پروفیسر عامر زرین کا فن و شخصیت/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

جو نام اپنے مقام و مرتبے کی لاج رکھتا ہے۔اس کے تفسیری رنگوں کی پہچان آسان ہو جاتی ہے۔فطرت میں ادب کا روگ پالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔کیونکہ روح و بدن جلائے بغیر تخلیق جنم نہیں لیتی۔جیسے فلک پر کہکشاؤں کے جھرمٹ نظر آتے ہیں۔اسی طرح زمین پر علم و ادب کے لاکھوں ستارے اپنی روشنی بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ان کے قلب و ذہن میں علم و ادب کا نہ ختم ہونے والا چراغ جل رہا ہے جس کی روشنی سرحدوں کی پرواہ کیے بغیر دور دور تک پھیل رہی ہے۔عامر زریں اپنے نام میں ایک رہنما، آباد کرنے والا یا پھر بھرا ہونے کی حقیقت چھپائے بیٹھا ہے۔اسی طرح زرین کا مطلب سونے جیسا ہے۔مطلب یہ ہوا کہ ایک رہنما جس کی شخصیت پر سونے جیسی چمک ہے۔یقینا والدین کی تعلیم و تربیت نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔جنہیں امر ہونے کے لیے محنت ِشاقہ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔شخص سے شخصیت کا سانچا یک دم نہیں بنتا بلکہ اس

حقیقت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وقت، محنت، مطالعہ، تجسس اور خُدا کے فضل کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔اپنی شخصیت کو جاذب ِنظر بنانے کے لیے ایک طویل ریاض و سفر طے کرنا پڑتا ہے۔تب کہیں جا کر انسان کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہوتا ہے جس کے لیے اس نے 40 سال کا چلہ کاٹا ہوتا ہے۔
ان کی شخصیت کے خدوخال میں ایسے نگینے موجود ہیں جن کی کشش وخوبصورتی کا یہ عالم ہے کہ نگاہ پڑتے ہی کوئی اس پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتا ہے۔ جیسے قدرت نے ہر پھل کا ذائقہ اور رنگ منفرد بنایا ہے۔اسی طرح ہر انسان کی عادات و کردار بھی فرق فرق ہے۔انسان کا ظاہر و باطن جب تک ایک نہیں ہو جاتے ہیں اس وقت تک اس کی شخصیت کا باغیچہ نہیں کھلتا۔
آج میرے کالم کے مہمان دوست جن کا نام، فن، کام، ادب کا چرچا زبان زد ہے وہ نام اپنی ذات و عرفان میں معتبر اور مدبر ہے۔اسے تابندہ روایت کے آنچل میں زبان زد لانا میرا ادبی، مذہبی، روحانی اور معاشرتی فرض ہے۔ان کی زندگی کا سفر بڑا دلچسپ اور حقائق پر مبنی ہے۔جس کی روشنی میں میں اپنا قلمی حق ادا کر رہا ہوں۔ان کی شخصیت ہمہ جہات خوبیوں کی مالک ہے۔ اس امر کے باوجود بھی ان کی سچی اور کھری پہچان کالم نویسی، تبصرہ نویسی، مضمون نگاری، افسانہ نگاری اور شاعری کی صنف سے عبارت ہے۔
لٰہذا میں ایک ادبی دوست کے فن و شخصیت کو جو اپنے اندر علم و ادب کے کئی چراغ روشن کیے ہوئے ہے۔اسے دوسروں کو دکھانے کے لیے اپنا قلمی استحقاق استعمال کر رہا ہوں۔اُمید ہے یہ کرن دوسروں کو روشنی کا احساس دے کر ضرور بیدار کر دے گی۔مجھے ان کی محبت کا یہ قرض بہت پہلے چکا دینا چاہیے تھا۔مگر ذاتی مصروفیات، درس و تدریس کی مجبوریاں دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی تھیں۔جس کی وجہ سے میں تاخیر کے نشیب میں گرتا رہا اور بالاآخر وقت نے اجازت دے دی۔میں نے وقت کے سندیسہ کو غنیمت جانتے ہوئے ہاتھ میں قلم تھاما اور صفحہء قرطاس پر الفاظ کا عرق نچوڑنا شروع کر دیا۔وقت اور بھیگا ہوا کاغذ مجھے اس بات کا احساس فراہم کر رہے تھے کہ صفات اُلٹاؤ اور آگے بڑھتے جاؤ۔میں حقیقت، ادبیت، روحانیت، فرضیت اور دوستی کے خمار میں اشاروں اور علامتوں کا سہارا لے کر ان کی شخصیت کا ایک خاکہ بنا رہا ہوں۔
سب سے پہلے میری نظر میں ان کے مطالعہ کی تصویر بنتی ہے جو ان کے مطالعاتی تجسس کو پیش کرنے میں میری رہنمائی کرتی ہے.ان کا مطالعہ بہت وسیع و عمیق ہے۔ان کا فن ریاضت کی بھٹی میں تپ کر کندن ہوا ہے۔ان کا تحریری لباس داغوں سے پاک اور پھولوں کی خوشبو سے معطرہے۔ان کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ شبنم کی اوس کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے کالم اور مضامین اس حقیقت کے غماز ہیں کہ ان کے مضامین کی گہرائی اور نقطہ سنجی قابل رشک بن جاتے ہیں۔وہ چھوٹے چھوٹے اور مختصر فقرات سے عبارت کو جس دلچسپی و رنگینی سے بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔وہ قاری کو متوجہ کئے رکھتا ہے۔وہ کئی صفحات پر پھیلی ہوئی تحریر کو مختصر نویسی کے سانچے میں ایسے ڈھال لیتے ہیں جیسے کوئی ماہر اینٹ بنانے کے فن سے واقف ہوتا ہے۔ایجاز و اختصار بھی ان کے اسلوب کا ایک نمایاں وصف ہے۔ان کے الفاظ کا چناؤ تحریر کو جامع اور شگفتہ بنا دیتا ہے۔ان کی تحریر میں ایک اور خوبی کا عنصر پنہاں ہے جو تحریر کو خوبصورت اور شگفتہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اُن کے مضامین میں اشاریت اور علامیت کا بھرپور استعمال ہے جو فورا سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔اس کے علاوہ میں ان کے منفرد اسلوب، سحر انگیز ظرافت اور باکمال مرقع نگاری کے باعث دادو تحسین دینا اپنا اخلاقی اور قلمی فرض سمجھتا ہوں۔تحریر کی جاذبیت زبان کی فضا میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ان کی تحریروں میں طرز و ادا اور معانی و مفہوم کی لامحدود وسعتیں موجود ہیں جو اُن کے پختہ شعور کی ترجمان ہیں۔
اگر ہم ان کی تحریروں سے چشم پوشی اختیار کریں تو ان کی ادبی شخصیت نظروں سے اوجھل ہو جائے گی۔ لٰہذا بد نظری سے بچتے ہوئے ہمیں وسیع القلبی اور وسیع النظری کے اعلی اوصاف کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔میں نے اُن کی تحریروں میں معاشرے کی تلخیوں اور نہ ہمواریوں کو عقابی نظر سے دیکھا ہے۔اس امر کے باوجود بھی وہ تلخ باتوں کو نہایت لطیف پیرائے میں بیان کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔جس کے باعث قارئین کا مطالعاتی تجسس مزید بڑھ جاتا ہے۔ان کی تحریریں گہرائی اور فلسفیانہ سوچ کی عکاس ہیں۔یوں کہہ لیجئے ان کی تحریریں ذہانت و فطانت کا عمدہ نمونہ ہیں۔فاضل دوست جہاں مضمون نگاری میں رفعتِ پرواز کا درجہ رکھتے ہیں۔وہاں انہیں افسانوی ادب کے پر بھی لگے ہوئے ہیں۔ جہاں مثالیت پسندی، رومانیت اور جذباتیت ان کے قلم سے ٹپکتے نظر آتے ہیں۔
کہانی میں ان کا مشاہدہ بڑا دلچسپ اور پختہ ہوتا ہے۔اس بات کا اعزاز بھی کسی کسی کو حاصل ہوتا ہے کہ وہ معاشرتی ناہمواریوں کی گرہیں کھولنے کا کتنا تجربہ رکھتا ہے۔وہ اپنے افسانوں کی تمہید اس طرح باندھتے ہیں جیسے کسی پھدکتی چڑیا کو پکڑنے کے لیے جال بچھایا جاتا ہے۔ان کی تحریر میں واقعہ نگاری کا نفسیاتی تجزیہ گندے ہوئے آٹے کی طرح دکھائی دیتا ہے۔کسی بھی افسانہ نگار کی خوبصورتی کا راز تخیل کی بلند پروازی، جملوں کی ساخت، مثالوں اور تشبیہات کے استعمال پر منصحر ہے۔
بحیثیت مبصر انہوں نے کئی کتابوں پر تبصرے لکھے ہیں۔جن کے اثبات اُردو کی معروف ویب سائٹس ”ہم سب“ اور”مکالمہ“ پر دستیاب ہیں۔ انہوں نے مجھ سمیت کئی نامور شعراء،ادباء اور سماجی شخصیات کی خدمات پر قلم کشائی کی۔ ان نامور شخصیات میں: نذ یر قیصر، منور عزیز، عصمہ جہانگیر، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جیمس شیرا، سہیل ساجد اسٹنز آبادی،ضیاء محی الدین، جنرل پرویز مشرف، آصف عمران، جاوید یاد اور امتیاز گل شامل ہیں۔ راقم اُردو ادب کے لیے کی گئی ان کی تمام خدمات کا اعتراف واہ شگاف الفاظ میں کرتا ہے۔
قدرت نے انہیں شاعری کے توڑے سے بھی نواز رکھا ہے۔ان کی یہ مشق انہیں نامور شعراء و ادباء کی صف میں کھڑی کر رہی ہے۔ان پر ذمہ داریوں کی ایک گٹھڑی ہے۔جس کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے وہ وقت کی تقسیم کاری سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ایک سرکاری کالج کے پرنسپل سے لے کر ادبی سرگرمیوں کے فروغ تک جدوجہد کا ناقابل بیان سفر حقیقت میں کیسے تبدیل ہو گیا؟ یقینا ان سب کامیابیوں اور کامرانیوں کا سہرا انہی کی ذات کو جاتا ہے۔میں ان کی خدمات کا مداح ہوتے ہوئے انہیں کامیاب اُستاد، شاعر، ادیب، افسانہ نگار،مضمون نگار، محقق اور مبصر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
میری دِلی دُعا ہے ان کی درس و تدریس کی ذمہ داریاں اور ادبی سرگرمیاں اسی جوش و خروش کے ساتھ بامِ عروج پاتی رہیں جیسے ماضی اور حال نے ان کے گن گائے ہیں۔آخر میں، میں ان کی شخصیت کو وَلی دکنی کے اِس شعر پر بڑھتے پھولتے دیکھتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خوبرو خوب کام کرتے ہیں
یک نگاہ سے غلام کرتے ہیں

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply