• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہمیں بھارت سے جنگ کے اصول بدلنے ہوں گے (قسط اوّل )-محمد جنید اسماعیل

ہمیں بھارت سے جنگ کے اصول بدلنے ہوں گے (قسط اوّل )-محمد جنید اسماعیل

دو ممالک کے درمیان جنگ سے مراد ایسی تناؤ کی کیفیت ہے جس میں وہ آپس میں کوئی تعلقات پروان نہ چڑھاسکیں اور حتی الامکان کوشش کریں کہ ایک دوسرے کا نقصان کریں ۔پاکستان اور بھارت بھی اپنے قیام سے ہی ایسی کیفیت کا شکار ہیں ۔یہ تصور غلط ہے کہ پاکستان اور بھارت کے بیچ تین جنگیں ہوچکی ہیں بلکہ میرے مطابق تو یہ دونوں ہمسایہ ممالک شروع دن سے ہی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی عملی کوششوں میں مصروف ہیں۔اس کی سب سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ دونوں ممالک اپنی آمدنی کا ایک کثیر حصّہ دفاع کی مد میں خرچ کرتے ہیں ،صرف یہی نہیں بلکہ دونوں کی افرادی قوت بھی(جیسا کہ پاکستان کے پانچ لاکھ ساٹھ ہزار جب کہ انڈیا کے بارہ لاکھ سینتیس ہزار جوان ) اسی وجہ سے ضائع ہورہے  ہیں ، کہ اسے بس دشمنی کے راگ یاد کروائے جاتے ہیں اور کسی خاطر خواہ تعمیری کام میں نہیں لگایا جاتا ۔پاکستانی عوام ہو یا بھارتی، دونوں کو کچھ خاص مقتدرہ حلقوں کی جانب سے ہمیشہ نفرت کا سبق دیا جاتا ہے اور اساطیری کہانیوں کے سہارے ان کے نفرین کے اس جذبے کو تقویت دی جاتی ہے ۔پیداکردہ اس دشمنی سے ملک وملت کو تو فائدہ نہیں ہوسکتا البتہ ان حلقوں کو ضرور  فائدہ حاصل ہوتا ہے جن کی روزی روٹی ہی اسی دشمنی کے قائم رہنے سے منسلک ہے ۔

ان ممالک کی دشمنی کی وجوہات میں اندرونی عناصر کے ساتھ ساتھ بیرونی عناصر بھی شامل ہیں جن کی برآمدات کا ایک بڑا حصّہ ان دونوں ممالک کو دفاعی سامان بھیجنے پر مشتمل ہے ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایسے ممالک جن میں دو عالمی طاقتیں روس اور امریکہ شامل ہیں کسی صورت یہ گوارہ نہ کریں گے کہ یہ دوہمسایہ ممالک کبھی بھی اپنی دشمنی ختم کرکے آپس میں تجارت شروع کرسکیں جس سے نہ صرف ان سے کی جانے والی دفاعی سامان کی برآمد کم ہو بلکہ پاکستان اور بھارت کی دوطرفہ تجارت بڑھنے کے باعث ان طاقتوں سے تجارت بھی کمی کا شکار ہو ۔اسی تناؤ کی کیفیت کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف وجوہات کو بنیاد بناکر نفرت کو چنگاری دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس کا ایک حالیہ مظاہرہ پاکستانی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹوزرداری اور بھارتی وزیرِ خارجہ کی آپس میں ہونے والی زبانی کلامی تلخی کی صورت دیکھنے میں آیا جس میں بلاول بھٹو زرداری کو ایک غیور وزیرِ خارجہ کے طور پر پیش کیا گیا اور ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کئی ریلیاں نکالی گئیں ۔ایک دوست نے تو ان کےلئے پوسٹ لگاتے ہوئے یہ تک لکھ دیا کہ

“امریکہ میں بیٹھ کر ہندوستان کی چیخیں نکلوانے والا بہادر وزیرِخارجہ،ہمارا فخر ،شان ہماری، بلاول بھٹوزرداری ”

اس کے نیچے ایک بندے نے خوب صورت اور حقیقت کے قریب تر کمنٹ کیا

“جو چیخیں سندھ کے لوگوں کی نکلوائی جارہی ہیں ان کا کیا ؟

ماضی میں جب جب دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب ہونے لگے تو کچھ خاص حلقوں کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور ہر بار حالات خراب کرنے کی پوری کوشش کی گئی ۔
مثال کے طور پر جب 1999 میں اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف کے درمیان مذکرات ہونے لگے اور اعلان لاہور پر دستخط ہوئے تو پرویز مشرف نے کارگل جنگ چھیڑ دی ۔2008 میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جب بھارت گئے اور معاملات بہتر ہونے لگے تو ممبئی حملے ہوگئے ۔2016 میں جب نریندر مودی پاکستان میں نواز شریف صاحب سے ملنے آئے تو ان کی واپسی پر ہی پٹھان کوٹ میں حملہ ہوگیا ۔

ایسے تمام واقعات سے ایک بات تو طے ہے کہ طرفین میں ایسی طاقتیں یا ایسے کردار ہیں جو دونوں ممالک کے بہتر تعلقات نہیں چاہتے جو کہ ان کے Vested interests کو گزند پہنچائے اس لئے وہ پراپیگنڈا کرکے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کا دشمن ظاہر کرتے ہیں ۔ہمیں اسی منفی ذہنیت اور سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہمارا ہمسایہ جو کہ “ماں جایا “ہوتا ہے، تکلیف میں ہے تو ہمیں خوش ہونے کی ضرورت کیا ہے، بلکہ ہمیں اپنی خوشی کا بہانہ اپنی خوش حالی سے نکالنا ہوگا ۔ہمیں بھارت میں آگ لگانے سے زیادہ اپنے ملک میں سکون لانے کی ضرورت ہے ۔ہمیں کسی کو جلانے کی بجائے اپنے مرہم کی جستجو کرنی ہے ۔ہمیں کسی کا تماشا  دیکھنے کی بجائے اپنا وقار بحال کرنا ہے اور وہ امن کے راستے بحال ہوگا ورنہ ہمیں سیاست دان یہی بیانیہ بیچتے رہیں گے ،کبھی کشمیر کی ہمدردی کا اور کبھی بھارت دشمنی کا کیوں کہ وہ یہاں عوام کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں ۔جب ہم ان کے محاسبے اور کارکردگی کے سوال سے ہٹ کر فقط نعروں اور تیزابی بیانات پر خوش ہوتے رہیں گے تو ہمیں ڈپلومیسی کی بجائے کبھی جنرل اسمبلی میں خط پھاڑ کر ہیرو بننے والے بھٹو ملیں گے ،کبھی فقط جذباتی تقریر والے عمران خان ملیں گے اور کبھی بلاول بھٹوزرداری ملیں گے ۔یہ فیصلہ اب ہماری عوام نے کرنا ہے کہ انہیں خود عیش کرتے حکمران چاہیے ہیں جو انہیں صبر کا درس دیں ،کیا ہم عوام ایسی بیوی بننا پسند کریں گے جو ایسے شوہر کو تھپکی دے جو گھر میں فاقے ہونے کے باوجود باہر جھگڑے کرے ،دوسروں سے قرضے لے کر جھگڑوں پر خرچ کرتا رہے ۔ اب کم ازکم بھوک سے تنگ ہماری عوام کو ہی خارجہ پالیسی بدلنے پر ہر حکومت کو مجبور کرنا پڑے گا تاکہ وہ اپنے منشور میں نعروں کی بجائے کارکردگی کا ذکر کرسکیں ۔اس کے علاوہ سب سے بڑھ کر ایسی تمام غیر سیاسی قوتوں کے کردار کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو دراصل مجرم تو سیاست دانوں کو بنا کر پیش کرتے ہیں لیکن پس پردہ خود کھیلتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جنید اسماعیل
میں محمد جنید اسماعیل یونی ورسٹی میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کر رہا ہوں اور مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں کالم اور آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ٹیلنٹ مقابلہ جات میں افسانہ نویسی میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کرچکا ہوں،یونیورسٹی کی سطح تک مضمون نویسی کے مقابلہ جات میں تین بار پہلی پوزیشن حاصل کرچکا ہوں۔مستقبل میں سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔میرے دلچسپی کے موضوعات میں کرنٹ افیئرز ،سیاسی اور فلاسفی سے متعلق مباحث ہیں۔اس کے علاوہ سماجی معاملات پر چند افسانچے بھی لکھ چکا ہوں اور لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply