الوداع، بیرسٹر قادری، الوداع۔۔اشتیاق گھمن

الوداع، بیرسٹر قادری، الوداع۔۔اشتیاق گھمن/بیرسٹر صبغت اللہ قادری نے کئی اہم کتب لکھیں۔ آپ انسانی حقوق کے جاندار وکیل رہے۔ آپ دو بچوں، اہلیہ اور ہزاروں دوستوں کو سوگوار چھوڑ کر کل کینسر کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ بہت سے دوستوں نے بیرسٹر صبغت اللہ قادری مرحوم کی ذاتی عادات و اطوار پر بہت کھل کر لکھا ہے، میں ایسا نہیں کرنا چاہتا۔ میں بھی مرحوم سے اپنی بے تکلفی جتانے کے لیے درجنوں صفحات سیاہ کر سکتا ہوں، لیکن نہیں کروں گا۔ میرا ماننا ہے کہ جس گناہ سے صرف گناہگار کا اپنا ذاتی نقصان ہو، اسے زیرِ بحث نہیں لانا چاہیے اور جس گناہ سے کسی دوسرے کا نقصان ہو اس پر ضرور بات ہونی چاہیے۔ کوئی نماز نہیں پڑھتا یا جس کی راتیں جاگتی ہیں، اس پر گفتگو کرنے کی بجائے موقع پرست، خود غرض، دھوکے باز، مکار و عیار اور منافق کو اس نیت سے بے نقاب کرنا، تاکہ دوسرے انسان اس کے شر سے محفوظ رہ سکیں، میری دانست میں عین کارِ ثواب ہے۔

صبغت اللہ قادری صاحب شب زندہ دار تھے، لیکن انہوں نے زندگی میں کبھی زُہد کا لبادہ بھی نہیں اوڑھا۔ وہ دن کو تسبیح پکڑ کر، استخارہ کرنے، پھونکیں مارنے، وظیفے پڑھنے اور للٰہیت کا ڈھونگ رچانے کے بعد اپنی راتیں رنگین بھی نہیں بناتے تھے۔ وہ جو تھے، ڈنکے کی چوٹ پر تھے۔ منافقت سے پاک، فکر و عمل میں یکسو۔

قادری صاحب مجھے انیس ستمبر کی شام ایک پروگرام میں ملے، آنکھوں میں وہی شرارت اور چہرے پر روایتی مسکراہٹ۔ بیماری نے انہیں خاصا کمزور کر دیا تھا۔ چلنے میں بھی بہت دشواری آ رہی تھی۔ میں نے انہیں بریانی پیش کی تو انہیں کھانے میں کچھ مشکل ہوئی۔ میں نے اپنے ہاتھ سے چند نوالے انہیں کھلائے۔ اس کے بعد میں نے کھیر پیش کی، تو وہ کہنے لگے گھمن میاں، بس اب تھوڑے دن ہی رہ گئے ہیں۔ محسوس تو مجھے بھی ہو رہا تھا کہ سورج اب کنارے آن لگا ہے، لیکن میں نے انہیں ایسا کہنے سے روکا۔ چند چمچ کھیر کے اور اس کے بعد وہ چلے گئے۔ ان سے یہ میری آخری ملاقات تھی۔

قادری صاحب، وہ دن بھی آئے گا کہ آپ نے ایک دن حوضِ کوثر پر محفل جمائی ہو گی۔ آپ جامِ کوثر لہرا کر کہیں گے، ابے گھمن، تیرے میں بس ایک برائی ہے کہ تُو صرف ساقی ہے۔ قادری صاحب، آپ سے وعدہ رہا کہ اُس دن آپ کا ساتھ نبھاؤں گا۔

کچھ ہفتے پہلے واجد شمس الحسن چلے گئے اور آج قادری صاحب۔ جنہیں جلدی اٹھنا چاہیے وہ جاتے جاتے بھی دہائیاں لگا دیتے ہیں اور جن کے دم قدم سے دوستیاں اور بھرم قائم ہیں وہ یونہی چلتے چلتے بستیاں ویران کر جاتے ہیں۔ قادری صاحب،بخدا، آپ بہت یاد آئیں گے۔ میں نے ابھی پرسوں آئندہ ہفتے آپ سے ملنے کا پروگرام بنایا تھا، لیکن آپ تو پہلے ہی چلے گئے۔

آپ تیزی سے ختم ہوتی اسلاف کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ آپ دم توڑتی پاکستانی روایات کے برطانیہ میں اصل وارث تھے۔   خوش دلی سے میزبانی کرنے والے وسیع دسترخوان کے مالک،بلند ظرف، اعلیٰ اخلاقیات کے امین،مخلص، بے لوث، انسان دوست اور منافقت سے بالکل عاری شخصیت تھے۔ آپ فکر و نظریات میں یکسو، واضح اور دوٹوک گفتگو کرنے والے انسان تھے۔ آپ تسبیح کی اس ڈوری کی مانند تھے کہ جس نے دوستی کے تمام منکے یکجا کیے رکھے۔ آپ زندہ دل اور خوش مزاج انسان تھے۔ آپ بھٹو کے جانثار ساتھی اور پارٹی کے وہ جیالے تھے کہ جنہوں نے ہمیشہ دیا ہی دیا، کبھی کسی سے کچھ نہ لیا۔ آپ پہلے برطانوی مسلم کوئین کونسل(QC) تھے کہ جن سے ہاتھ ملا کر لوگ فخر محسوس کرتے رہے۔ آپ کی صحبت کے فیض کئی لوگ لیڈر بن گئے۔ آپ کے پاس بیٹھ کر کوئی خود کو چھوٹا محسوس نہیں کرتا تھا۔

بارہ تیرہ سال ہو چلے ہیں کہ آمنہ جنجوعہ نے پاکستان میں غائب ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے پاکستانی ہائی کمیشن لندن کے سامنے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا۔ وہاں وہیل چئیر پر بیٹھے ایک بزرگ
DISAPPEARED PEOPLE-
DISAPPEARED JUSTICE
کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس احتجاج کے بعد ہم چند دوست ان کے ساتھ ایک قریبی ریسٹورنٹ میں جا بیٹھے۔ ان سے یہ میری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی۔ ان کا بیٹا ان کی دیکھ بھال کر رہا تھا اور اسی نے تمام دوستوں کا بِل بھی ادا کیا۔ اس کے بعد ان سے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ میری ان سے جتنی آشنائی ہوتی گئی، اُتنا ہی میں ان کا گرویدہ ہوتا چلا گیا۔

وہ اپنے پرانے گھر سے جب چوتھی منزل پر واقع نئے فلیٹ میں منتقل ہوئے، تو یار لوگ اسے “فورتھ فلور” پکارنے لگے۔ وہ پاکستانی جو خفیہ ایجنسیوں کے کردار سے باخبر ہیں، وہ فورتھ فلور کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نامور صحافی مجاہد بریلوی اور واجد شمس الحسن مرحوم سے ان کا گہرا تعلق خاطر تھا۔ ایک بار بریلوی صاحب لندن آئے ہوئے تھے، تو مجھے قادری صاحب نے فون پر اپنے گھر طلب کر لیا۔ ایک موقع پرست واقف کار کی خواہش تھی کہ اسے بھی ساتھ لے جایا جائے۔ میں نے قادری صاحب کو فون پر اسے ساتھ لانے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے اس کا نام سن کر فورا ً کہا کہ گھمن میاں، بالکل نہیں۔ اس دندان شکن انکار کی وجہ تو مجھے بہت بعد میں معلوم ہوئی، لیکن ان کی یہ ادا مجھے بھا گئی۔ وہ اخلاق کی اس معراج پر تھے کہ غلط کو غلط کہنے کی جرات رکھتے۔ وہ کبھی مصلحت بِینی کا شکار نہ ہوئے۔ وہ خود غرضی اور مفاد پرستی سے کوسوں دُور رہے۔ وہ ہر قسم کے تعصب سے بھی پاک تھے۔ وہ کراچی کے اردو سپیکنگ تھے لیکن بہت سارے دوسرے تعصب زدہ لوگوں کے برعکس انہیں جو پسند آ جاتا، پھر کسی رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی تمیز کے بغیر، اس سے ٹوٹ کر عشق کرتے۔ یہاں بہت سے ایسے کم ظرف اور بونے لوگوں کی موجودگی میں کہ جو قائدِ اعظم کو تو بابائے قوم کہنے پر اصرار کرتے ہیں، لیکن اقبال کو شاعرِ مشرق کہتے انہیں مرگی کا دورہ پڑ جاتا ہے، کیونکہ وہ سیالکوٹ سے تھے۔ یہ خود غرض منافقین سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے فیض کو سینے سے صرف اس لیے لگائے رکھتے ہیں کہ فیض سے ان کی روزی روٹی چلتی ہے، دکان گرم ہے، لیکن صبغت اللہ قادری جو تھے، خلوت و جلوت میں بھی وہ ویسے ہی تھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply