لوکل ٹرانسپورٹ میں عاشقوں کی مہمات/رضوان ظفر گورمانی

اک عرصے بعد لوکل ویگن میں بیٹھا ہوں ان سالوں میں ہم بدل گئے روڈ بدل گئے کرایے بدل گئے نہیں بدلا تو لوکل ٹرانسپورٹ کا اندرونی ماحول۔ کوئی زمانہ تھا جب ہم نوے کی دہائی میں بڑے ہو رہے تھے تب پی ٹی وی کے علاوہ ہمارا وقت گزارنے کا سہارہ ڈائجسٹ ہوا کرتے تھے۔ عابد شاپر فروش کی دکان سے لیے گئے اور کبھی کبھار چرائے گئے پرانے ڈائجسٹوں میں شکاری کہانیاں اک تفتیشی تھانیدار اور اک وکیل کے کیس والے سلسلے کے علاوہ “سراب” کے عنوان سے سلسلہ وار مہماتی کہانیاں پڑھ پڑھ کر ہمارے اندر سیر و سیاحت کے شوق نے جنم لیا، اسی ڈائجسٹ کی بقیہ کہانیاں پڑھ کر ہمارے اندر عشق و عاشقی کا جذبہ بھی پروان چڑھنے لگا۔

البتہ مصیبت یہ تھی کہ پربتوں کی سیاحت تو درکنار والدین ہمیں گھر سے اکیلا ہٹی پر “شئے” لینے بھی نہیں جانے دیتے تھے۔ اور عشق کا معاملہ یوں پایہء تکمیل کو نہ پہنچتا کہ گرد و پیش کی جتنی حسیناؤں کو ہم عاشق کی نظر سے تاڑتے وہ ہمیں بچہ سمجھ کر گال پہ چٹکی کاٹ جایا کرتی تھیں، اور ہم انکے ہاتھوں کے لمس کی حدت کو ہفتوں ہفتوں اپنے گالوں پر محسوس کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتے رہتے تھے۔

ان دنوں سنانواں کوٹ ادو روڈ پر گول باڈی والی کچھ غریب نواز بسیں چلتی تھیں، انکا کرایہ نیو خان کی بسوں سے پانچ سات روپے کم ہوتا تھا اس لیے غریب غربا اپنی بھیڑ بکریوں سمیت انہی بسوں میں سفر کرتے تھے۔ ہم ان دنوں اپنے ماسٹر چچا کے ساتھ گاؤں سے سکول آتے جاتے تھے لیکن جب ہماری رگ سیاحت تڑپتی تو ہم بھی کبھی کبھار سکول سے فرار ہو کر ان بسوں پر چڑھ جاتے پھر چند کلومیٹر آگے جا کر اتر جاتے اور پھر واپسی کسی اونٹ ریڑھے والے سے لفٹ لے کر گھر پہنچتے تھے، یہی ہماری سیاحت ہوا کرتی اور یہی کچھ ہمارا ایڈونچر تھا۔

بس میں اِکا دُکا سکول کی وردی میں ملبوس اور کچھ رنگ برنگی لڑکیاں بھی نظر آ جاتی تھیں، ہمارے جو کلاس فیلو روز سفر کرتے وہ قدرے نڈر ہو کر ان لڑکیوں کے قریب جا کھڑے ہوتے اور جان بوجھ کر ان سے لگ کر کھڑے ہوتے، جونہی ڈرائیور ذرا سی بریک لگاتا ہمارے یہ حرامی دوست لڑکی کے ساتھ تقریباً چمٹ ہی جاتے، ہمارے اندر البتہ اتنی ہمت نہیں تھی ہم بس یہ منظر دیکھ کر بس کے ڈنڈے سے لپٹ جایا کرتے تھے۔

سفر تو ہمارا اس عرصے میں کبھی طویل نہیں ہوا البتہ چھوٹی موٹی مسافرتوں کے ثبوت ہم نے بسوں کی سیٹوں پر بہت چھوڑے ہیں۔ آج بھی اگر آپ کو اس روڈ پر چلتی کسی کھٹارا بس کی سیٹ کے پیچھے “رضوان ظفر گورمانی” لکھا ہوا اور ساتھ “زخمی دل” بنا ہوا نظر آئے تو ہمیں یاد کیجئے گا۔

عاشقی کی بات کریں تو گاؤں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے باہمی اختلاط کا موقع سال میں صرف ایک مرتبہ ہی آتا تھا اور وہ تھا “شب برات”۔ اس رات ہم قریبی گراؤنڈ میں اکٹھے ہو کر ٹائر جلاتے، نقلی پستول سے فائرنگ کرکے ایک دوسرے کو ہلاک کرتے، سیبے والے بم، چوہے بم اور رنگ بکھیرنے والے انار پھوڑتے تھے۔ دور گاؤں اپنے رشتہ داروں کو ‘خیرات’ دینے جاتے تھے۔ اگلے گاؤں میں ہماری اک رشتے کی خالہ تھیں لاولد تھیں بچوں سے پیار کرتی تھیں ان کے گھر تب ڈش انٹینا تھا ہم جب ان کے گھر جاتے تو اک آدھ انڈین گانا آدھی ادھوری فلم یا پھر انڈین اشتہارات سے من بہلا کر واپس آتے۔

ایسی ہی ایک رنگین رات شُرلیوں اور پھُل جھڑیوں کی چمک دمک میں ایک خوبصورت سی نشیلی آنکھوں والی لڑکی کے ساتھ میری آنکھیں چار ہوگئیں، اس بار عشق یکطرفہ نہیں تھا۔ رنگین رات کے رومان پرور موسم میں اس لڑکی کے دل میں بھی پیار کی پھُل جھڑیاں پھوٹ رہی تھیں اور ادھر میرے دل میں تو عشق کے بم بلاسٹ ہو رہے تھے۔ میں نے پھُل جھڑی لینے کے بہانے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور فرط جزبات میں اسکے ہاتھ سے بھی پھلجھڑی گر گئی۔ رات کے اندھیرے اور دوسرے لڑکوں کی مصروفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اسے قریبی بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں لے گیا۔

لڑکی عمر میں مجھ سے کچھ بڑی تھی اور شاید “تجربے” میں بھی۔ فلمی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اظہار محبت میں پہل کرنا چاہی تو محسوس ہوا زبان سوکھ کر کانٹا ہو چکی ہے، زبان سے بس اتنا ہی نکل سکا “اڑی تیڈا ناں کیا ہے؟” اس نے اپنا نام بتایا تو سلسلہ کلام آگے بڑھا، تھوڑی ہی دیر میں ہم آپس میں جنم جنم ساتھ نبھانے کے وعدے بھی کر چکے تھے۔ میں نے اپنے طور پر بہت سے فلمی ڈائلاگ بھی بولے جن میں سے ایک یہ تھا “میں ہمیشہ تم سے پاکیزہ محبت کروں گا اور تمھاری عزت کبھی پامال نہیں کرونگا” (اگرچہ عزت پامال کرنے کے لیے مطلوبہ قابلیت ابھی میرے جسم میں پیدا ہی نہیں ہوئی تھی)۔

خیر! ہم نے اگلی صبح قریبی کھیت میں ملنے کا وعدہ کیا۔ اس نے نشانی کے طور پر مجھے اپنی ایک چوڑی اتار کر دی۔ میرے پاس نشانی دینے کے لیے کچھ نہیں تھا سوائے ایک ہیوٹ والی ٹافی کے، سو میں نے ٹافی اسکی طرف بڑھائی، کم بخت لڑکی نے چند منٹ بھی میری محبت کی نشانی سنبھال کر نہ رکھی اور اگلے ہی لمحے اسکے منہ سے ٹافی کی خوشبو آنے لگی۔ شبِ برات کا شغل ختم ہوا تو ہم نے ایک دوسرے کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ اپنے اپنے گھر روانہ کر دیا۔

اگلی صبح میں میت والی خوشبو لگا کر حسبِ وعدہ کھیتوں میں جا موجود ہوا، تمام دن قیامت کا انتظار کیا لیکن وہ نہیں آئی، ایک راز دار لڑکے کے ساتھ مل کر ساتھ والے محلے سے پتہ کروایا تو معلوم ہوا وہ تو گاؤں کی تھی ہی نہیں بلکہ ایک دو دن کے لئے اپنی خالہ کے گھر آئی ہوئی تھی اور آج صبح ہی واپس کوٹ ادو فلاں محلے میں واپس چلی گئی ہے۔ دن دہاڑے اتنا بڑا دھوکہ کھا کر دھچکا لگا۔ لیکن پھر ہم بھی اسے بھول کر کسی اور عشق میں ناکام ہونے کی جستجو میں لگ گئے۔

کچھ عرصہ بعد ہمارے میٹر ریڈر چچا جعفر فیملی سمیت کوٹ ادو شہر شفٹ ہو گئے اور ہماری قسمت یوں جاگی جسے عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ

اب نگاہوں سے بچ کر کہاں جائیں گے

اب تو ان کے محلے میں گھر لے لیا

چچا جعفر ان کے ہمسائے تھے ہم چند دنوں میں اپنے ان کزنوں جن سے کتوں کی طرح لڑتے تھے کی یاد میں مرجھائے مرجھائے پھرنے لگے تو ہمیں چچا کے گھر جانے کی اجازت مل گئی۔

ہم دو دن وہاں رہے اور ان دو دنوں میں ہر شام مغرب لے بعد اس وقت شہر کے مضافاتی نیم گاؤں نیم شہر محلے کے ساتھ ملحقہ کھیتوں کے واحد ٹیوب ویل اور اس نالے میں پانچ دس منٹ کے لیے ساتھ ساتھ لیٹ کر جینے مرنے کی قسمیں کھاتے رہے۔ ہم نے اک بار ہمت کرکے ان کی اجازت کے بعد ان کے ہاتھوں پہ بوسہ بھی دیا۔ ان ملاقاتوں کے دوران وہیں امرود کے درخت سے توڑا ہواان کا ادھ کھایا امرود بطور تبرک سنبھال کر اک عرصہ چھپائے رکھا۔ دو دن پلک جھپکتے گزرے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ اس کے بعد ہمیں جب بھی کوئی قابل ذکر چیز کھانے کو ملتی ہم آدھی کھا کر ان کے حصے کا آدھا حصہ آنکھیں بند کرکے زور لگا کر شمال کی طرف پھینک دیتے۔ ہمیں اپنے عشق کے کامل ہونے کا اتنا یقین تھا کہ معلوم تھا ٹانگری کا ٹکڑا پتاسا اور نائس بسکٹ کے آدھے پیکٹ ان تک ضرور پہنچتے ہوں گے۔

رخش عمر لڑکپن سے جوانی کی طرف سر پٹ دوڑتا رہا اس دوران وہ لڑکی پھر کبھی نظر نہ آئی اور ہم بھی اس نشیلی آنکھوں والی کو بالکل بھول چکے تھے۔ پھر کہیں سالوں بعد اس محلے کے ایک لڑکے سمیع کے ساتھ ہماری جان پہچان ہوئی تو ہمیں لڑکپن کے بےشمار داغوں میں سے ایک داغ یاد آ گیا، ہم نے ساری کہانی لڑکے کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ اور پھر اپنی بھولی بسری محبوبہ کا احوال جاننے کے لیے دل تھام لیا۔

لڑکے نے ایک مرتبہ میری طرف دیکھا اور پھر اسکے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا، یوں لگا وہ دیر تک ہنسی کو کنٹرول کیے بیٹھا تھا۔ میری بےچینی میں اضافہ ہوا تو اس نے سانس لیتے ہوئے بتایا کہ بھئی وہ محترمہ تو عرصہ پہلے ایک لڑکے کے ساتھ اسی بور کی حوضی میں جہاں ہم نے جنم جنم ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائی تھیں ع غ حالت میں پکڑی گئی تھی پھر والدین نے جلدی جلدی اسکی شادی کر دی اور اب تو اسکی ایک سال کی بیٹی بھی ہے۔

سنانے والا سنا کر چلا گیا، اور سننے والا عشقِ مجازی سے بددل ہو کر عشقِ حقیقی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے لگا۔ اب بھی کبھی کبھار اس سفید سنگ مر مر سے تراشی گڑیا کے ساتھ دو تین اور لمحاتی محبوبائیں یاد آتی ہیں اور سوچتا ہوں کہ کیا میں ان کو یاد بھی ہوں گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

گو محبت کی اس سچی داستان کا مرکزی خیال فاران کی آب بیتی کے خمیر سے اٹھایا گیا ہے مگر تمام تر واقعات حقیقی اور میرے ساتھ بیت چکے ہیں۔

Facebook Comments

رضوان گورمانی
رضوان ظفر گورمانی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں روزنامہ خبریں سے بطور نامہ نگار منسلک ہیں روزنامہ جہان پاکستان میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply