سکول سے باہر بچیاں صنفی امتیاز کا شکار ۔۔ قادر خان یوسف زئی

یونیسف کے مطابق، پاکستان 220 ملین آبادی   رکھنے والا ملک اس وقت ”دنیا میں   سکول نہ جانے والے بچوں کی دوسری سب سے زیادہ تعداد” رکھتا ہے، جو کہ تقریباً 22 اعشاریہ 8 ملین بچوں کے برابر ہے۔ پاک الائنس فار میتھس اینڈ سائنس کے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ میژرمنٹ اسٹینڈرڈز 2019-20 (پی ایس ایل ایم) کے سروے کے اعداد و شمار پر مبنی ایک مطالعہ کے مطابق، 5-16 سال کی عمر کے 32فیصد پاکستانی بچے  سکول سے باہر ہیں۔ جو اس عمر کے گروپ کی کُل آبادی کا 44 فیصد ہیں۔ 5 سے 9 سال کی عمر کے گروپ میں، 5 ملین بچے  سکولوں میں داخل نہیں اور پرائمری  سکول کی عمر کے بعد، سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دوگنی ہوجاتی ہے، 10-14 سال کی عمر کے 11اعشاریہ 4 ملین نوجوان رسمی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ سندھ میں، 52 فیصد غریب ترین بچے (58 فیصد لڑکیاں) اور بلوچستان میں، 78 فیصد لڑکیاں  سکول سے باہر ہیں۔پرائمری سطح پر تقریباً 10اعشاریہ 7 ملین لڑکے اور 8اعشاریہ 6 ملین لڑکیاں داخل ہیں اور یہ نچلی ثانوی سطح پر 3اعشاریہ 6 ملین لڑکے اور 2 اعشاریہ 8 ملین لڑکیاں رہ جاتی ہیں۔

سکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کے کچھ عوامل ایسے سامنے آتے ہیں جو بلند شرح کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، سب سے اہم وجہ صنفی عدم مساوات قرار دی جاتی ہے، جس میں پدرانہ نظام اور معاشرتی صنفی تقسیم کی وجہ سے لڑکیوں کو  سکول بھیجنے کا رجحان کم ہے۔ان وجوہ میں ایسے خاندانوں کے اقتصادی حالات کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے جہاں غربت اور مہنگائی کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم سے دور رہنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ سیلاب کے باعث ایک قسم کا تعلیمی بحران بھی ہے جس کی وجہ سے  سکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کے علاوہ بھی بہت بڑی تعداد نامعلوم وقت تک تعلیم کے حصول سے محروم رہ سکتی  ہے ۔

سیلاب نے لوگوں کے گھر بار چھین لئے ہیں اور انفرا اسٹرکچر کی بحالی ہونے تک موسمیاتی تبدیلیاں بھی متوقع ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان بھر میں تقریباً19 ہزار  سکولوں کی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی سندھ میں آئی۔ ایک اندازے کے مطابق صوبہ سندھ کے تقریباً 16 ہزار سکول سیلاب میں بہہ گئے۔ جو سکول سیلاب کی تباہی کی زد میں آنے  بچ گئے وہ بھی بند ہیں۔ بیشتر  سکولوں کی عمارتیں سیلاب متاثرین کی پناہ گاہوں کے طور پر زیر استعمال ہیں۔ بلوچستان میں محکمہ تعلیم کے رئیل ٹائم سکول مانیٹرنگ سسٹم کی  رپورٹ کے مطابق محکمہ تعلیم اوریونیسف نے 6ہزار 69سکولز کا سروے کیا، جس میں 4ہزار186سکولز متاثر ہوئے ہیں۔ 4ہزار میں 6فیصدسکولز کی  بلڈنگز مکمل تباہ،6فیصد سکولز کی بلڈنگ غیر محفوظ اور8فیصد سکولز کی بعض کلاسز محفوظ ہیں۔ان متاثرہ سکولوں میں 2ہزار 279بوائز سکولز،11سو 30گرلز سکولز جبکہ 174سکولز کو ایجوکیشن ہیں۔ان سکولوں میں 2659پرائمری،477مڈل 405ہائی سکولز شامل ہیں جہاں 3لاکھ 86ہزار 700زیر تعلیم طلباء وطالبات کی تعلیم متاثر ہوگی جو اسکول سے باہر کی بلند شرح میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں۔

سکول کے باہر رہنے والے بچوں کی بڑی تعداد میں بچیاں زیادہ صنفی امتیاز کا شکار ہوتی ہیں۔ معاشرے میں خواتین کے کرداروں میں گھریلو کام اور دیکھ بھال کو ہی اہمیت دی جاتی ہے اور بہت کم تعداد میں لڑکیوں کی تعلیم کو فوقیت دی جاتی ہے۔ تاہم بچوں کے  سکول سے باہر رہنے میں غربت بھی  اہم  کردار ادا کرتی ہے کیونکہ بہت سے غریب خاندان اپنے بچوں کو  سکول بھیجنے کے متحمل نہیں ہوتے۔ روزگار اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے رہائش کی منتقلی بھی اہم وجوہ میں شامل ہے۔ نیز وہ بچے جو دیہی علاقوں میں رہتے ہیں، جیسے کہ صوبہ بلوچستان، طویل پیدل فاصلے کی وجہ سے  سکول تک رسائی حاصل نہیں رکھتے۔ان عوامل کے علاوہ، پاکستان کے تعلیمی نظام کو کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے جو ایک جامع تعلیم کو مکمل کرنے میں دشواری کو مزید تیز کر دیتی ہیں، جیسے کہ   سکولوں کی ابتر سہولیات جن میں مناسب صفائی اور بجلی کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ، ایک ناقص تدریسی عملہ، وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور ہزاروں ملازمین جو کام پر نہیں آتے، بچوں کو مناسب تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔ جنس، سماجی و اقتصادی حیثیت، اور جغرافیہ کی بنیاد پر تفاوت نمایاں ہیں۔

گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن کے مطابق، ثانوی تعلیم کے ساتھ 420 ملین لوگوں کو غربت سے نکالا جائے گا اور ” سکول کا ایک اضافی سال خواتین کی آمدنی میں 20 فیصد تک اضافہ کر سکتا ہے”۔یہ اقدامات پاکستان میں غربت کی شرح کو بہتر بنانے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، جو کہ 2021 میں 39.3 فیصد ہے، کیونکہ تعلیم غربت سے نکلنے کا ایک ثابت شدہ راستہ ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی آفات کی وجہ سے 22 کروڑ بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن میں تقریباً آٹھ کروڑ ایسے بچے بھی شامل ہیں جنہوں نے کبھی سکول میں قدم نہیں رکھا۔واضح رہے کہ پاکستان میں تعلیمی نظام کو عام طور پر چھ درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پری  سکول (3 سے 5 سال کی عمر کے لیے)، پرائمری (پہلی سے پانچویں جماعت)، سیکنڈری (6ویں سے 8ویں جماعت)، اعلیٰ (9ویں اور 10ویں جماعت)، انٹرمیڈیٹ (11ویں جماعت اور بارہویں جماعت)، اور یونیورسٹی کے پروگرام جو بیچلرز اور ماسٹرز کی ڈگریوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ معیاری قومی تعلیمی نظام زیادہ تر انگریزی نظام تعلیم پر مبنی ہے۔ ثانوی اسکول میں، کمیونٹی عام طور پر سنگل جنسی تعلیم کو ترجیح دیتی ہے، لیکن شہروں میں مخلوط تعلیم بھی عام ہے۔ تعلیم کی زبان خود تعلیمی ادارے کی نوعیت پر منحصر ہے، چاہے وہ انگریزی زبان کا اسکول ہو یا اردو اسکول۔

پاکستان سمیت دنیا کے ان ممالک کو تعلیم کے میدان میں دیرینہ چیلنجزکا سامنا ہے کہ کس طرح لاکھوں بچوں کو  سکول میں لایا جائے۔ عالمی امدادی اداروں کا کردار اپنی جگہ واضح ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں، تاہم موجودہ معاشرتی نظام اور اقتصادی بحران میں مہنگائی نے جس طرح غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑی، ان حالات میں  سکول سے باہر بچوں کے ساتھ ساتھ ایسے خاندانوں کی بحالی کے لئے حکومتی ترجیحات میں قابل ذکر کردار واضح نہیں۔ اَن گِنت رپورٹس عیاں کرچکی ہیں کہ  سکولوں کے  خستہ حالات، غریب خاندان کے معاشی حالات سے بھی بدتر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان میں تاریخی طور پر غربت دیہی علاقوں میں زیادہ اور شہری علاقوں میں کم رہی ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے دیہی باشندے اکثر سماجی تحفظ کے ان فوائد سے محروم رہتے ہیں جو شہر کے باشندوں کو حاصل ہیں۔دیہاتوں میں، بنیادی تعلیم اور بنیادی صحت کی دیکھ بھال کا احاطہ بہت کم ہے۔ افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستانی قبائلی علاقے، عالمی سطح پر دنیا کی سب سے خطرناک جگہ کے طور پر پہچانے  جاتے  ہے، نا  صرف رہنے کے لیے، بلکہ جدید تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی۔ان حالات میں سوچا جاسکتا ہے کہ درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے کیا ریاستی ذمہ  داری ہی کافی ہے یا  سکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لئے خاندانوں کو مزید قربانیاں دینا ہوں گی۔ بصورت دیگر مستقبل میں ایسا معاشرہ تخلیق ہوسکتا ہے جس میں آنے والی نسل کا مقصد صرف مردم شماری میں اندراج کرانا ہی رہ جائے گا۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply