خواجہ سراء کی زندگی کی بڑی غلطی/ثاقب لقمان قریشی

مجھے سوشل میڈیا پر بہت سے پیغامات موصول ہوتے رہتے ہیں۔ وقت کی کمی کے باعث ذیادہ تر کا جواب نہیں دے پاتا۔ عید کے دن میسیجز دیکھ رہا تھا۔ پتہ چلا کہ لاہور کی ایک یونیورسٹی کی طالبہ حورب جو نفسیات میں ایم-فل کر رہی ہیں۔ طالبہ کو خواجہ سراؤں پر تھیسز کیلئے ہماری مدد درکار ہے۔ حورب نے اپنا نمبر دیا۔ میں نے انھیں اپنے مکالمہ اور ہم سب کے بلاگز کے لنکس بھیج دیئے اور کہا کہ خواجہ سراؤں سے متعلق جو سوالات آپ کے ذہن میں ہیں انشااللہ سب کے جوابات آپ کو ہماری تحریروں سے مل جائیں گے۔ حورب نے ہماری تحریروں کا مطالعہ کیا پھر ہم نے انھیں انٹرویوز کیلئے چاروں صوبوں سے کچھ خواجہ سراء دوستوں کے نمبرز دے دیئے۔
چند روز قبل حورب کا میسج آیا کہ ہماری تحریریں اور خواجہ سراؤں سے کیئے گئے سوال جواب ان کی تحقیق کا حصہ بن چکے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے اور طالب علم، مکالمہ اور ہم سب سے میری تحریریں پڑھ کر اپنا کام مکمل کرسکتے ہیں۔ مجھے چاروں صوبوں سے کچھ خواجہ سراؤں کا اعتماد حاصل رہا ہے۔ میری تحریروں میں چاروں صوبوں کے خواجہ سراؤں کے مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امریکہ میں مقیم معروف ماہر نفیسات، کالم نگار، ایکٹوسٹ گوہر تاج صاحبہ کا کہنا ہے کہ ہماری تحریروں کو کتاب کی شکل دے کر انسانی حقوق کے نصاب کا حصہ بنا دینا چاہیئے۔ خواجہ سراء کمیونٹی کو آج جو تھوڑی بہت پہچان ملی ہے۔ وہ ہماری وجہ سے ممکن بنی ہے۔یہ سب مکالمہ اور ہم سب کے ایڈیٹرز کے تعاون سے ممکن ہو پایا ہے۔
2019ء میں، میں نے صاحبہ جہاں کا انٹریو کیا۔ صاحبہ بہاولپور میں فوکس ٹرانسجینڈر آرگنائزیشن کے نام سے ادارہ چلا رہی ہیں۔ صاحبہ جہاں جنوبی پنجاب کے بڑے ناموں میں سے ایک ہیں۔ صاحبہ میٹرک کرکے جب ایف-اے تک پہنچیں تو ان پر گھریلو تشدد اتنا بڑھ گیا کہ کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ صاحبہ کی مرحوم بہن نے انھیں مشورہ دیا کہ یا تو خودکشی کر لو یا پھر گھر سے بھاگ جاؤ اس کے سواء اور کوئی چارہ نہیں۔ صاحبہ گھر سے بھاگ گئی۔ مختصر سے عرصہ میں صاحبہ نے فنکشنشز کی دنیا میں اپنا نام بنا لیا اور گھر پیسے دینا شروع کر دیئے۔ بھائیوں نے یہ سب دیکھا تو انھوں نے والدین سے ہاتھ اٹھا لیا۔ اب صاحبہ ان کے اخراجات اور علاج معالجہ کا خرچہ اٹھاتی ہیں۔
عید کے دوسرے دن ایک خواجہ سراء سے بات ہوئی۔ جس نے بتایا کہ گھر فون کرنے پر پتہ چلا کہ گھر والوں کے پاس قربانی کے پیسے نہیں ہیں اس نے پچاس ہزار روپے بھیج دیئے۔ سب بڑے خوش ہیں دعائیں دے رہے ہیں۔
چند روز قبل ایک خواجہ سراء نے بتایا کہ اس نے گھر والوں کو ایک گاڑی گفٹ کی ہے ساتھ میں ڈرائیور بھی لگا دیا ہے جس کی پچیس ہزار روپے تنخواہ بھی وہ ادا کر رہی ہے۔
سال قبل ایک خواجہ سراء نے بتایا کہ اس کے ادارے میں ایک ڈاکٹر جاب کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی بہن کی شادی نزدیک آئی تو اس نے پوچھا کہ کیا تحفہ دوں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ شادی کے کھانے کا بل دے دینا۔ جو کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بنا۔ میں نے سوال کیا کہ کیا آپ نے صرف کھانے کا بل ہی دیا ہے۔ وہ بولی نہیں اور بھی خرچے کیئے ہیں۔ اس نے پھر پچاس ہزار روپے گنوا دیئے۔صباء گل نے اپنے خاندان اور گاؤں کی بہت سی بچیوں کی شادیوں پر پورا جہیز دیا ہے۔
روڈ پر بھیک مانگنے والا ہر خواجہ سراء یا تو اپنے والدین کو خرچہ بھیجتا ہے یا کسی غریب بھائی بہن کی مدد کرتا یا ان کے بچوں کی تعلیم یا شادی کا جہیز بناتا پایا جائے گا۔
گھر والے خواجہ سراؤں کے گرد گھیرا اتنا تنگ کر دیتے ہیں کہ یا تو یہ خودکشی کر لیتے ہیں یا پھر بھاگ جاتے ہیں۔ پھر یہی خواجہ سراء جب گھر میں پیسہ، سونا وغیرہ بھیجنا شروع کرتے ہیں تو خوشی خوشی انکی دی ہوئی چیزیں قبول کر لی جاتی ہیں۔ جب خواجہ سراء کی عمر ڈھلنے لگتی ہے۔ بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ تو یہی گھر والے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ پھر ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب اس کے گھر فون آتا ہے کہ آپ کا بندہ مر گیا ہے۔ جنازہ گھر لے جائیں۔ تو یہی گھر والے جنازہ قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
جوانی میں خواجہ سراء خوبصورت، شوخ و چنچل ہوتے ہیں۔ انھیں بھیک، فنکشنز اور سیکس ورک کے اچھے پیسے ملتے ہیں۔ گرو کا خرچہ نکالنے کے بعد جو بچتا ہے وہ یہ گھر بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواجہ سراء اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے، اپنا خاندان نہیں بنا سکتے، تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے بنکوں میں اکاؤنٹ نہیں کھول سکتے۔ خواجہ سراء کمیونٹی اپنی سالگرہ کی تقریب پر خوب خرچہ کرتی ہے اور بہت پیسہ لٹاتی ہے۔ خواجہ سراء پیسہ بنکوں میں نہیں رکھتے اسلیئے جب انکے گرو یا کسی مخالف کو خبر ہو جائے تو وہ جرائم پیشہ افراد کو انکے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ مار پیٹ اور چھینا جھپٹی کے دوران شدید چوٹوں سے لے کر قتل تک کے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔
بھیک مانگنے اور فنکشنز کرنے والے خواجہ سراؤں کو ہر وقت نامناسب القابات، چھیڑ چھاڑ اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیکس ورکرز تو رہتے ہی ہراسانی ماحول میں ہیں۔ دوسری طرف ڈیروں پر ہر وقت پولیس اور جرائم پیشہ افراد کی آمدورفت کم عمری میں ہی خواجہ سراء کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ خواجہ سراؤں کی اکثریت غم بھلانے کیلئے نشے کا استعمال کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ جلد بوڑھے اور بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جمع پونجی نہ ہونے کی وجہ سے انکی آخری عمر سسک سسک کر گزرتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ خواجہ سراؤں کیلئے ای-او-بی-آئی کی طرز کی پینشن اور سوشل سیکورٹی جیسی سکیم شروع ہونی چاہیئے۔ خواجہ سراء سے روزگار کا ذریعہ معلوم کیئے بغیر اس سے کہا جائے کہ آپ مہینے کے ڈھائی سو روپے متعلقہ دفتر میں جمع کروائیں۔ خواجہ سراؤں کیلئے پینشن کی عمر کو بھی پچاس سال کیا جائے کیونکہ یہ وقت سے پہلے بوڑھے اور بیمار ہو جاتے ہیں۔
خواجہ سراؤں کیلئے بنک میں اکاؤنٹ کھولنے کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے۔ انھیں عام لوگوں سے ذیادہ پرافٹ دیا جائے۔ انکے لیئے خصوصی قلیل اور طویل مدتی سکیمیں متعارف کروائی جائیں۔ ان سکیموں سے خواجہ سراؤں کی حوصلہ افزائی اور بچت کا کلچر فروغ پائے گا۔
نجی اور سرکاری سکیموں میں خواجہ سراؤں کیلئے کم قیمت اور آسان اقساط پر مکان اور دکانیں رکھی جائیں جن کے کرائے انکی سپورٹ کا ذریعہ بن سکیں۔
اسی طرح خواجہ سراء کیمونٹی میں انشورنس کے حوالے سے آگہی عام کی جائے اور خصوصی قسم کی سکیمیں تیار کی جائیں۔ جن کی مدد سے انھیں بڑھاپے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
خواجہ سراء کمیونٹی کی بڑی تعداد ناخواندہ اور غریب ہے۔ انکی بچتیں بھی کم ہوتی ہیں اور لمبی چوڑی کاغذی کارروائیوں سے ڈرتے ہیں۔ اگر انکے لیئے ایک ایزی پیسہ قسم کی ایپ بنا دی جائے۔ جس میں یہ باآسانی پیسہ جمع کروائیں اور ضرورت پڑنے پر نکلوا لیں۔ ایسی ایپ ذیادہ موثر ثابت ہوسکتی ہے۔
خواجہ سراؤں کو بچت کی طرف راغب کروانے سے خواجہ سراء کمیونٹی، حکومت اور پورے معاشرے کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ خواجہ سراء بچت کر کے اگر چھوٹی موٹی پراپرٹی یا پیسہ اکھٹا کر لیں گے۔ تو اس سے انکے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ محرومی اور بے یقینی میں کمی آئے گی۔ جینے کا مقصد سمجھ آئے گا۔ خواجہ سراؤں کا پیسہ انہی پر لگنے سے حکومت کو یہ فائدہ پہنچے گا کہ بیت المال اور سرکاری ہسپتالوں کا بوجھ بھی کم ہو جائےگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply