نیل کے سات رنگ-قسط6/انجینئر ظفر اقبال وٹو

(افریقہ کے ‘وار زون ‘ میں کام کرنے والےایک انجینئر کی روداد)  

دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کے لیے لیٹے ہی تھے کہ  خرطوم سے عدیل کا فون آگیا۔وہ ایک بہت با صلاحیت پولیس آفیسر تھااور دارفور میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام مشن میں خدمات سر انجام دے رہاتھا ۔تاہم اس کی انتظامی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ‘یو این” والوں نے اسےخرطوم میں اپنا مستقل انتظامی رابطہ کار تعینات کر رکھا تھا۔ اس کا کام ‘دارفور مشن’ کے لیے دنیا بھر سے سوڈان آنے والے اقوام متحدہ کے اعلیٰ  حکام کی خرطوم میں دیکھ بھال کرنا اور ان کا خیال رکھنا تھا۔یواین نے اس کو خرطوم میں مستقل ایک گاڑی دی ہوئی تھی۔وہ خرطوم کا مکمل انسائیوکلوپیڈیا تھا۔کس لیول کے مہمان کو کون سے ہوٹل میں ٹھہرانا ہےایتھوپین کھانا کہاں سے ملے گا۔خرطوم میں پاکستانی ڈھابےکہاں پر ہیں ۔پاکستانی سٹائل کی حجامت کہاں سے ہوتی ہے الغرض وہ ہمارے خرطوم کا گوگل تھا اور ہم انہیں پیار سے “شرطہ پاکستانی’ کہتے تھے۔خرطوم میں ہم ایک ہی گیسٹ ہاؤس میں رہتے تھے،اس نے اس وقت ہماری خیریت معلوم کرنے کے لئے رابطہ کیا تھا۔

ہم نے اسے اپنی درد بھری  داستان سنا دی کہ پچھلے دو دنوں سے ہم پر الجنینہ میں کیا بیت رہی ہے۔وہ سن کربولا میں آپ لوگوں کا بندبست کرتا ہوں اور ہمارے جواب سے پہلے فون بند کردیا۔ اس نے تھوڑی دیر بعد رابطہ کرکے کہا کہ میں نے آپ لوگوں کا الجنینہ میں اپنے پاکستانی دوستوں کے ہاں بندوبست کردیا ہے۔ آپ لوگوں کاشام کا کھانا ان کے پاس ہے۔وہ آپ کی دیسی کھانوں سے تواضح کریں گے۔ اگرچہ پولیس کے ساتھ تواضح کا لفظ تھوڑا جچتا نہیں لیکن ان دوستوں نے رات کے کھانے پر ہماری واقعی بہت خدمت کی تھی۔

کھانے کے بعد جب گپ شپ کی محفل جمی تو پتہ چلا کی ‘الدریسہ ڈیم’ والا علاقہ بہت پُرخطر ہے جہاں پر باغیوں نے پورےدیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے ہیں۔انہوں نے ہمیں اس علاقے میں نہ جانے کا مشورہ دیا۔ان کا خیال تھا کی ہمیں یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہیے کیونکہ ‘الجنینہ” سے باہرسے نکلتے ہی گورنمنٹ کی رٹ ختم ہو جاتی ہے۔اقوام متحدہ کا آخری بیس کیمپ بھی ساٹھ کلومیٹر آگے ‘مورنی’ گاؤں میں ہے جس سے آگے “نو مین لینڈ” شروع ہو جاتی ہے۔اس بیس کیمپ تک بھی’الجنینہ” سے زمینی راستے سے جانے پر پابندی ہے کیونکہ خدشہ  ہے  کہ  باغیوں نے راستے میں بارودی سرنگیں بچھائی ہوئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یو این کا ایک ہیلی کاپٹر روزانہ’الجنینہ” سے راشن اور دوسری ضروری اشیاءلے کر ‘مورنی’ کے بیس کیمپ تک جاتا ہے۔اسی  ہیلی کاپٹر میں یواین کا ضروری سٹاف بھی مورنی بیس کیمپ آتا جاتا رہتاہے۔اور پھر “الدریسہ ڈیم” سائٹ تو ‘مورنی’ سے بھی پینتیس چالیس کلو میٹر آگے پہاڑوں کے اندر تھی جس کے پاس سےمشہور” نارتھ ساؤتھ نومیڈ کوریڈور”گزرتا تھا جو کہ”جنجوید” کی گزرگاہ تھا ۔ان کے خیال میں “الجنینہ” سے “مورنی” اور پھر وہاں سے “الدریسہ” زمینی راستے سے جانے کا خیال ہی بالکل غلط تھااور اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والی بات تھی۔اس علاقے سے قتل وغارت گری کی کئی داستانیں سننے کو ملتی  تھیں۔ انہوں نے عدیل کو فون کرکے ہمیں اس خطرناک ارادے سے باز رکھنے کا کہا تھا۔

شاہ جی کی طبیعت یو این مشن کے حوالے سے باتیں سن کر کافی مکدر ہو گئی تھی۔ وہ وہاں  سے اٹھ کر باہر صحن میں آگئے تھے اور سگریٹ سلگا کر ٹہلنا شروع کر دیا تھا۔یہ اس بات کی نشانی ہوتی تھی کہ وہ بے چین ہیں۔میں نے باہر جا کر ان سے وجہ معلوم کی تو کہنے لگے” وٹو صاحب ۔۔۔دل بہت “خفا” ہے۔ایک طرف تو وہ دارفوری بچے ہمارے جھوٹے کھانے کوحاصل کرنے کے لئے ہمارے ریسٹ ہاؤس کے باہر گھنٹوں انتطار کرتے ہیں اور دوسرے طرف ان کی دیکھ بھال پر معمور ان یو این والوں کے پیاز ٹماٹر اور کنڈوم تک بھی ہیلی کاپٹر پر پہنچائے جاتے ہیں۔ یہ کہاں کی انسانیت ہے یار؟” ۔ میں تھوڑی دیر بعد انہیں پُرسکون کرکے دوبارہ اندر لے آیا تھا۔

صحرائے صحارا کے قصبے میں یہ مکمل پاکستانی محفل رات گئے تک جاری رہی ۔ خوب گپ شپ ہوئی۔ان دوستوں نے پودینے کی چٹنی سے لے کر چکن بریانی تک سب پاکستانی کھانے بنائے ہوئے تھے۔ان سےہمیں بہت سی مقامی معلومات ملیں جو بعد میں ہمارے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوئیں۔خصوصا ً اقوام متحدہ کے دارفور مشن کی کارستانیاں اورپاکستانی دستوں کے اس میں بے حد مثالی کردار کے حوالے سے کافی بات ہو ئی۔اتفاق سے دو دن بعد”الجنینہ” کے یو  این مشن کے پاکستانی کیمپ میں پاکستان ڈے کی تقریب ہو رہی تھی لیکن ہم یو این کے احاطے میں بطور غیر متعلقہ افراد کے داخل نہیں  ہو سکتے تھے۔رات اس یادگار محفل کا اختتام ‘بون فائر” پر “تھالی گھڑے” پر پوٹھوہاری دوستوں کے “بھاپے” کے ٹپوں پر ہوا تھا۔

یو این مشن میں کام کرنے والے پاکستانیوں کےمقامی افرادمیں تکریم کے حوالے سے دوستوں نے ایک بہت دلچسپ واقع سنایا۔ایک پاکستانی دوست چند دوسرے ممالک کے ساتھیوں کے ہمراہ یو این کیمپ سے باہر ‘الجنینہ” شہر میں ایک پرائیویٹ علاقے میں کرائے کے گھر میں رہائش پذیر تھا کیونکہ یہ اسے سستی پڑتی تھی۔ایک رات وہاں ڈاکو گھس آئے۔اور لوٹ مار شروع کردی۔چیخ وپکار شروع ہو گئی۔کچھ پتہ نہیں چل رہا  تھا کہ یہ لوگ ڈاکو ہیں یا “جنجوید “ہیں جو یو این کے سٹاف کو اغواء  کرنے آئے ہیں۔ان میں سے دوکالے ان دوست  کے کمرے میں گھس آئے اور گن پوائنٹ پر دوسرے کمرے میں چلنے کا کہا جہاں پر انہوں نے سب لوگوں کو اکٹھا کیا ہوا تھا۔یہ دوست شلوار قمیض پہن کر سو رہے تھے۔ڈاکوؤں نے ان کی شلوار قمیض دیکھتے ہی انہیں “مرحبا یا سید الباکستانی” کہا اور انہیں اپنے کمرے میں ہی رکنے کا کہا۔تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ ان کے کمرے میں آئے اور سگریٹ سلگا کر ان سے گپ شپ مارنے لگے۔ وہ بار بار الپاکستانی دوست کو اس کے باقی ساتھیوں کی طرف اپنا اسلحہ تان کرعربی میں کہتے تھے “کل کفار فی النار” یعنی ان سب کافروں کو ہم آج جہنم میں بھیج دیں گے۔ان ڈاکوؤں نے پاکستانی دوست کے کمرے میں بیٹھ کر لوٹ مار کا حساب کتاب کیا اور انہیں نقصان پہنچائے بغیر چلتے بنے اور یہ بے چارے اگلے کئی دن اپنے ساتھیوں سے منہ چھپا کر پھرتے رہے۔ان دوستوں کے بقول اسلامی اخوت کے ایسے مظاہر اس”وارزون” میں اکثر نظر آجاتے۔

ان دوستوں سے بات کرکے اندازہ ہوا تھا کی ہم نے کس قدر آگ سے کھیلنے والے کام میں ہاتھ ڈالا ہوا ہے۔تاہم ان کی باتیں سن کر ہمارا “وار زون” کے افریقی سیٹ اپ کا “تھرل” اور بڑھ گیا تھا۔پاکستانیوں کی مقامی آبادی میں تکریم ہمیں تھوڑاحوصلہ دے رہی تھی۔اور اس سب سے بڑھ کر شاہ جی کی وہ بات تھی جو انہوں نے وہاں سے واپسی پر گاڑی میں  بیٹھتے ہوئے کہی تھی۔ ان کا فرمانا تھا” وٹو صاحب۔ ۔۔مقامی لوگوں کے حالات سن کر تو میں اور دکھی ہو گیا ہوں۔اگر ہمارے تھوڑا سا رسک لینے سے ڈیم کی تعمیر کی کوئی صورت نکل آتی ہے تو ہمیں ان برباد مظلوم بے وسیلہ لوگوں کے لئے ایک کوشش ضرور کرنی چایے۔یہ محض اتفاق نہیں کہ ہم اس وقت جوہر ٹاؤن میں اپنی آرام دہ خواب گاہوں کی بجائے صحرائے صحاراکے بالکل مرکز میں ستاروں بھرے آسمان تلے موجود ہیں۔ہم شاید چنُے ہوئے لوگ ہیں جن سے اللہ کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے”۔

میں تو پہلے ہی اس ایڈونچر کے لئے تیار بیٹھا تھا۔ “مورنی” کا نام ہی میرے لئے کشش کا باعث تھا۔ اس نام کے لیتے ہی ٹھنڈے میٹھے محسوسات دل میں گدگدیاں سی  کرتے تھے۔ بچپن میں ریڈیو پر سنا یہ گانا یاد آجاتا تھا

“مورنی او مورنی

یہ بتلاؤ مورنی

مور بے چارے سے

تو نے کٹی کیوں کر لی”

“مورنی” کے ایک قلعے میں ‘ہیری پوٹر” میرا منتظر تھا ۔۔جس کے چاروں طرف “جنجوید” بیٹھے تھے!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply