اَتے فیر۔۔ ؟-کبیر خان

ہمارے بچپن میں قُرّاٗ اور حفّاظ کا کال تھا۔ چنانچہ الف بے جیم اور ہیک دونی دونی ، دو دونی چارکی پٹّیوں کے علاوہ جٹکی گالیوں کے اِملاء  اور صحیح مخرج سے ادائیگی کی تربیت کے لئے بھی مقامی پرائمری اسکولوں پر ہی تکیہ کرنا پڑتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اساتذہ کرام کی اکثریت جے وی (جونیئر ورنیکیولر) اورایس وی (سنیئر ورنیکولر) فیل ہونے کا وسیع تجربہ رکھتی تھی۔ دینی علوم کا ’’سووک‘‘(سبق؟) البتّہ گراں موہڑوں میں دیالیاں اور پڑھی پڑھائی مُلوانیاں’’سینف املُوک ‘‘، ’’پکّی روٹی‘‘، ’’یوسف زلیخاں‘‘،’’ہیر وارث شاہ‘‘ ،’’چنّ ‘‘،’’بالو‘‘ ،’’مومل رانو‘‘اور ’’لپّے آتی خے‘‘،جیسے الہامی مراسلوں اور کُتب سے منہ زبانی کشید کر کےکنٹرول ریٹ پر نئی پیڑھی کوپھونکتی تھیں۔
؎ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے
تاہم عالم جنتری دیکھنے والا ماہرِحساب کتاب مرد جنا خال خال ہی مل پاتا تھا۔ اس کمیاب کو تب دیالا (دیال) کہا اور سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے۔ دیالا اکثرتھڑے پر قبلہ رُو بیٹھ کر’’ٹِکّی ہوئی‘‘گائیوں اور مائیوں کو راہِ راست پر لانے کے جتن کیا کرتا تھا۔ اب بھی برابر کرتا ہے۔ ایسی مائیوں کے بچّوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت گراں موہڑے کی کوئی پڑھی پڑھائی جنی ساگ ، آگ ، لسّی اور پھکّی کے عوض مفت میں فراہم کردیتی تھی جیسے:
جے کو پُچّھے ، بندہ کِس ناں۔۔۔؟
آخے الف اللہ ناں
جے کو پُچّھے ، اُمّت کِس نی۔۔۔؟
آخے رے رسول نی
جے کوپُچّھے ، دَین کِس نی۔۔۔؟
مخے ٹلّیاں والی سرکار نی

پھر سرکار کا نام ِنامی اسمِ گرامی لیتے ہی تسبیح شریف ہونٹوں کے بعد آنکھوں سے چُھوکر پستک کل یا کسی ایمرجنسی کال تک بند کر دی جاتی ۔ اور روزمرّہ کا دوسرا باب کھُل جاتا:
’’ نی ! چِنّک کے گولے جوگئیے، کہاں دفان ہو گئی ؟ اوپر سے دینہہ ٹُنڈے املُوک کے کُوب پرآن چڑھا ہے ، ڈنگر مال بھوکا ننگا کُھرلی پر بندھا کھڑا ہے۔ نی ! تیرے پِچھلوں کو کالے بھونڈ اور تجھے پتلی دھموڑیاں لڑیں۔ ۔۔ تیرا بُوتھا سُوج کر کُپّا ہو جائے۔ توُگوہڑ کی ملتانی مٹّی بھی مَلے تو تیرے بُوتھے سے چنگاریاں پوٹھیں۔ اُٹھتے بیٹھتے تیرے منہ سے ہائیں اور ڈھائیں ہی نکلیں ۔ او تیرا گھر والا تجھے دیکھ کر دُور سے ہی پرت جائے۔ لمّ مونہی تیرا ککھّ نہ رہوے۔ توُ اُٹّھے تو سرّڈ کانٹا کُھبے ، بیٹھے تو جھنڈل کیڑا پائنچوں سے چڑھے اور چڑھتا ہی چلاجاوے۔۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ اسی اثناء  میں اگر کوئی کلائنٹ دہی کا ڈولا سامنے لا اوٹے پر دھر فریاد کناں ہو کہ دعا کرو:
’’بیچنے والے کے ہاں بال بچڑوں کی جگہ دومونہے بچھڑے جنمیں ۔ اُس گھر کی کلمونہی نے ربّ جانے کیا پڑھ پھونکا کہ ہماری ساوی چنگا بھلا دودھ دیتے دیتے اس میں مِینگنیاں ڈالنے لگی۔ پھرچئیں چکّ ٹِکّ سُکّ کے ڈھاکے چڑھ گئی۔ اور یہ کہ’’ میرا تو ککّھ نہیں رہا ۔ میری ماں نے ساوی تب داج میں دی تھی جب وہ اپنی ماں کے تھنوں تک نہیں پہنچ سکتی تھی ۔ میں نے اسے ما کھائی دھی پُوت سے بڑھ کر پالا پوسا تھا۔ اپنے منہ سے کڑوا اخروٹ نکال کر اُس کے منہ میں نہ دیا ہو تو اوپر والا میرا منہ کالا کرے۔ سائیں سلانگاں والے سے تاویت، بتیاں ، دھاگے ، پانی منترا منترا کر لاتی رہی ۔ منتری ہوئی پِنیاں کھلاتی رہی۔ پیش بندی کے طور پرجھولے والی خانقاہ سے کاہ پتر کا گٹھّا چوری کر کر کے لاتی، کھلاتی رہی ۔ پھر بھی کوئی بے پاوتا جِن بھوت اسے چمٹ ہی گیا۔ میں غریبڑی فریاد لے کر آئی ہوں ،مجھ لِمّانی کی جھولی میں شفا ڈال دیں۔ دُدّھ کا پہلا ڈولا آپ کی خزُمت ہک دُسّ میں نہ پیش کروں تو میرا منہ کالا۔ اگّےمرجی سرکار کی۔‘‘(یعنی بال اِز اِن یوئر کورٹ)

’’سوچ سمجھ کے بد دعا کیتی کر۔۔۔۔‘‘پیرنی ڈپٹتی ہے۔۔۔’’اوپر والے نے تیری سُن لی اور بیچنے والوں کے ہاں بچڑوں کی تھاں دومونہے بچھڑے جم پڑے توپتہ ہے کیا ہو گا؟ دور دور سے لوگ بچھڑوں کی زیارت کو آتے رہیں گے ، خصموں کی صندوقڑیاں نذر نیاز سے بھر تے اور اُلٹے پیروں نکلتے رہیں گے ۔ میں اور تُو یہیں بیٹھی منہ تکتی رہ جائیں گی۔ اِسّے مارے کہتی ہوں جد کد مانگو،دیکھ بھال کے مانگو۔ کیا پتہ کِس وقت،کس کو تمہاری بددعا لگ جائے، وہ موجیں اُڑائے اور تُوکُھرلی بندھی ڈکرائے۔۔ ‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

’’ بپّا بپّا وہش۔۔ ۔  اس پاسے تو میں نے دھیان ہی نہیں دیا۔۔۔  ربّا !جو کچھ بے دھیانی میں میرے منہ سے نکل گیا،وہ سب کا سب بُھول چُوک لینی دینی کے کھاتے میں ، بھانویں بیوَرے بیوِرے ٹاہلیاں والی سرکار کے صدقے خیرخیرات میں ڈال کے دفان کردے ۔ دیکھ ناں ربّا غلطی خطا کِس سے نہیں ہوتی ۔ تُو نے جو میری جھولی میں ڈالنا تھا،میری گوانڈن شُرلی کی گود میں نہیں ڈال دیا تھا ۔۔ ؟ سارا ناک نشکا ،رنگ ڈھنگ کپّ ٹُک میرے گوانڈی کا۔۔۔۔۔ ‘خیر مہوٹی بھڑکا،رولے گولے میں غلطی کس سے نہیں ہوتی۔ آگے سے تیری سوُں،میری توبہ دھن سوُئے کی ۔ بس س  س۔۔۔۔؟۔ جے چارے قجا بچڑے کی تھاں دومونہوا بچھڑا دینا ہی ہے تو میرے متھّے مار دے۔۔۔۔، میں اوکھے سوکھے گذارا کر لوں گی۔۔۔۔۔ دیکھ ناں ربّا !جے کو پُچھے اوانڈ گوانڈ بھی کوئی چیج ہوتی ہے کہ نئیں ؟ تے فیر؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply