میں جانوں یا خدا جانے۔۔۔۔روما رضوی

لمبی قطار میں کهڑی عورتوں میں اس کا کوئی پنتیسواں نمبر ہوگا…
سخت دهوپ کے باوجود وہاں سے کوئی جانے کو تیار نا تها… یہ قطار کسی حکومتی ادارے کی نہیں تهی.. بلکہ خیرات و زکوٰۃ کی تقسیم کے لئے کسی مکان کے باہر موجود تهی …جس میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تهی .. پسینے کے بهپکوں اور گرم ہوا نے سب کو بےحال کر رکها تها …
جبری قطار بنوائی گئی تھی اور اس کو برقرار رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً ایک چهڑی کسی نا کسی کے ہاتھ پہ ضرور پڑتی.. وہ اب تک اس امید پہ کہ آسانی سے ایک ماہ کا راشن حاصل کرسکے گی… کام سے بیماری کا بہانہ کر کے چهٹی لے کر آگئی   تھی…
تنخواہ تهی ہی کتنی.. 7 ہزار …. اس میں کهایا جائے .. دوا آئے یا آنے جانے کا کرایہ دیا جائے … سب مل کہ کام کرتے تو شاید یہ نوبت نا ہی آتی لیکن کم عمری میں شادی نے صرف جذبات کا پیٹ بهرا انسان کا نہیں …بلکہ بهوک اور محرومی میں اضافہ ہی ہوا …
میاں کے شوق بهی نئے تھے… وہ نشہ ہرگز نہیں کرتا پان سگریٹ کو ہاتھ نہ لگاتا پر موبائل فون … ہر وقت اسکے ہاتھ میں ہوتا …. سارا دن کس سے بات کرتا وہ نہیں جانتی …لیکن اس کے اس شوق نے جینا کو تنہا کردیا تها…. وہ سامنے ہوتے ہوئے بهی موجود نہ ہوتا…
بچے ہیں تو صرف دو.. لیکن عمر کے ساتھ انکی ضرورتیں بهی بڑی ہورہی ہیں…
وہ اب انہیں مار مار کہ خود بهی ہانپ جاتی…سمجھانے سے جو نہ سنے تو مارے بغیر کوئی چارہ نہ تها … پهر بس یہی تهی اسکی کل کائنات ….
تیس… تیس نمبر … بی بی جلدی آگے آو… بہت لوگ کهڑے ہیں…
سپر وائزر جیسے ایک آدمی نے آواز لگائی ..
وہ سنبهل گئی ..
بس نمبر آنے ہی والا تها ….
اس دفعہ شاید کچھ ہاتھ کهل جائے … اس نے سوچا اگر ایک ماہ کا راشن یہاں سے مل سکے تو .. کچھ پیسوں سے ایک بڑی پیٹی خریدے گی .. ماں سے ملنے گاوں جائے گی اور اور … ایک اچهی سی رنگ کرنے والی کتاب اور رنگین  پینسلیں  بڑے بیٹے کو لے دے گی…
چونتیس نمبر…
جلدی آو بهئ سستی کیوں ہے سن نہیں رہی. … چهڑی ہاتھ میں لئے سپروائزر پهر بولا … اب اسکا نمبر تها…
بچی کچهی توانائی جمع کرکے وہ مستعد ہوگئی … سامان اٹهانا تها…
“سر پہ رکھ کے ہی لے جاوں گی”
اس نے سوچا … اور مسکرا دی
دن بهر لوگوں کے لئے مزدوری کرنے والی..
آج اپنا سامان کیوں نہ اٹهاتی…
آگے آؤ… ذرا جلدی… وہ آگے بڑهی …..
نام کیا ہے تمہارا …
صائمہ مسیح… وہ بولی…
ہیں ؟؟؟ عیسائی ہو؟
جی….
ارے تو یہاں کیا کر رہی…. یہ صرف مسلمانوں کے لئے ہے … زکوٰۃ و فطرانہ ہے ….
سامنے بیٹها شخص تیزی سے بولا…
لیکن مجهے بہت ضرورت ہے…
بہت غریب ہوں…. اللہ کے نام پہ مدد کیجیے…
ارے کہا نہ وقت برباد مت کرو … کبهی پھر آنا …
اس وقت تو صرف زکوٰۃ تقسیم ہورہی ہے…
لیکن میں صبح سے قطار میں ہوں….
کیا ہوسکتا ہے؟ جاؤ یہاں سے…
لیکن میری بات تو سنیں … دیکهئے میری ضرورت تو سنئے … میں بہت مشکل میں ہوں….
چهتیس … چهتیس نمبر….
چلو یہاں سے ورنہ دهکے دے کے نکالی جاؤ  گی…
سپر وائزر نے اگلے نمبر کو پکارا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر قطار سے باہر کردیا…
ایک لمبی سڑک … دهوپ اور … محنت کشی اسکی منتظر تهی….
اور وہ آسمان پہ بیٹھے” رزاق” کی تقسیم اور عدل پہ سوال کر رہی تهی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply