• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کوئی معجزہ ہو گا (پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کے نام )-تحریر/محمد وقاص رشید

کوئی معجزہ ہو گا (پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کے نام )-تحریر/محمد وقاص رشید

اس تصویر کو غور سے دیکھیے ۔۔کیا دِکھا ؟ غور کیجیے ۔۔میری تو نیند آنکھوں سے جاتی رہی۔ آنکھیں بند کرتا ہوں تو ہنستے ہوئے اس آدمی کی تصویر دھاڑیں مارنے لگتی ہے۔ آنکھیں کھولتا ہوں اس تصویر سے ٹپکتے خون کے قطرے آنکھوں میں تیرنے لگتے ہیں۔
مجھے لگا یہ تصویر آج کے آدم کی تصویر ہے۔ وہ آدم جسے خدا نے مصنوعی ذہانت ( آرٹیفیشل انٹیلیجنس ) کا علم سکھایا ہے۔ اس علم کی بنیاد پر خدا نے اسے اپنا نائب اور اشرف المخلوقات قرا ر  دیا ہے اور حکم دیا کہ اسے سجدہ کرو۔ مشکل مگر یہ ہے کہ آج سامنے ایک ابلیس نہیں بلکہ تمام ابلیس کھڑے ہیں۔ آدم مسکرا رہے ہیں کہ خدا کا حکم ہے کیسے ٹالیں گے۔

انکا علم انہیں یہ اعتماد بخش رہا ہے کہ ابلیسوں کے کاندھوں پر لگی ابلیسیت  کی سہولتکار مشینیں ان پر نہیں چلیں گی،مگر اچانک ابلیس اپنی قدرتی ذہانتوں کو جہالت اور انتقام کے بارود میں بجھا کر مصنوعی ذہانت کے اس عالم کو اپنا مسجود کہلانے کی سزا دینے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور یہ بندوقیں ان کی جانب کر لیتے ہیں۔ آدم پھر خدا کی حاکمیت کو سوچ کر مسکرا دیتے ہیں کہ بھلا کیونکر خدا انکی زندگی ان ابلیسوں کے ہاتھ میں دے گا۔

آج کے آدم کے علمیت سے بھرپور ذہن میں وہ تمام واقعات ایک لحظے کے اندر بجلی کے کوندے کی طرح لپکنے لگتے ہیں ،کہ ابراہیم والی آگ کی طرح یہ بارود کی گولیاں انکی مسکراہٹ کی طرح کھلتے ہوئے گلاب بن جائیں گی۔ اس جہالت کے گہرے کنویں میں چاہ ِ یوسف کی خدا انہیں بچا لے گا۔ یونس والی مچھلی کے نوکیلے دانتوں کی طرح کی تیز نوکیلی گولیاں انکے بدن کے پار بھی اسی طرح نہیں جائیں گی۔

پھر آج کے اس آدم کو یہ بھی یاد آتا ہے کہ وہ زمین کی جنت ان اپنوں کو پڑھانے کے لیے چھوڑ کر یہاں آیا۔ انکے زرخیز ذہن میں وہ جنت نذیز نظارے آئے ہونگے جنہیں چھوڑ کر وہ اس مٹی کی محبت میں یہاں چلے آئے جس مٹی پر آج انہیں ان اپنوں نے بٹھا دیا۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ یہ “اپنے”اس احسان کا بھرم تو رکھ ہی لیں گے۔

یا پھر اس ایک لمحے میں ساری حیات کی ریاضت ایک پچھتاوے کا تازیانہ بن کر سوچوں پر برسنے لگی ہو گی۔ کیوں آیا یہاں ؟ انکے لیے آیا ؟ انکی نسلوں کا کل سنوارنے آیا میرا آج جن کی بندوق کی نال کے سامنے بے بسی کی تصویر بنا مٹی پر براجمان ہے۔
ان سوچوں سے انہیں ایک زوردار آواز چونکا دیتی ہے کہ وہ اچانک اپنے سینے میں ایک دہکتا ہوا انگارہ داخل ہوتا محسوس کرتے ہیں۔ یہ وہ سینہ ہے جسے پُھلا کر وہ ان “اپنوں” میں آئے تھے۔ انہیں وہ علم دینے جس سے انکی نسلیں زمینی خداؤں ان وڈیروں کی نظر میں “کاری ” نہ سمجھی جاتیں۔ یوں پہلی گولی چلتی ہے۔ وہ خون بہہ کر اس مٹی میں شامل ہونے لگتا ہے جس خون میں یہ مٹی پہلے سے شامل تھی۔

دوسری گولی چلتی ہے۔ مسکراہٹ معدوم پڑنے لگتی ہے۔ یہ گولی اس دل میں چھید کرتی ہے جس دل میں ان اپنوں کی محبت بسی تھی انہی اپنوں کی۔

تیسری گولی سے درد کی شدید لہر اس دماغ کی طرف دوڑتی ہے جس میں مصنوعی ذہانت کے علم سے لبریز قدرتی ذہانت پڑاؤ ڈالے ہوئے تھی۔ یہ قدرتی ذہانت درد سے کلبلا اٹھتی ہے مصنوعی ذہانت موت کے خوف سے تھرتھراتی ایک کونے میں دبک جاتی ہے۔

اسکے بعد وہ اپنے وہ ابلیس ایک گولی اس سر میں مارتے ہیں جس پر اس وطن سے عشق اور اپنائیت کا سودا سوار تھا۔ دہکتا ہوا بارود اس دماغ کے خلیوں کو ادھیڑ کر خاکستر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ وہ خلیے جن پر اغیاررشک کرتے تھے اپنوں کی ایک گولی کی مار نکلا۔

پھر یکے بعد دیگرے اور بھی گولیاں چلتی ہیں تاکہ اس مٹی کو سیراب کرنے کے شوقین لہو کا ایک قطرہ بھی جسم کے اندر نہ رہ جائے۔

آج کا یہ آدم ابلیسوں کے پیروں میں گر جاتا ہے وہ لب اس مٹی پر پڑتے تو ہیں، لیکن اسکا بوسہ لینے کی سکت سے محروم ۔ پروفیسر ڈاکٹر آدم کے چہرے سے زندگی میں پہلی بار مسکراہٹ جاتی رہی شاید اس روح کے ساتھ آسمان کی طرف پرواز کر گئی۔

پھر اس قدرتی اور مصنوعی ذہانت کی لاش کے گرد ابلیس جشن منانے لگتے ہیں۔ پروفیسر نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تو اغیار کے ہاں سے لے لی تھی لیکن ابھی تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی یہ آخری سبق اسے اپنوں کے مانوس ہاتھوں سے ملنا تھا ۔ پھر اس آسمان کی طرف بندوقوں کا رخ کر کے گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ یہ پیغام دینے کے لیے کہ۔۔ ۔ لے نہیں کرتے سجدہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں چشمِ تصور کی بھی بھیگی آنکھ سے دیکھتا ہوں کہ آج کے اس آدم کی روح جب حضرت آدم ع کے پاس سے گزرتی ہے تو ایک لمحے کو توقف کرتی ہے۔ اسی طرح وہاں کے فرش پر بیٹھتی ہے یونہی مسکراتی ہے اور کہتی ہے ہم نہ پیغمبر نہ نبی نہ رسول ۔۔۔ہم آج کے آدم دیکھیے تو وہاں کیسے جیتے ہیں کہ خدا بھیجتا ہے ابلیسوں کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ ہم اسکے نام کا الم اٹھاتے ہیں۔ زمین کے ان خداؤں سے لڑتے ہیں اور انکے ہاتھوں مرنے تک مسکراتے ہوئے یہی سمجھتے ہیں کہ کوئی معجزہ ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply