اگر اللہ نہ چاہے/شاکر ظہیر

میری بیوی کی ایک نو مسلم سہیلی لی لی ( lily ) بھی تھی، جس کا تعلق سانشی ( shanxi ) صوبے سے تھا اور لی لی ( lily ) کے شوہر عبدالرحمٰن کا تعلق  تیونس سے، دونوں بہت ہنس مکھ تھے ۔ عبدالرحمن اپنی تیونس کی خاص ڈش ” کش کش ” پکاتے تو ہم دونوں میاں بیوی کو ضرور بلاتے تھے ۔ اللہ نے انہیں دو بیٹوں سے نوازا اور اب وہ تیونس ہی میں رہائش رکھے ہوئے ہیں ۔ ایک دفعہ ہم ان کی دعوت پر ان کے گھر گئے تو ان کی بیوی نے میری بیوی سے ایک عجیب بات چھیڑ دی ،جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی اور نہ پہلے کبھی سنی تھی ۔ وہ یہ کہ تیونس مراکش کے مسلمان اونٹ کا پیشاب پیتے ہیں اور یہ بیماریوں کا علاج ہے ۔ دوسرا اس کا حدیث میں بھی ذکر ہے ۔

یا اللہ یہ پیشاب کا شمار خبائث میں ہوتا ہے یہ تو انسانی فطرت جانتی ہے اس کےلیے مذہب کی بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں اور یہاں یہ حدیث پیش کر رہے ہیں ۔ پیشاب کا استعمال تو ان کیمونسٹوں میں بھی کوئی نہیں کرتا کہ اسے انسانی استعمال کی چیز سمجھا ہی نہیں جاتا اور نجس ہی سمجھا جاتا ہے اور یہ تیونس اور مراکش والے اونٹ کے پیشاب کے استعمال کےلیے حدیث سے دلیل دے رہے ہیں ۔ واپس آ کر میں نے اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر سرچ کی تو اس کی بات واقعی درست تھی ۔ بلکہ وہ تو باقاعدہ ٹن پیک میں مراکش تیونس میں دستیاب ہے ۔

سوالوں کا ہجوم مجھے گھیرے ہوئے تھا ۔ مجھے کیا سب ہی کو گھیرے ہوئے تھا ۔ شاید صرف میں ان کے جوابات کی تلاش میں تھا باقی شاید جوں ہے جیسا ہے پر عمل کر رہے تھے ۔ مسئلہ سب کے ساتھ تھا ۔ نوّے کی دہائی انٹرنیٹ عام لوگوں کی پہنچ میں آنے کے بعد اس دہائی میں پیدا ہونے والی نسل جوان ہو کر سوال لے کر سامنے کھڑی تھی اور دینی مدراس والے جو دین کے نمائندہ کہلاتے تھے وہ باہر کی دنیا سے نا آشناء بس غاروں میں اپنی دنیا بسا کر بیٹھے تھے ۔ سوالوں کے جواب میں فتوے ہی ان کےلیے جان چھڑانے کا آسان حل تھا ۔ انہیں شاید معلوم نہیں تھا کہ یہ ان کی بقاء کی جنگ ہے ۔اگر ان سوالات کے تسلی بخش جوابات وہ معاشرے کو نہ دے سکے تو ان کی اہمیت چلے ہوئے کارتوس جتنی بھی نہیں ہوگی اور یہی ہوا ہے ۔

کچھ ہی عرصہ میں پاکستان کے مختلف علما  کو مختلف مسائل پر سننے کے بعد مجھے یہ یقین ہو گیا کہ ان کے پاس وہی فضول قسم کی بحثیں ہیں جن سے مجھے کوئی لینا دینا نہیں۔ میرے سوالوں یا آج کی نسل کے سوالات کا جواب وہی دے سکتا ہے جس کا تعلق پاکستان سے باہر ہو یا وہ وہاں اس مخلوط معاشرے میں رہ رہا ہو اور وہاں اس کا سامنا  دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے ہوتا ہو ۔ وہ دوسرے مذاہب کی تفصیلات جانتا ہو اور اس  پر بنیاد کے اصولی مباحث کر سکتا ہو  ۔ دلائل کی بنیاد عقلِ  انسانی  پر رکھنا جانتا ہو اور سب سے اہم یہ کہ  عقیدت  کو ایک طرف رکھ کر بات کرنا جانتا ہو ۔ کیونکہ آپ کی کسی شخصیت یا نظریہ کےلیے عقیدت دوسرے کےلیے دلیل نہیں بن سکتی، بلکہ وہ صرف آپ ہی کو اطمینان دلا سکتی ہے ۔

تلاش میں نے بھی جاری رکھی تو معلوم نہیں کیسے میرے پاس کسی کی ٹیگ کی ہوئی پوسٹ ” سنت اور حدیث ” سامنے آئی ۔ میں نے پڑھنا شروع کیا تو یہ تو الگ ہی دنیا تھی جہاں سنت کو حدیث سے الگ کیا جا رہا ہے ۔ یہ محترم قاری صاحب کی پوسٹ تھی جن کی رہائش پاکستان سے باہر تھی اور جو بیرون کی دنیا سے جڑے ہوئے تھے ۔ جیسے جیسے پڑھتا گیا دلائل ملتے چلے گئے ۔

پھر کچھ اور رہنما ملتے گئے ۔ طلاق کے مسئلے کو تمنا عمادی صاحب کی ” الطلاق مرتان ” نے کافی حد تک واضح کر دیا ۔ یا یوں کہیں کہ یہ سمجھا دیا کہ اس مسئلہ پر بحث ہو سکتی ہے ، یہ کوئی حتمی ، اٹل بات نہیں ہے ، اس پر کئی طرح کی قانون سازی ہو سکتی ہے ۔ ویسے بھی جب سنت کو حدیث سے الگ کیا اور سنت کو دین کہا اور حدیث کو تاریخ سمجھا تو گھتیاں سلجھتی گئیں ۔ بہرحال یہ تو دین کے اندر کھڑے ہو کر بات سلجھ رہی تھی ، دین سے باہر کھڑے ہو کر بہت سے سوالات ویسے ہی کھڑے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے اضطراب کو بھی رب نے دیکھا اور راہ دکھانا شروع کر دی ۔ یہ سچ ہے کہ جسے حق کی تلاش ہوتی ہے اسے رب اکیلا نہیں چھوڑتا ۔ یہ دروازہ اندر سے کھلتا ہے اور خود کھولنا پڑتا ہے اپنی مرضی سے ، باہر والا صرف دستک ہی دے سکتا ہے ۔ حق بہت قیمتی چیز ہے خدا دیتا ہے جو اس کی خود خواہش رکھتا ہے ۔ یہی قرآن کے کہنے کا مدعا ہے خدا جسے چاہتا ہے یعنی جو خود ہدایت کی طلب رکھتا ہے اسے ہدایت دیتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply