شعور کا سفر رُکتا نہیں۔۔محمد اسد شاہ

پارلیمنٹ نے آرمڈ فورسز کے سربراہان کی تقرری ، دوبارہ تقرری اور پھر مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ایک ترمیمی بل تقریباً متفقہ طور پر منظور کر لیا – اس معاملے میں تمام بڑی سیاسی جماعتیں اچانک جس طرح شیر و شکر ہوئیں ، اس پر تجزیہ کاروں کے ساتھ ساتھ عوام بھی ہکا بکا رہ گئے – بہت سے سوالات ذہنوں میں ہیں جن کا جواب بظاہر کوئی نہیں دے گا – لیکن ، ان شاء اللّٰہ ، وقت کے ساتھ بہت سے پردے ضرور ہٹتے جائیں گے – ترمیمی بل خان صاحب کی حکومت نے پیش کیا ، جو خود آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے شدید مخالف رہے ہیں – جب وزیراعظم سید یوسف رضا شاہ نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو مدت ملازمت میں توسیع دی تو خان صاحب نے بہت سخت الفاظ میں احتجاج کیا – لیکن اقتدار میں آنے کے بعد خود خان صاحب نے جنرل باجوہ صاحب کی ملازمت میں توسیع کا خط ان کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ پہلے اگست 2019 میں ہی جاری فرما دیا – ان کے خیالات میں یہ تبدیلی کس وجہ سے آئی ، یقیناً وہ بتانا پسند نہیں کریں گے – ویسے بھی وہ اپنے خیالات میں کس کس تبدیلی کی وجہ بتائیں؟

بلاول زرداری نے خان صاحب کو سلیکٹڈ کا لقب دیا تھا اور ابھی چند ہی دن پہلے انھوں نے وفاقی حکومت توڑنے کے لیے ایم کیو ایم کو سندھ میں وزارتوں کی پیش کش بھی کی – لیکن حالیہ ترمیم پر وہ بھی حکومت کے ساتھ کھڑے ہو گئے –
سب سے بڑا اور غیر متوقع قدم مسلم لیگ (نواز) نے اٹھایا – محمد نواز شریف کو تین بار وزیراعظم منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے – انھوں نے کبھی کسی جنرل کو مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی – اس حوالے سے ان کی جماعت کا ایک خاص مؤقف ہے – جس کے جواز میں وہ بہت مضبوط دلائل بھی پیش کرتے رہے ہیں – لیکن جب اچانک مسلم لیگ (نواز) نے حالیہ ترمیمی بل کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا تو سب ششدر رہ گئے – مخالفین تو تنقید کریں گے ہی ، خود مسلم لیگی ووٹرز اور سپورٹرز بھی اپنی جماعت کے خلاف کھڑے ہو گئے – اس دن سے اب تک سوشل میڈیا ن لیگی ورکرز اور سپورٹرز کے تبصروں سے گونج رہا ہے – جس طرح انھوں نے اپنی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ، یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا اور خوش گوار رجحان ہے – کاش دوسری جماعتوں کے حامی بھی اس معاملے میں ن لیگیوں کی پیروی کرنے کے قابل ہو سکیں- ورنہ لوگ تو اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات یا جماعتوں کے سحر میں یوں مبتلا ہیں کہ اپنی رائے سے ہی محروم ہو چکے – ان شخصیات کی ہر اچھائی اور ہر برائی کا دفاع کرتے ہیں اور اس پر شرم بھی محسوس نہیں کرتے – لیڈر نے قرض کو گالی قرار دیا تو آپ بھی گالیاں بکنے لگے – اسی لیڈر نے عوام پر قرضوں کا نیا پہاڑ لاد دیا تو آپ قرض کے فوائد بتانے لگے – لیڈر کسی کو سب سے بڑا ڈاکو بتائے تو آپ بھی اسے ڈاکو کہیں – لیڈر پھر اسی شخص کو پنجاب کا اہم ترین منصب عطا کر دے تو آپ تعریفیں کرنے لگیں –
ذہنی غلاموں کے اس خوف ناک جنگل میں ن لیگی سپورٹرز نے یہ منوا لیا کہ ضمیر اور رائے کی آزادی کے باب میں وہ بہت سوں سے بہتر ہیں –
دوسری جانب ن لیگی قائدین اپنے کارکنوں اور میڈیا کے سوالوں کے جواب نہیں دے پا رہے – ان کی بے بسی اور کوتاہ بینی قابل رحم ہے – وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ قدم اداروں کی بالادستی کے لیے اٹھایا – جب کہ ہم اب تک یہ سمجھتے رہے کہ ان کی جدوجہد عوامی بالادستی کے لیے ہے – پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ قومی معاملہ تھا – حضور ! ذرا وضاحت فرما دیجیے کہ کیسے؟ خود تو آپ نے کبھی کسی جنرل کو ایکسٹینشن دی نہیں – کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے آپ اپنے تینوں ادوار میں قومی مفاد کے خلاف کام کرتے رہے؟
لیگی ایم این اے محترمہ شائستہ پرویز صاحبہ نے ایک نیوز چینل پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی جماعت نے یہ قانون سازی سپریم کورٹ کے کہنے پر کی – کیا شان دار دلیل ہے ! میں اس کالم کے ذریعے محترمہ شائستہ سے چند باتیں پوچھنا چاہوں گا –
کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو “حکم” دے سکتی ہے ؟ کیا سپریم کورٹ نے یہ کہا تھا کہ قانون سازی کے ذریعے ایکسٹینشن کی لازماً حمایت ہی کی جائے؟ کوئی اور آپشن نہیں تھا؟ کیا سپریم کورٹ نے جو ہدایت دی وہ حکومت کے لیے تھی ، یا ن لیگ کے لیے؟ جن ارکان نے ترمیمی بل کی مخالفت میں ووٹ دیا ، آپ کے خیال میں کیا وہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی کے مرتکب ہوئے یا انھوں نے قومی مفاد کے برعکس کام کیا ؟ کیا آپ انھیں غدار کہیں گے یا توہین عدالت کے مجرم؟
گزارش یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں پیش کردہ کسی بل کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ دینا ارکان یا ان کی جماعتوں کا آزادانہ حق ہے – اس حق کو قومی مفاد یا عدالتی حکم کے ساتھ زبردستی نتھی مت کیجیے – ورنہ ووٹ کی عزت یا عوامی بالادستی کا نظریہ کہاں رہ جائے گا ؟
جب تک میاں محمد نواز شریف نے عوامی بالادستی کا علم اٹھائے رکھا ، ان کی مقبولیت میں دنیا کی کوئی طاقت کمی نہ کر سکی – خلق خدا کے راج کے منتظر ہم جیسے کالم نویسوں نے اپنے قلم اور زبان سے ان کے موقف کا ساتھ نبھایا – اور اس پر ہمارا ضمیر مطمئن ، بلکہ شاداں و فرحاں ہے –

تازہ حقیقت لیکن یہ ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ “ہاتھ” ہو چکا – وہ کسی ناقابل بیان مجبوری کے تحت عوامی بالادستی کے نظریئے سے محروم ہوئے ، یا غالباً کر دیئے گئے –
لیکن یہ نظریہ اپنی مقبولیت سے محروم نہیں ہوا – آج نہیں تو کل ، اس نظریئے کا علم کوئی اور اٹھا لے گا – اللّٰہ کی اس کائنات میں شعور کا سفر روکا نہیں جا سکتا –

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply