پھرتا ہے فلک برسوں/مصنف؛اصغر ندیم سیّد/تبصرہ-رؤف کلاسرا

اس غیرمعمولی کتاب کا مجھے انتظار تھا۔ جب بیگم صاحبہ نے کمرے میں داخل ہو کر بہترین پیکنگ میں ایک پیکٹ میری طرف بڑھایا تو بولی کتاب ہی ہوگی۔ اب اتنے برسوں بعد اسے پتہ ہے کہ میرے نام پر حسینوں کے خطوط نہیں بلکہ کتابیں ہی آتی ہیں۔ میں سُستی اور سردی کی وجہ سے حسب معمول بستر میں دُبکا ہوا تھا۔ ہم سرائیکیوں بارے مشہور ہے کہ ہمیں سردی ویسے بھی زیادہ لگتی ہے۔ ایک لطیفہ مشہور ہے چند ملتانی جہنم میں ٹھہرائے گئے۔ سردیوں کا موسم تھا۔ایک دن ان میں سے ایک نے داروغہ کو آواز دی۔ وہ سمجھا شاید تیز آگ سے گھبرا گئے ہیں۔شاید کوئی ترلہ کریں۔ وہ بولا سوہنڑا بہوں پالا لگدا پائے ذرا بھاہ تاں تکھی کرو ہا چا ( سردی لگ رہی ہے ذرا آگ تو تیز کر دو)۔

سُستی کا مارا میں نے بھی کہا یار ذرا پیکٹ کھول دو۔ پہلے وہ پیکنگ سے متاثر ہوئی۔ پھر کتاب مجھے تھمانے سے پہلے دیکھنے لگ گئی۔ بولی یہ تو وہی اصغر ندیم سید صاحب ہیں جو مشہور ڈرامہ لکھتے ہیں اور کیا کمال کے ڈرامے انہوں نے لکھے خصوصاً دریا اور چاند گرہن اس کے فیورٹ رہے ہیں۔

خیروہیں لیٹے لیٹے میں نے کتاب لی اور اچانک احساس ہوا کہ گھر میں بجلی گئی ہوئی تھی۔ میں نے کہا یار ذرا پردے پیچھے کرنا۔ روشنی اندر آنے دو میں کتاب پڑھنا چاہتا ہوں۔

اصغر ندیم سید ملتان سے اُٹھے اور پھر انہوں نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا اور دنیا فتح کی اور اس دوران ذاتی دکھ بھی اٹھائے۔ لیکن ملتان سے تعلق نہ چھوڑا۔ ڈاکٹر انوار احمد ہمیشہ ان کا   ذکر کرتے تھے اور بہت کرتے تھے۔ انوار احمد صاحب کی کون سی گفتگو یا تحریر ہوگی جس میں اصغر ندیم سید کا ذکر نہ ہو۔

خیر کسی بھی کتاب کی جو سب سے بڑی خوبی میں سمجھتا ہوں کہ آپ اسے ہاتھ میں لیں اور پھر نیچے نہ رکھ پائیں۔ وہی بات فلم پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ آپ شروع کریں اور سکرین سے آنکھیں نہ ہٹا سکیں۔
یقین کریں یہی کچھ اس کتاب کے ساتھ ہوا۔ مجھے خاکے پڑھنا ہمیشہ اچھا لگتا ہے اور میرے پاس بہت خاکوں کی اعلیٰ  نسل کی کتابیں موجود ہیں اور مجھے ان غیرمعمولی لوگوں کے بارے میں پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ میں اس دور میں خود کو موجود محسوس کرتا ہوں جو ان کا زمانہ تھا۔ ایک عجیب دنیا جس میں آپ موجود نہ تھے لیکن اب سب کچھ آپ کی نظروں  کے سامنے ہے۔

میں نے ویسے ہی اوراق پلٹے تو سنگِ  میل پبلشرز کے نیاز احمد پر لکھی تحریر کو یہ سوچ کر پڑھا کہ چلیں کچھ پڑھ کر پھر آگے بڑھتا ہوں۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب نیاز احمد پر لکھی وہ غیرمعمولی تحریر ختم ہوئی اور مجھے اس کے سحر سے نکلنے میں   وقت لگا۔ ایک ایسے سیلف میڈ انسان کی کہانی جو خالی ہاتھ 1947 ہجرت کا عذاب کندھوں پر اٹھائے لاہور اسٹیشن پر اُترا اور مزدوری کرنا شروع کی اور ایک دن ہندوستان پاکستان کے بڑے پبلشنگ ہاؤسز میں سے ایک کی بنیاد رکھی۔

جو کچھ نیاز احمد کے بارے لکھا گیا ہے وہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہےکہ سیلف میڈ لوگ کیسے ہوتے ہیں اور کیسے وہ عمر بھر چند غیرمعمولی اصولوں کیساتھ زندہ رہتے ہیں جن پر وہ کمپرومائز نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے اندر زندگی کی تلخیاں دیکھ کر ایک مخصوص رویہ پیدا ہوتا ہے جس میں وہ  دوسروں کو شک کاکم  فائدہ دینے پر یقین رکھتے ہیں۔

لیکن نیاز احمد کے پبلشنگ اصول اپنی جگہ لیکن جو ذاتی طور پر  ان کے رکھ رکھاؤ اور تعلقات نبھانے کی مثالیں سامنے آئی ہیں وہ بھی ان کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں ۔ واقعی ادارے ایک دن میں نہیں بنتے۔ آپ کو اپنا لہو دینا پڑتا ہے۔ ایک نسل کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ محنت کرنی پڑتی ہے۔ میں نے نیاز احمد صاحب بارے سن رکھا تھا لیکن پڑھا اب ہے۔ خصوصاً جس طرح کا رویہ اور ڈیلنگ نیاز احمد صاحب کی اپنے رائٹرز کیساتھ رہی وہ بہت کم سننے میں آتی ہے۔ ادیبوں یا شاعروں کو خوش یا مطمئن کرنا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا۔ کبھی پبلشرز کو شکایت تو کبھی ادیب کو شکایت۔

اصغر ندیم سید نے اس کتاب میں اتنی ایمانداری سے کام لیا ہے کہ اپنےایک ٹی وی اداکارہ کیساتھ معاشقے کی کہانی بھی لکھ دی اور کیسے ان کی بیگم صاحبہ نے نیاز احمد کو شکایت لگائی اور جو انہوں نے اس پر ری ایکشن دیا اور اسے بیٹی سمجھ کر بچوں سمیت اپنے گھر رکھ لیا کہ اصغر ندیم کو جھکنا پڑا۔

اگرچہ کشور ناہید پر لکھا گیا خاکہ بھی اپنی جگہ کمال ہے۔ میں نے برسوں پہلے احمد بشیر کا کشور ناہید پر لکھا گیا خاکہ پڑھا تھا۔ وہ کسی اور نوعیت کا تھا اور اصغر ندیم سید کا لکھا کسی اور جہاں کی کہانی سناتا ہے۔

کشور ناہید کی شخصیت پر شاید ہی کوئی اور اس سے بہتر لکھ سکے ۔ یہ خاکہ پڑھ کر جہاں کشور ناہید کی عزت میرے دل میں بڑھی ہے وہیں اس خاکے کا اختتام مجھے اداس بھی کر گیاکہ اکیاسی برس کی عمر میں بچے باہر سیٹل اور آپ اسلام آباد میں تنہا زندگی گزارنے پر مجبور۔

کشور ناہید کی زندگی پر بہت بڑی آرٹ فلم بن سکتی ہے جس کا پہلا کمال سکرپٹ تو اصغر ندیم سید نے لکھ ہی دیا ہے۔ اب اس غیرمعمولی خاتون کی زندگی کو فلمانے کے لیے ایک پروڈیوسر اور ہدایت کار درکار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اصغر ندیم سید نے جس ایمانداری اور بہادری کیساتھ اپنے خاکوں سے انصاف کیا ہے اس پر انہیں تھوڑی نہیں بہت زیادہ داد بنتی ہے۔ کیا کمال کہانی لکھنے کا فن جانتے ہیں کہ آپ لہروں کی طرح بے بس ہو کر بہتے جائیں اور آپ کا دل کرے یہ کہانی کبھی ختم نہ ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply