اُس وقت جب ٹی وی پر نتیجے آنا بند ہو گئے/ٹیپو بغلانی

دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں،اڈیالہ جیل کی دیوار مجھے کہیں ملی، 8 فروری کی رات کو، جب آپ سب ٹی وی پر الیکشن کا رزلٹ دیکھ رہے تھے۔۔

یوار نے بتایا کہ،نقاب پہنے ہوئے دو چار خاموش لیکن بے حد پریشان لوگ آدھی رات کو جیل پہنچے،جیل کے راستے وہ پہلے سے جانتے تھے، یہ راستے ان کے اپنے ہی بنائے ہوئے ہیں،تیز تیز قدم اٹھاتے وہ قیدی نمبر 804 کے خانے میں پہنچے۔۔قیدی جائے نماز پر تھا، رات کے اس پہر اپنے خدا سے راز و نیاز کرنے میں مگن تھا۔
جونہی اس نے نفل مکمل کرتے ہوئے نرم آواز میں سلام پھیرا،نقاب پوش یکدم الرٹ ہو گئے اور اس کے سامنے جا کر اونچی آواز میں کہا، وعلیکم السلام!

قیدی انہیں دیکھ کر چپ ر ہا۔
ان مہمانوں میں سے ایک بندے نے موبائل پر کسی کو کال ملا کر کہا
” ٹی وی پر نتیجوں کے اعلان روک دو، او کے”

دیوار نے بتایا پھر نتیجے آنا بند ہو گئے۔۔

سیاہ تاریک اور خوفناک رات تھی لیکن کوئی بھی سویا ہوا نہیں تھا۔
لوگ 7 فروری کی رات سے جاگ رہے تھے، 8 فروری کے دن ہر کوئی مصروف رہا، اب یہ 8 فروری کو دوسری رات تھی جاگتے ہوئے لیکن کوئی سو  نہیں سکتا تھا۔
25 کروڑ لوگوں کو ایک ہی وہم ستا رہا تھا کہ اگر ان کی آنکھ لگ گئی تو پھر ان کا مستقبل چوری ہو جائے گا اور وہ اگلے ایک ہزار سال تک صرف سوتے رہیں گے پھرکبھی جاگ نہیں پائیں گے۔

اڈیالہ جیل کی دیوار نے بتایا کہ جاندار اور بے جان  سب کو جاگنا تھا، ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، کوئی ایک سو گیا تو پھر سب فنا ہو جائیں گے۔

قیدی نے موبائل والے کی کال سن کر کہا
“میرا ایمان پختہ ہے، تم چال چلو، میرا اللہ بھی چال چلے گا اور بہترین چال تو اللہ ہی چل سکتا ہے۔”

موبائل والے کے ساتھ کلین شیو بندہ بیٹھا تھا
اس کے ماتھے پر پسینہ تھا، ہونٹ لرز رہے تھے، آواز کانپ رہی تھی، نگاہیں بجھی ہوئی اور بے نور تھیں وہ میری طرف دیکھ کر قیدی سے بات کرنے لگا۔

دیوار میرے کان میں پھسپھسائی۔۔

آپ بنا لیں حکومت، آپ کو موقع دے دیتے ہیں لیکن ہم نے بھی یہاں رہنا ہے، ہمارے لیے بھی جگہ بنانا چاہیے آپ کو،
آپ ٹی وی پر صرف یہ کہہ دیں کہ اس وقت جذبات میں تھے اور سائفر میں ایسی زبان استعمال نہیں ہوئی تھی۔اور یہ کہہ دیں کہ 9 مئی کو جو ہوا آپ ویسا نہیں چاہتے تھے، نہ ہی آپ کو وہ سب پسند آیا بلکہ بتائیں کہ 9 مئی نے آپ کو دکھی اور خفا کیا۔

قیدی چپ رہا

کلین شیو والے بندے کے ساتھ تیسرا آدمی تھا جس کے ہاتھ میں چھڑی تھی اور وہ مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہنے لگا

چلیں آپ ڈاکٹر قدیر خان کی طرح ٹی وی پر نہ آئیں

ٹوئیٹر پر بس سادہ سی چار لفظوں کی ٹویٹ کر دیں کہ 9 مئی کا دن افسوس ناک دن تھا۔

اگر یہ بھی آپ کو گوارہ نہیں تو،اپنے سوشل میڈیا پیچ پر کسی اور سے یہ پیغام دلوا دیں کہ 9 مئی کا واقعہ آپ کو بہت برا لگا۔

آپ کی ہمشیرہ آپ کی طرف سے یہ لکھ دیں تو بھی ٹھیک ہے۔

قیدی نے کہا میں نے کبھی ایسا پیغام نہیں دیا کہ لوگ 9 مئی جیسا کچھ کریں،یہ فالز فلیگ آپریشن تھا۔اور جس طرح سے پلان کیا گیا اس سے بھی بڑھ کر کامیابی ملی منصوبہ سازوں کو۔

سائفر پر میں نرم الفاظ کہنے کے لیے تیار ہوں
پھر آپ بھی کیا یہ اعتراف کریں گے کہ عوام کی منتخب کردہ حکومت گرا کر آرٹیکل 6 کو توڑا گیا اور بیرونی عناصر کی فرمانبرداری کی گئی؟

آئے ہوئے تینوں بندوں نے کہا ہمیں بات چیت کو کامیاب بنانا چاہیے۔

قیدی کی بہن کو ہیلی کاپٹر پر فوری جیل طلب کیا گیا،

قیدی نے بہن سے کہا کارکنان سے جا کر ملو اور انہیں بتاؤ کہ قیدی اگر 9 مئی کی مذمت کرتا ہے تو آپ سب رہا ہو سکتے ہیں۔

بہن مختلف جیلوں میں قیدی کارکنان سے مل کر آ گئی اور قیدی کو جوابی پیغام دیا کہ وہ کہہ رہے ہیں
“آپ نے گھبرانا نہیں، ہم جان قربان کرنے پر فخر محسوس کریں گے۔”

قیدی تینوں ملاقاتیوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور تسبیح پھیرنے لگا۔

پھر اچانک تینوں کی طرف دیکھا اور بولا
میرا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ میری پھانسی خواہ مخواہ تتر بتر ہو جائے گی،سب نے اپنے اپنے نظریات کا وارث اپنی اولادوں کو بنایا،میں نے اپنی اولاد کو تیار کیا اور نہ ہی اپنے خاندان سے کسی اور کو،لہذا میں ماحول کے سازگار ہونے تک چھ مہینے کے لیے پشاور میں جا کر بیٹھا رہا۔
مجھے موت کا تو کبھی خوف ہی نہیں رہا لیکن مجھے لگتا تھا کہ مجھے زندگی سے مزید مہلت چاہیے فی الحال۔

دیوار نے بتایا کہ قیدی میری طرف نہیں بلکہ ملاقاتیوں کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔

قیدی کہہ رہا تھا کہ میرے دشمن کہہ رہے تھے یہ ایک دن بھی جیل میں نہیں گزار سکتا، یہ نشے کرتا ہے، وہ میرا پیشاب بوتلوں میں بھر کر ٹی وی کے سامنے رکھے بیٹھے تھے اور کہتے تھے دیکھو اس پیشاب میں سے کتبے نشے نکلے ہیں،
دیکھو اب میں یہاں ہوں، میری آواز باہر جا سکتی ہے، میری تصویر باہر جا سکتی اور نہ ہی میرا کوئی پیغام یا اشارہ وہاں جا سکتا ہے۔

میں یہاں ہوں آپ لوگوں کے پاس
وہ لوگ باہر ہیں، اپنی مرضی کے مالک ہیں، جو بہتر سمجھیں گے وہ ویسا ہی کریں گے۔

ملاقاتیوں نے دوبارہ نقاب پہنے اور تیزی سے انہی راستوں سے باہر نکل آئے جہاں سے اندر گئے تھے

دیوار نے بتایا پھر اس کے بعد صبح ٹی وی پر دوبارہ رزلٹ آنا شروع ہوئے،لیکن اس بار رزلٹ اُلٹ چکے تھے
جو جیت رہے تھے اب وہ ہار رہے تھے
اور جو ہار رہے تھے وہ اب جیت رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply