• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی کا کھتارسس /خان صاحب آپ یہ کرسکتے ہو، لیکن ایسے نہیں ہوگا۔۔ اعظم معراج

پاکستانی کا کھتارسس /خان صاحب آپ یہ کرسکتے ہو، لیکن ایسے نہیں ہوگا۔۔ اعظم معراج

میں کبھی بھی سیاسی ورکر نہیں رہا ، سوائے جوانی میں چند دن ایک الیکشن میں بطورِ آدرش واسی (جس کا جلد ہی اندازہ ہوگیا، کہ قائد رانگ نمبر تو شاید نہ تھے،نہ ہیں ۔  لیکن جو کرنا چاہتے تھے، اسکے اہل نہ تھے  ۔( میں متاثر ہونے کے باوجود تنقیدی جائزہ لینے کا ایسا شوقین تھا  کہ انھیں احترام کے ساتھ بتاتا ۔آپ سیاسی دانش سے بے بہرہ اندھوں میں کانے راجہ ہیں) اور دوسرے کیس میں رشتے داری کے چکر میں ایک ایم این اے صاحب کی الیکشن مہم میں شرکت کی، رشتے داری کے باوجود ایک دن جب وہ ارسطوی لیکچر دے رہے تھے، تو انھیں احترام سے کہہ دیا۔۔ یہ آپ اپنی اور اپنے بچوں کی  معاشی بقا اور خود نمائی کی جنگ لڑ رہےہیں ۔تیسری دفعہ پی ٹی آئی کے کچھ کرم فرماؤں کی بدولت ایک اقلیتی تنظیمی کمیٹی جس میں تمام اقلیتی سینٹرز، ایم این اے, ایم پی ایز شامل تھے۔اس کا نوٹیفکیشن میری نیم رضا مندی سے ہوا ۔

جس سے میں نے خط لکھ کر تین چار دنوں میں ہی استعفیٰ  دیا۔ وہ استعفیٰ  میری کتاب “کئی خط اک متن “کا حصّہ ہے۔ اس میں جو کچھ چار سال پہلے لکھا تھا، اتفاق سے وہ تمام مشاہدے مطالعے کی بنیاد پر کیا گیا تجزیہ (تکا ) بعد میں صحیح ثابت ہوا  ۔جس کا مرکزی خیال یہ تھا خان صاحب تنظیم پر توجہ دیں اور اپنی فکر کو منظم طریقے سے ورکروں تک پہنچائیں اور ریاستی و حکومتی اداروں سے حقوق لے کر عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے منظم فکری و نظریاتی ایسے کارکن تیار کریں ۔جو خود نمائی کے موذی مرض کے مریض نہ ہوں بلکہ اجتماعی عزتِ نفس کی بحالی کے داعی ہوں۔  ” باپ بڑا نہ بھیّا سب سے بڑا روپیہ ” ڈاکٹرائن سے بچیں یہ پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں کو نگل چکا ہے  ۔اتنی سی انتہائی مختصر عملی سیاست کے تجربے کے باوجود دینا بھر کی سجے کھبے ( دائیں بائیں لفٹ رائٹ) کی سیاست پر پڑھنا میرا شوق ہے۔ ”

اسی مطالعے مشاہدے اور صحبت ِ یاراں جن میں دورِ  حاضر کے کئی معروف دانشور و   سیاسی دانشور شامل ہیں ، کی بنیاد پر پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے تفصیلی تجزیہ طکمنخ اور پاکستان کے معروضی حالات کی بنیاد پر تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد میں یہ درج ہے  ۔ کیا   یہ سماجی آگاہی کی فکری تحریک ہے ۔ نہ یہ کوئی این جی او ہے۔ اور اس کا کوئی “انتہابی” سیاسی ایجنڈہ ہے۔”

دائیں بائیں دونوں طرف اخلاص سے بھرے بے لوث ورکروں کی جدوجہد کی سچی کہانیاں و واقعات پڑھ یا سن کر اور انکی جدوجہد کے معاشرے میں اثرات نہ ہونے کے برابر دیکھ کر دل بوجھل ہو جاتا ہے ۔ کہ دنیا میں ایسے بے لوث لوگ بھی ہوتے ہیں، جو اپنے آدرشوں کے لئے جوانیاں لٹا دیتے اور اس دنیا سے ظلم واستحصال کے خاتمے کے لئے سولیوں پر چڑھ جاتے ہیں تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں ۔۔وطن عزیز میں 80  کی دہائی میں ایسے نوجوانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔  جنہوں نے کھبے، سجے دونوں طرف کے نظریات کے لئے بڑی جدو جہد کی ،جانیں اور جوانیاں لٹائی خاندان تباہ ہوگئے ۔ ان میں کچھ تائب ہو کر انتہائی تلخ ہو چکے  ہیں۔  ۔ کیوں نہ ہوں؟  ۔ دونوں طرف کے ان کو استعمال کرنے والوں کی اولادیں کھرب پتی ہوچکی ہیں  اور ان میں سے جو زندگی کے دوڑ میں پیچھے بھی رہ گئے اور ملک و قوم وانسانیت کو بھی ان سے کوئی فائدہ نہ پہنچا وہ اب بیٹھے یہ سوچتے ہیں۔
بقول وقار خان
سونے ورگی عمر وے اَڑیا
پتل مانجھ گزاری
جسکا نتیجہ یہ نکلا ہے،۔ جن کو ہوسِ  زر کے پجاری حکمرانوں کے چرنوں میں مناسب جگہ نہ ملی ان میں سے کھبے بیچارے امریکہ یورپ کی این جی اوز کے لئے کام کررہے ہیں  اور سجے دین ودنیا دونوں کاروباروں میں ترقی کر رہے ہیں ۔ لہذا اب وطن عزیز میں سیاسی ورکر نظریاتی کم اور مفاداتی زیادہ رہ گئے ہیں اسکی شروعات مسلم لیگ کے ان ابن الوقت ورکروں کے جھوٹے کلیم داخل کرنے سے ہوئی جنہوں نے اپنے بے لوث ساتھیوں کی قربانیوں کو بڑا سستا بیچا  ۔

اس سفر کی وسطیٰ منزل ضیائی مارشل لا اور انتہائی  موجودہ معاشی دہشت گردوں کا طاقت کے مراکز میں بڑھا ہوا اثر ورسوخ ہے  ۔

اسکا ایک چھوٹا سا واقعہ  ہمارے ایک جاننے والے( ر) مجیر  نے سنایا جو نظریاتی طور پر بھٹو کا حامی تھا اور بھٹو کے آخری ایام تک پی ایم ہاؤس میں بطورِ انٹیلی جنس آفسر خدمات انجام دے رہا تھا۔  یہ فوجی افسروں کی اس کی لاٹ میں سے تھا۔۔ جنہیں بطورِ رشوت بیوروکریسی میں تعینات کیا گیا وہ بتاتے ہیں ۔۔””جب میں کئی سالوں بعد کینیڈا میں سفارتکار کی حیثیت سے نوکری کرکے پاکستان لوٹا تو کسی کام کے سلسلے میں اپنے آبائی شہر ساہیوال میں مارشل لاء ہیڈ کوارٹر میں جانے کا اتفاق ہوا۔۔ ۔ وہاں میرا ایک ہم خیال افسر بطورِ مارشل لاء آفسر کے نوکری کرتا نظر آیا ۔۔ میجر ر بتاتے ہیں ۔ وہ ہم دوستوں میں سب سے نظریاتی طور پر مضبوط اور شدت پسند تھا۔۔یونی فارم میں ہونے کے باوجود بھٹو کی پھانسی پر روتا رہتا، اور ضیاء کو گالیاں دیتا رہتا۔۔ کچھ دنوں بعد بات اوپر تک پہنچی۔۔ سیانے لوگوں نے اسے مارشل لاء ہیڈکوارٹر میں تعینات کردیا ۔۔نتیجہ جب میجر( ر) نے ہنستے ہوئے اس افسر سے پوچھا بھائی ہم تو کمزور تھے. تم کیسے آج تک مارشل لاء کی نوکری کر رہے ہو؟۔کدھر گئے وہ نظریات انقلاب اور آدرش جواب آیا” یار میں اک فون کراں تے چیف سیکرٹری کہے یس سر دوسرا آئی جی نوں, تیسرا کمشنر نوں کام بھی کرتے ہیں اور رپورٹ بھی کرتے ہیں۔  ترجمہ ( یار میں چیف سیکرٹری کو فون کرتا ہوں تو جواب آتا ہے یس سر دوسرا فون آئی جی کو کرتا ہوں تیسرا فون کمشنر کو )۔۔اب میں کیا سمجھتا ہوں۔ انقلاب کو ۔۔میجر (ر)۔ بتاتے ہیں موصوف سائیکل پر آئے تھے کچھ سال مارشل لاء ہیڈکوارٹر ز میں رہنے کے بعد مرسیڈیز چلا کر گئے ”

اس سارے ارتقائی سفر کے بعد عمران خان نے اپنی محنت، فینز اور ڈونرز کلب سے سیاست میں پھر ارتعاش پیدا کیا۔۔ ۔اور مفاداتی ورکروں سے ہٹ کر دہائیوں بعد پھر آدرش واسی پیدا ہوئے ۔
جو معاشرے کو بدلنے کی ٹھانے اسکے پیچھے ہولئے۔انکے خواب تب ٹوٹے جب ” باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیا ”
ڈاکٹرائن کی بدولت ولید اقبالوں کے ٹکٹ علیم خانوں جیسے دینے لگے ۔۔ خیر یہ ڈاکٹرائن فیل ہوگیا۔۔
کیونکہ یہ ڈاکٹرائن سادہ اکثریت بھی نہ دلا سکا ۔ تھا

لہذا بندوبستی جمہوریت کے نتیجے میں 155سیٹوں پر حکومت بنی یہ تین سال سات ماہ چند دن تاریخ ہیں ۔۔بری یا بھلی اس کا فیصلہ ہوبھی رہا ہے ۔اور ہوتا رہے گا ۔۔

پھر 9 اپریل آیا ۔ پارلیمانی شب خون وجموری بندوبست نے قوم کی اکثریت کو بے چین کر دیا۔ ۔معاشرے کو سجانے سنوارنے کے خواب دیکھنے والے جن میں سے اکثریت ( کھبے سجے ) کو جانتی ہی نہیں۔ اور جو یہ سمجھتے بھی ہیں وہ جان چکے دائیں بائیں کے زمانے لد گئے ۔۔ بس صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے سے زمانہ بدلے گا۔لہذا ہر مکتبہ سیاست کے لوگ ایک امید لئے نکلے ۔ اور وہ پہاڑوں جیسی غلطیاں بھلا کر نکلے اور پنجاب کے ضمنی انتخابات میں انھوں نے یہ کر دکھایا۔ اس میں ساہی وال کے وہ کسان دیہاتی سب سے نمایاں اور قابل قدر اور عظیم ہیں۔۔ جو بارش کے سیزن میں کھوبے کیچڑ میں لتھڑے عمران خان کو سننے آئے غرض قوم کے ہر فرد نے اپنا حصہ اس میں ڈالا۔۔۔ لیکن یہ عام پاکستانیوں کی بات ہے ۔۔ سیاسی عہدے دار آج بھی علیم خان ؤ جہانگیر ترین مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کی صفوں میں موجود ہیں۔مفادات کا لیول اپنی اپنی اوقات کے مطابق ہے۔ (یہ رائے سیکنڑوں اعلیٰ ؤ ادنی عہدے داروں سے گفتگو کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے) میرا دل دکھ ،غم سے تب سے بوجھل ہے ۔۔جب سے یہ خبریں۔۔ آرہی ہیں ۔۔کہ بارہ سواریاں لے کر جو جہاز لاہور سے اسلام آباد راوانہ ہوا وہ ملک ریاض کا تھآ ۔ملک ریاض کے کاروبار کے مثبت و منفی اثرات اس ملک کی معاشرت، معیشت پر جو ہوئے ہیں ۔ وہ کچھ کے لئے تاریک تاریخ اور کچھ کے لئے درخشندہ تاریخ ہے۔۔ لیکن مجال ہے جو میرے وطن کے ماہرین سماجیت و سیاسات اس پر کھل کر بات کرتے ہوں ۔۔وجہ شائد یہ ہے۔ کہ ریاست کے تینوں ستون گھن زدہ ہو چکے ہیں۔۔ اور چوتھے نے گھن کے فضلے کو اپنی خوراک بنا لیا ہے ۔ اور اہل دانش میں سے اکثریت چوتھے کے تنخودارہیں۔

اس سے پہلے ایک جھٹکا تب لگا تھا۔۔ جب شہزاد اکبر نے برطانیہ میں پکڑی جانے والی کثیر رقم واپس معاشی دہشت گردی کے ذمداروں کو واپس کردی۔۔ یہ ناقابل یقین اور انتحائی دکھی کردینے والی بات تھی۔۔۔ ہضم آج تک نہیں ہوئی۔۔ لگتا نہیں کبھی ہو۔ کیوں کہ دہشت گرد تو چند کو مارتے ہیں۔۔۔لیکن معاشی دہشت گرد لاکھوں کروڑوں کی بلکہ مستقبل کی نسلوں کی بھی اموات و ہلاکتوں کا سبب بنتے ہیں۔۔ لیکن اس وقت اگنور اس لئے کیا تھا۔۔ کہ 155سیٹوں کی بندوبستی حکومت کی سو مجبوریاں ہوسکتی ہیں۔۔ ۔۔ لیکن خاکم بدہن جو وجوہات سامنے آرہی ہیں ۔۔وہ بندوبستی سے زیادہ گرہستی و میلان کی ہیں۔۔ پھر 9 اپریل سے کئی مہینے پہلے ہارون رشید صاحب نے یہ خبر ٹی وی پر بریک کی کہ بنی گالا میں سب سے زیادہ بلا روک ٹوک آنے جانے والی شخصیت ایک پراپرٹی ٹائیکون کی ہے ۔۔ ماتھا ٹھنکا برطانیہ والی رقم معاف کرنے کا زخم ہرا ہوا۔لیکن دوسری طرف سرٹیفڈ معاشی دہشت گرد اور یہاں ابھی شک کا فائدہ دینے کو وہ ہی دلیل تھی۔
کہ بندوبستی 155والی حکومت کی مجبوریاں ہونگی۔۔ لیکن اب تو اپنے آپ پر اور اپنے ان ہم خیال مصوموں پر ترس آرہا ہے ۔۔۔۔ جو 9 اپریل سے جدو جہد کر رہے تھے۔۔ اور اب جشن منا رہےہیں ۔ لاہور سے اڑے سے جہاز کا چند سو کلومیٹر کا سفر یہ پاکستان کی فضاؤں میں یہ لکھ گیا ہے۔۔ ۔کہ یہ کمپنی اس طرح نہیں چلے گی ۔۔ جس طرح کے مشن اسٹیٹ منٹ مصوم پاکستانیوں کے دماغوں پر لکھے گئے ہیں ۔۔ہاں ابھی شروعات ہیں۔ اگر۔پی ٹی آئی کی صفوں میں علیم خان و جانگیر ترین مائنڈ سیٹ کے علاہ کچھ لوگ ہیں تو وہ خان صاحب کو کہیں
” کہ تم کر تو سکتے ہو، لیکن ایسے نہیں ہوگا”
لہذا گربہ کشتن روزِ اوّل ” کے طور پر پہل کریں (انشٹویو لیں )
بصورت دیگر وطن عزیز کا اللہ ہی حامی وناصر ہو ۔ آمین
کیونکہ اگر سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو یہ کام بندوں کے بس سے باہر ہو چکا ہے ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply