہ ہمیں بھی 100میں سے کم ازکم 33 نمبرضرور دیے جائیں اورکچھ ایسا ہمارے بارے میں بھی کہہ دیا جائے کہ جس سے ہمیں احساس ہو کہ ہم بھی کوئی حق رکھتے ہیں۔تصویر کائنات میں رنگ بھرنے کا ساز و سامان ہماری ہی جیب سے جاتا ہے۔*

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply