اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات
بشیرعبدالغفار
آج اگر آپ یہ جملہ کہیں بیان کریں گے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو وہ اپنی پوری فہم وفراست کو اس بات پر صرف کرکے یہ احسان اسلام پر کرنا چاہے گا کہ ضابطہ تو بہت ہی محدود ہے جب کہ اسلام تو بہت وسیع ہے۔ لہٰذا آپ اسے محدود نہ کریں۔ تو آج کی بات اس پر کی جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ کیا واقعی ایسا ہے یا نہیں؟
پہلے تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ضابطہ کیا ہے اس کے معانی کیا ہیں؟یہ عربی کا لفظ ہے جس کی معانی ہیں ،قاعدہ، اصول، دستور، آئین ، دستور العمل وغیرہ اب اگر ان کو حیات کے ساتھ ملاکر رکھ دیا جائے تو کیا ہمیں مکمل معانی ملتے ہیں یا نہیں؟اصول حیات، قاعدہ حیات، دستور حیات۔
ان کے معانی سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام اصول حیات اور دستور حیات ہے نہ کہ حیات کے کسی محدود شعبے سے وابستہ ضابطہ۔جس کا راگ الاپا جاتا ہے۔اس بات پر اعتراض اٹھانے والوں سے یہ سوال ہے کہ آئین اگر بنایا جاتا ہے تو کیا وہ ملک سے باہر کسی اور ملک میں بھی اس طرح نافذ العمل ہوگا؟یقیناً نہیں تو معذرت کے ساتھ اسلام بھی ضابطہ حیات ہے ہر اس بندے کے لیے جواسلام کی حدود میں رہنا چاہتا ہےاور اس کا ماننے والا ہے ۔اور خود کو کسی دوسرے ملک کا باشندہ گردان کر ایک دوسرے آئین کو محدود کہنا بے وقوفی ہے۔
دلائل حقیقتًا تو قرآن پاک کے ہونے چاہیے “لیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی”
آج کے دن آپ کے دین کو آپ کے لیے مکمل کردیا گیا اور اپنی نعمت کا اتمام کردیا۔
• اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے دلیل پیش ہے ۔
دین کیا ہے؟زندگی گزارنے کا فارمولا ہوتا ہے ۔یہ صرف اسلام کے لیے خاص نہیں بلکہ ہر مذہب کے ماننے والے کے لیے ہے۔ اگر ہندو ہے تو اس کے لیے اس کا دین ہی راہ حیات کا سامان ہے اور پوری زندگی اس پر عمل پیرا ہوگا اور اگر کوئی سکھ ہے تو وہ مرتے دم تک اپنے دین کی پاسداری کرے گا تو جب اسلام اپنے ماننے والوں کو وقتاً فوقتاً ہدایات دیتا رہتا ہے اور آخر میں یہ بات تمام کردیتا ہے کہ آپ کا دین مکمل ہوا تو کیا اب اسلام کے ماننے والے کے لیے لازم نہیں کہ اب اپنی پوری زندگی اس کے مطابق گزارے ۔ اگروہ گزار دیتا ہے تو یہ اس کے لیے ضابطہ حیات ہی بنا۔
اگر اسلام کے احکامات کے بتدریج نزول کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوگی کہ احکامات کا سلسلہ ابھی باقی ہے اور زندگی کے کچھ گوشوں کی ہدایات رہتی ہیں جو اس آیت سے پوری ہوگئی ۔
•اس آیت کا دوسرا جزء اتمام نعمت ہے ، نعمت کیا ہے؟ کسی سہولت کا حصول اور اس کے استعمال کا پورا پورا حق حاصل ہو اور اس میں پوری آزادی ہو اور استعمال کنندہ کے لیے فائدہ مند بھی ہو ۔ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اتمام نعمت کا ذکر کیا ہے کہ انسان کی بھلائی چاہتے ہوئے اس کو زندگی کا پورا پلان ترتیب دے کر دے دیا ہے اب اگر ہم اس کو محدود اور Limited کہہ کر انکار کریں۔ تو ہم اس نعمت سے محروم کردیے جائیں گےجو اللہ نے ذکر فرمائی ہے۔ اگر اس کو مان لیا جائے تو نعمت کا نام بھی نہیں رہے گا اس لیے اس نعمت کا حصول اس کے ضابطہ حیات ہونے کی دلیل ہے۔
عقلی دلائل
•آج کے جدید دور میں سائنسی آلات جس سرعت سے آرہے ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ کہیں ہر شے سائنس میں نہ ڈھل جائے۔ بات یہ ہے کہ اگر میں موبائل فون خریدتا ہوں تو اس کے ساتھ گائیڈنس بک ملتی ہے جس سے مجھے اس کے استعمال کی ہدایات ملتی ہیں کہ کس طرح سے استعمال کرنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر موبائل چلانے کے لیے وہ بک لازمی ہے؟توآپ انسان اور مسلمان سےاس کی اہمیت کیوں چھینتے ہیں کہ قرآن اس کے گائیڈنس بک ہے جو اس کو ہدایت کا راستہ بتاتی ہے۔وہ مکمل ہی ہے تبھی تو صحیح راستہ بتائے گی ۔ اگر کسی موبائل پر غلط ہدایات درج ہوں تو آپ اس کو کیا کہیں گے؟
•ایک تصور دیا گیا ہے کہ ضابطہ 2+2=4کی بات ہے مطلب محدود کی مثال دی گئی ہے تو اس پر میں یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ آپ صرف دو اور دو پر کیوں اٹک گئے ہیں ذرا وسعت سے اس کو دیکھ لیں کہ میتھس کے ماہر فارمولا دیتے ہیں اسی کو لے لیں کہ2+2=4ہے تو اگر اس میں موجود عدد میں اضافہ کردیا جائے تو کیا تب بھی جواب چار ہی ہوگا ؟ یقیناً۔ نہیں تو اگر آپ صرف دو جمع دو پر مصر ہیں تو یہ فارمولا کا نہیں آپ کا قصور ہے ۔ کیوں کہ ویلیوز دینا دوسروں کا کام ہے اور فارمولا دینا ماہر کا ۔ اب اگر یوزر ویلیوز ہی کم دے رہا تو جواب بھی کم ہی آئے گا۔ جس حد کا انتخاب یوزر کرے گا اسے جواب بھی اسی حد کا ملے گا۔ بالکل اسی طرح اسلام بھی ایک کلیہ حیات ہے فارمولا ہے اور ہر دور میں آنے والے انسان اور مسلمان اس فارمولا پر اپنی پریشانی یا مسئلے کو اس پر رکھ کر دیکھے گا تو جواب اس کے حل میں نکلے گا۔جو اس کے ضابطہ حیات کی دلیل ہے۔
مندرجہ بالا موضوع پر مزید بحث کی جاسکتی ہے مگرحاصل بحث یہ ہے کہ اسلام کو ضابطہ حیات نہ ماننے کے لیے کئی دانشور اس کی کئی کئی توجیہات بیان کرکے اپنے اور دوسرے افراد کے ذہنوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔ اسلام نے ہمیشہ سے ہر دور میں اپنے پیروکاروں کو مفید رہنمائی فراہم کی ہے اس کے ضابطہ حیات ہونے کی دلیل ہے ، بلکہ اسلام تو غیر ماننے والے کا بھی بھلا کرتا ہے۔ اس طرح تو یہ ضابطہ کائنات بھی کہلا سکتا ہے لیکن اس سے غیروں کی حالت خراب ہوجائے گی لہٰذا کم پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
ضابطہ حیات نہ ماننے والے دوسروں سے یہ حق اور اطمینان چھیننے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسلام ضابطہ حیات کہنے سے محدود ہوجاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی آئین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو وہ آئین حرکت میں آتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو وہ افراد اس کارروائی سے بچنے کے لیے ہی اس آئین اور دستور کو متنازعہ بنارہے ہیں۔

Facebook Comments

بشیرعبدالغفار
ایک طالب علم سے زیادہ کچھ نہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply