باد کوبیدن نامی شہر میں(1)-ڈاکٹر مجاہد مرزا

جب کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر نے اپنی کتاب ” قسطنطنیہ سے عمر خیام کے شہر تک” میں لکھا تھا کہ ” باکو دنیا میں استعمال کیے جانے والے تیل کا پانچواں حصّہ پیدا کر رہا ہے” تب مامید امین رسول زادہ، ان کے کزن علی رضا رسول زادہ، عباس گلو کاظم زادہ اور تقی نکی اوگلو نے مساوات پارٹی جس کا ابتدائی نام مسلم ڈیموکریٹک مساوات پارٹی تھا، کی بنیاد رکھی تھی۔

یہ 1911 تھا، پھر اسی مساوات پارٹی نے 1918 میں اس علاقے کو وہ قدیم نام یعنی “آذر بائیجان” دے کر، جس کے معانی آگ کی سرزمین تھا، اسے عالم اسلام میں پہلی سیکولر ریاست “جمہوریہ آذربائیجان” بنا دیا تھا۔ اس کا دارالحکومت باکو ہے جو دو فارسی الفاظ “باد” اور “کوبیدن” یعنی تھپیڑے مارتی ہَوا کا مرکب ہے۔ اس شہر کی تصاویر دیکھ کر لگتا تھا کہ کوئی پرانا شہر ہے۔ ہے تو سہی لیکن اب ماڈرن ہو چکا ہوگا، یہی خیال تھا۔

پیر کی شام دبئی سے جواد چوہدری نے بتایا کہ آپ کو آج یا کل باکو پہنچنا ہے۔ بات تو کوئی دو ہفتے سے چل رہی تھی مگر پروگرام معلوم نہیں تھا۔ میں جھلّا گیا کہ یہ کیا بات ہوئی۔ بات یہ ہے کہ بندہ خاصا سست الوجود واقع ہوا ہے، البتہ کوئی کام ذمہ لے لے تو نہ صرف اسے انتہائی مستعدی کے ساتھ کرتا ہے بلکہ احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک بھی پہنچاتا ہے، چاہے خود پر جتنی بھی کیوں نہ گزرے۔ عزیزم نے اعتراف کیا کہ غلطی اس کی تھی، قبل از وقت مطلع کرنے سے قاصر رہا تھا۔

جاؤں نہ جاؤں کی کشمکش میں مَیں نے جانے سے انکار کر دیا مگر جواد نے کہا کہ وہ تو ائیر ٹکٹ بکنگ کروانے کو بیٹھا ہے۔ اچھا تو کل سہ پہر کا ٹکٹ لے لو مگر ہوٹل کا بندوبست پہلے کرنا۔ جی ضرور، جن لوگوں سے آپ کو معاونت کرنی ہے وہ بدھ گیارہ بجے پہنچیں گے، اس نے بتایا تھا۔ آپ منگل کو چلے جائیں تاکہ کچھ آرام کر لیں۔ ای ٹکٹ تو دس بجے رات ای میل ایڈریس پر موصول ہو گیا مگر ہوٹل بکنگ رات بارہ بجے تک ندارد۔ پھر رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ اسے ہنگامی طور پر کسی کام کے لیے نکلنا پڑا ہے، رات کو کسی وقت بھی بکنگ کروا دے گا۔

خیر صبح یہ کام بھی ای میل ایڈریس پر ہوا پڑا تھا۔ دنیا کیسی ہو گئی ہے۔ ہر کام گھر بیٹھے ہو جاتا ہے۔ ہاتھ میں کوئی کاغذ بشکل ٹکٹ وغیرہ درکار نہیں رہا اب۔ نازک مزاج واقع ہوا ہوں۔ رات اس خدشے میں نیند اچھی نہ آ سکی کہ ہوٹل بک نہ ہوا تو کہاں ہوٹل تلاشتا پھروں گا۔ پھر اڑھائی بجے دن کی پرواز کے لیے دور کے ہوائی اڈے پر پہنچنے کی خاطر صبح دس ساڑھے دس بجے نکلنا تھا۔ اس لیے فون پر انٹرنیٹ چلوانے کے لیے وقت نہیں تھا۔ جن سے ملنا ہے ان سے رابطہ کیسے ہوگا، یہ سوچ بھی نیند کی دشمن رہی تھی۔

صبح دیکھا تو فشار خون کی ایک دوا ختم تھی۔ یہ دوا روس میں کم ملتی ہے، ویسے بھی ضرورت کے وقت چیز عموماً  نہیں ملا کرتی۔ دوا بہت ضروری تھی چنانچہ ڈھونڈنے میں خاصا وقت لگ گیا۔ گھر پہنچا اور ناشتہ کرتے ہی نکل کھڑا ہوا۔ ائیر پورٹ پر پہنچا جہاں ائیر لائن ایس سیون کے چالیسیوں کاؤنٹر ہیں۔ ای ٹکٹ اسی ائیر لائن نے بک کیا تھا۔ پہلے ایک لائن میں، پھر دوسری لائن میں، مگر دونوں بار یہی کہا گیا کہ فقط یہ ہماری کمپنی نے جاری کیا ہے، ہے آزال یعنی آذربائیجان ائیر لائن کا۔ بھئی اس کا کاؤنٹر ہے کہاں، دونوں خواتین کا جواب تھا کہ ڈھونڈ لیں۔

معلومات کے کاؤنٹر سے جا کر پتہ کیا تو کاؤنٹر 30 تا 34 بتایا گیا۔ میں کہیں 100 سے آگے خوار ہوتا پھرا تھا۔ کاؤنٹر نمبر32 والی نے فوراً  بورڈنگ کارڈ دینا چاہا تو میں نے کہا مجھے سائیڈ سیٹ دیں۔ ایسی سیٹ طیارے کے آخر میں بچی تھی جو اس نے مجھے دے دی۔

اپنی نشست پر جا کر کے بیٹھ گیا جو 38 سی تھی۔ میرے آس پاس منوں وزنی خواتین اپنی اپنی نشستوں پر دھڑام دھڑام سے یوں نشستیں رکھ رہی تھیں کہ طیارہ ہل جاتا تھا۔ ساتھ ہی اوپر کے خانوں میں دس کلو گرام کے نام پر اٹھارہ اٹھارہ،بیس بیس کلوگرام کے تھیلے، سوٹ کیس اور پیکٹ ٹھونسے جا رہے تھے۔ میری آنکھیں اوپر نیچے دیکھ کر پھٹی ہوئی تھی۔ ڈر رہا تھا کہ اڑھائی سو وزنی افراد اور ان کے سامان کو لے کر یہ طیارہ بلند بھی ہو پائے گا کہ نہیں۔

نشستیں تقریباً  پر ہو چکی تھیں مگر میرے ساتھ کی دو نشستیں خالی تھی۔ دعا مانگ رہا تھا کہ کوئی دھان پان ہی آ کر کے بیٹھے کہ ایک پہلوان اور اس کا تنومند بیٹا آن پہنچے۔ باپ کھڑکی والی سیٹ میں ٹک گیا اور باڈی بلڈر بیٹا ہم دونوں کے بیچ پھنس کر بیٹھ گیا۔ اس اٹھارہ بیس سال کے نوجوان کا اوپر کا دھڑ سلمان خان کے دھڑ ایسا تھا۔ بیچارہ سکیڑ بھی لیتا تو کتنا۔ بازو تو اسے ہتھے پر ہی رکھنا تھا۔ لڑکا خلیق تھا مگر اپنے حجم سے مجبور۔ میں تنگ صف میں نمازی کی طرح ایک جانب کو ہو کر بیٹھا رہا۔ پرواز ان تمام اوزان کے باوجود ہموار تھی۔ اللہ پائلٹ نسیم جعفروو کا بھلا کرے جس نے طیارہ ایسے اتارا جیسے مکھن پر بال گرا ہو۔

ایک تھیلا ہی تو ساتھ تھا جس میں بس دو شلوار قمیض  سوٹ اور شیو کا سامان تھا۔ جھٹ سے امیگریشن سے کلیر ہوکر، خوبصورت ائیر پورٹ کے بیرونی ہال میں پہنچ گیا۔ دو سو ڈالر بھنوا کر 330 منات لیے اور باہر نکل گیا۔ شام کو معلوم ہوا کہ پونے دس منات کا نقصان کر لیا۔ شہر میں شرح زیادہ تھی۔

ائیر پورٹ کے سامنے کی پارکنگ میں ایک ہی طرح کی پچاسیوں نئی ٹیکسیاں کھڑی دکھائی دیں۔ ابھی ائیرپورٹ سے شاید کوئی اور مسافر باہر نہیں نکلا تھا۔ تین چار ڈرائیور میری جانب لپکے۔ ایک گاڑی کا دروازہ کھول کر بولے بیٹھیے۔ اوہ بھائی یہ تو بتاؤ کیا لو گے؟ بس بیٹھ کر کے ڈرائیور سے طے کر لیجیے گا۔ بیٹھنے سے پہلے کیوں نہ کروں؟ چلیے آپ بتائیں کہ کتنے دیں گے۔ دس منات دوں گا، ایک نے قہقہہ لگایا اور دوسرے نے کہا کم سے کم چالیس منات۔

چھوڑو بھائی میں تم سے زیادہ آذری ہوں، کہتا ہوا ان کے نرغے سے نکلنے لگا ( اب اپنی کہی بات پر آذر بائیجانیوں سے معافی مانگتا ہوں کیونکہ ہم نے یہاں اس قوم کے پھل فروش ہی دیکھے ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمارے ہاں کے شیخوں کی طرح، زبانی کلامی آپس میں سودا کرکے بیچی جانے والی چیز کی قیمت بڑھا کر اللہ کی نگاہ میں صاف ہو کر قسم کھا کر گاہک سے کہتے ہیں کہ ہم نے یہ شئے دس میں لی ہے، چاہے اس کی ابتدائی قیمت خرید دو ہی کیوں نہ رہی ہو )۔ ڈرائیوروں کے ہوش ٹھکانے آئے، کیونکہ دنیا بھر میں ائیرپورٹ پر آزاد ٹیکسی ڈرائیور ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جس نے کم سے کم چالیس کہا تھا، میرے پیچھے بھاگ کر پوچھا آپ زیادہ سے زیادہ کتنے دیں گے۔میں نے کہا پندرہ یا بیس۔ مار کھا گیا نہ، ایک ہندسہ نہیں دو بول دیے، طے، چلیے بیس دیں، آئیں۔ میں نے ہنس کر کہا، پندرہ کیوں نہ دوں۔ بولا آپ نے زبان دی ہے، اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر نکل لیا۔

ٹیکسیاں ویسی ہی ہیں جیسے لندن میں مگر ان کا دروازہ عام کاروں کی مانند کھلتا ہے، لندن والیوں کا اُلٹا کھلتا ہے۔ لندن کی ٹیکسیوں میں آمنے سامنے نشستیں ہوتی ہیں، مگر یہاں دو نشستیں فراخ اور آرام دہ، جبکہ ڈرائیور کے علیحدہ کیبن کی پشت پر دو عارضی کھڑی کی جانے والی غیر آرام دہ نشستیں۔ ٹیکسی شہر میں داخل ہونے لگی تو ڈرائیور نے خودکار ٹول پر کارڈ نکالتے ہوئے مجھے مخاطب کرکے کہا، ” دیکھیں تین منات تو یہاں ہی دینے پڑ رہے ہیں۔ ہم لوگوں نے بھی کنبے کو کھلانا ہوتا ہے، آپ مجھے پانچ منات مزید دے دینا۔ میں نے اسے بتایا کہ بھائی میں بھی پنشن خوار ہوں کوئی سیٹھ نہیں۔ چپ کر کے گاڑی چلاؤ۔ جو کہا ہے وہی دوں گا۔

شہر کیا تھا جیسے دبئی، روشن، کھلا، انتہائی صاف ستھرا۔ سارے نیون رومن انگلش میں درج۔ ہوٹل پہنچ گیا۔ کاؤنٹر پر بیٹھے نوجوان نے بکنگ چیک کی اور مجھے الیکٹرانک کی دے دی۔ میں جب کمرے میں داخل ہوا تو مجھے لگا جیسے میں کسی اور کے رہائشی کمرے میں داخل ہو گیا ہوں۔ ایش ٹرے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی۔ کمبل چادریں بستر پر بکھرے ہوئے۔ فون کیا، کسی نے اٹھایا نہیں۔ لفٹ لے کر خود ریسیپشن پہنچا۔ شکوہ کیا تو دوسرا نوجوان میرے ساتھ گیا اور مجھے ایک بہت فراخ اور مجہز کمرہ دے کر ہیٹر چلا کر دروازہ بند کرکے چلا گیا۔

میں منہ ہاتھ دھو کر ایک بار پھر نیچے اُترا۔ جس نے میلا کمرہ دیا تھا، اس سے پوچھا کہ اس وقت کہاں گھوما جا سکتا ہے تو اس نے کہا کہ باہر والی شاہراہ پر گھوم لیجیے۔ میں نکل کھڑا ہوا اور پہلے ہی اشارے سے سڑک پار کرکے دوسری طرف کی چھوٹی سڑک پر ہو لیا کیونکہ مجھے اس طرف رونق دکھائی دے رہی تھی۔ تھوڑا سا آگے چلا تو کسی تعلیمی ادارے سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے انبوہ نکل کر کے آ رہے تھے۔ سبھی آپس میں روسی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ خاصی دور تک چلتا گیا۔ شہر مسحور کر رہا تھا۔ بہت پُر سکون، ہلکی مگر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں نے جیکٹ کا ہڈ سر پر ڈال لیا تھا۔ میں ایک پارک کے نزدیک آ گیا تھا، جس کے بیچوں بیچ لمبے حوض اور فوارے تھے، مگر نہ فوارے چل رہے تھے، نہ حوضوں میں پانی تھا۔ روشیں روشن تھیں۔ نوجوان لوگ گھوم رہے تھے۔ پارک گھوم کر لوٹنے کا سوچا۔

لوٹ رہا تھا تو میں نے ایک پرانی عمارت کے تہہ خانے پر لکھا دیکھا ” کیفے”۔۔ کھانوں کی تصویریں بھی بنی تھیں۔ سوچا یہاں روایتی کھانا ہوگا۔

نیچے اُترا تو سگریٹوں کا دھواں تھا۔ میں لوٹنے لگا تو پہلی عورت نے اپنی زبان میں شور مچا دیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ میری جانب بڑھ رہی تھی۔ میں نے کہا سگریٹ کا دھواں ہے۔ اس نے مضبوطی سے میرا بازو پکڑ لیا اور کہا ” نو ۔۔۔ کابن” اور مجھے کھینچتی ہوئی ایک کیبن کا دروازہ کھول کے کہا بیٹھو۔ روسی کا ایک لفظ نہیں بولتی تھی۔ اپنی زبان میں بولے جا رہی تھی۔ میں نے منہ پر انگلی رکھ کے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور کہا ” مینیو”۔۔

اب مینو بھی آزری زبان میں تھا۔ خیر ششلیک اور پیتی، کوزے میں چربی والے گوشت اور کابلی چنوں سے تنور میں بنایا گیا سوپ لانے کو کہا۔۔۔ دوسری نازنین بہت محبت اور خوش اخلاقی سے ایک کٹا ہوا ٹماٹر، آدھے کھیرے کے قتلے اور پلاسٹک کے چھاپے میں ٹشو، مقامی روٹی اور چمچ لا کے رکھ گئی اور پہلے والی کیفے کی مالکن پہلے پیتی لائی۔۔ پھر ششلیک یعنی بھیڑ کی پونے تین چانپیں لے آئی۔ گھر کا سا عام ذائقے کا کھانا تھا۔ پھر نازنین پوری چائے دانی فنجان اور توڑی ہوئی قند رکھ کے بولی ” نوش جان” ۔۔

ساتھ میں چاکلیٹ کے کٹے ہوئے ٹکڑے بھی تھے۔ مالکن شاید ڈر گئی تھی کہ کہیں پکڑ کے بٹھایا گاہک پیسے دیے بنا نہ بھاگ جائے چنانچہ کیلکیولیٹر لے کر آ گئی اور مجھے دکھایا، 13 منات۔ میں نے ادائیگی کی اور اٹھنے لگا تو اس نے پھر بازو پکڑ کے بٹھا دیا اور اپنی زبان میں بولی ساری چائے دانی پیو۔۔ اللہ معافی بھئی، خاتون اپنا کیفے چلانے کے چکر میں تھی اور وہ بھی زبردستی۔

واقعی خوش ہو کر ان دونوں خواتین کے ساتھ مسکراتے ہوئے سلفیاں بنا کے میں اسی مسکان کے ساتھ سات زینے چڑھ کر سڑک پر آیا اور ترنگ میں غالبا” کسی اور طرف ہو لیا۔ سوچتا بھی گیا کہ اس راستے سے تو نہیں آیا تھا مگر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ شکر ہے کہ مجھے سڑک کا نام یاد تھا۔ کسی بھی شہر میں بسنے والوں کو اپنے شہر کے ہوٹلوں کے نام کہاں یاد ہوتے ہیں۔ ایک مرد سے عزیر حاجی بائیو سٹریٹ کا پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ ایک دو نوجوانوں سے پوچھا تو انہوں نے غیر ملکی جان کر مسکراتے ہوئے انگریزی میں نو ہی کہا۔ ایک معمر روسی جوڑا چہل قدمی کو نکلا ہوا تھا۔ خاتون نے استفسار پر انتہائی خوش اخلاقی کے ساتھ سمجھایا کہ آپ متوازی سڑک پر ہیں، دوسرے اشارے سے دائیں کو ہو لیں تو مطلوبہ سڑک پر پہنچ جائیں گے۔

سڑک پر لوگ کم ہو رہے تھے۔ ٹیکسیاں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ تھوڑا سا گھبرایا بھی مگر اتنا نہیں جتنا حج تمام کرنے کے بعد منٰی سے پیدل چلتے ہوئے ہوٹل پہنچنے کی مہم جوئی میں گم ہو کر گھبرایا تھا اور رات کے پچھلے پہر تک خوار بھی۔ بس ایک اور شخص سے پوچھا تو اس نے کہا ٹیکسی والے سے پوچھ لیں۔ پوچھا کہاں ہے ٹیکسی تو اس نے سڑک پر کھڑی ٹیکسی کی جانب اشارہ کیا۔ اس میں بیٹھا ڈرائیور فون پر بات کر رہا تھا۔ میری ایک ہی دستک پر اس نے اپنے ہم کلام سے معذرت کرکے کھڑکی نیچے کی۔ روسی زبان سے تقریباً  نابلد ہوتے ہوئے اس نے مجھے سمجھا دیا کہ دور نہیں بس آگے سے بائیں ہو لیں۔ کسی سے پوچھ لینا کیونکہ گنج علی پلازہ  ہوٹل سڑک سے ہٹ کر اندر کی جانب ہے۔ آگے مجھے وہ چھوٹا پارک دکھائی دیا جو ہوٹل سے بڑی سڑک پر نکلتے ہی تھوڑی دور تھا۔ ہوٹل پہنچ کر الیکٹرانک کنجی کارڈ لیا اور شلوار قمیض پہن کر بستر پر دراز ہو، فیس بک سے اٹھکھیلیاں شروع کر دیں۔

ماسکو اور یہاں کے وقت میں ایک گھنٹہ کا فرق تھا یعنی باکو میں ایک گھنٹہ زیادہ تھا۔ میں نے گھڑی پر وقت تبدیل نہیں کیا تھا کیونکہ موبائل پر خود بخود تبدیل ہو گیا تھا البتہ یہ کہ فون آن کرتے ہی مقامی اور ماسکو کا وقت دو گھنٹے کے فرق سے ظاہر ہوتا تھا جو غالبا” موسم گرما کا تھا۔

نئی جگہ پر پہلی شب خوابی میں نیند اکثر نہیں آتی۔ چنانچہ تین چار گھنٹے سونے کے بعد ہی اٹھ بیٹھا۔ فجر کی نماز پڑھی۔ موبائل پر پاکستانی اخبارات دیکھے۔  ناشتے کے لیے ریستوران تو آٹھ بجے سے دس بجے تک کھلنے سے متعلق بتایا تھا ریسیپشن والوں نے مگر مجھے بیڈ ٹی لینے کی بہت پرانی عادت ہے چنانچہ ساڑھے سات بجے فون کرکے چائے کی پیالی منگوا لی۔

آذربائیجان چائے پیدا کرنے والا ملک ہے۔ بہت عرصے بعد چائے میں چائے کی پتی کا حقیقی ذائقہ محسوس ہوا۔ نہا دھو کر شلوار قمیص میں ہی، قریب نو بجے ناشتہ کرنے ریستوران میں گیا۔ کئی طرح کے پنیر، گوشت کے انواع و اقسام کے سرد پارچے، کٹے ہوئے تازہ کھیرے اور ٹماٹر، بھنے آلو کے قتلے، دودھ سے تیار کردہ مختلف چیزیں اور دلیہ ناشتے میں تھے، ساتھ میں ڈبل روٹی کے ٹکڑے، چائے اور کافی کے علاوہ دو تین طرح کے جوس بھی۔ جانور کی باقیات کو تو میں ناشتے میں چھوتا تک نہیں ہوں چنانچہ ڈبل روٹی کے ٹکڑوں، پنیر کی دو اقسام اور کٹے ہوئے کھیرے ٹماٹر نوش جان کرکے چائے پی اور پھر سے کمرے میں چلا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے رات کو ہی واٹس ایپ پر دبئی میں سونی کے اہلکار محمد ولید کو پیغام دے دیا تھا کہ وہ پہنچیں تو مجھے اسی میڈیم پر مطلع کریں۔ کمرے میں بیٹھا بیٹھا اُکتا گیا چنانچہ پتلون کوٹ پہن کر نیچے اترا اور پوچھا ماریوت ( میریٹ ) کہاں ہے۔ ولید اور سونی کے جاپانی ڈائریکٹر کا قیام اسی ہوٹل میں طے تھا۔ ریسیپشن پر بیٹھی خوش اخلاق اور خوش گل خاتون نے بتایا کہ بالکل نزدیک ہے، دروازے سے نکلتے ہی بائیں کو ہو لیں اور عمارت کے آخر میں پھر بائیں کو مڑ جائیں۔ آپ کو دکھائی دے جائے گا۔ ارے میں تو چار منٹ میں میریٹ کے عقبی دروازے سے داخل ہو چکا تھا، خیر پورا لاؤنج عبور کرکے ریسیپشن پر پہنچا جہاں “حسین” کی نیم پلیٹ والے ایک وجیہہ نوجوان ریسیپشنسٹ سے ولید کا پوچھا۔ اس نے کمپیوٹر سے تصدیق کرکے بتایا کہ ان کی بکنگ تو ہمارے ہاں ہی ہے مگر ابھی پہنچے نہیں۔
میں انتظار کرنے کی خاطر لاؤنج میں ہی بیٹھ گیا۔ پھر کچھ سوچ کر حسین سے وائی فائی کا پوچھا تو اس نے کہا فون مجھے دیجیے۔ فون دیا تو اس نے وائی فائی آن کر دیا۔ میں نے ولید کو میسج دیا کہ میں میریٹ کے لاؤنج میں ریسیپشن کے سامنے بیٹھ کر آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ کوئی پونے بارہ بجے ولید کا میسج ملا کہ وہ ابھی طیارے سے باہر آئے ہیں اور کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔ پھر بھی آدھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔ میری نگاہیں شیشے کے پار باہر ہی کی جانب تھیں۔ ایک ٹیکسی سے ایک جاپانی اترا اور سوٹ کیس لے کر دروازے کی جانب چل پڑا۔ دوسرا شخص ٹیکسی کو ادائیگی کرکے جاپانی کے ساتھ آ ملا۔ میں بھی اٹھ کر انہیں ملنے کے لیے آگے بڑھا۔ ولید سے ہاتھ ملا کر کہا، میں تو سمجھا تھا کوئی ادھیڑ عمر ہوگا، تم تو جوان نکلے۔ وہ بس مسکرایا اور جاپانی نے اپنا نام لے کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور دونوں ریسیپشن کی جانب چل پڑے۔
جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply