وہ باتیں تری وہ فسانے ترے/صنوبرناظر

(اگر منٹو اور موپاساں ملتے تو کیا گفتگو کرتے )

آج صبح سے طوفانی بارش نے پیرس کی تمام شاہراہوں کو جل تھل ایک کیا ہوا ہے۔ ایفل ٹاور کی دوسری منزل کے ایک ریسٹورینٹ کے ایک پرسکون گوشے میں انیسویں صدی کے نمائندہ ادیب گائے دی موپاساں کتھئی ویسٹ کوٹ پہنے، سگار کے کش لگا رہے ہیں۔ اسی میز کے دوسری جانب بیسویں صدی کے نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سفید کرتا پاجامہ میں ملبوس، ہاتھ میں وہسکی کے گلاس کے سپ لے رہے ہیں۔ میز پر کئی کتابیں بکھری ہو ئی ہیں۔ دونوں بات چیت میں منہمک ہیں۔

منٹو: میسیور کیا یہ آپ کی پسندیدہ جگہ ہے؟ منٹو نے اپنے چاروں اطراف ایک طائرانہ سی نظر ڈالی۔

موپاساں: برا سا منہ بناتے ہوئے۔ اونہہ قطعی نہیں! ہاں کم از کم یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں سے مجھے تعمیر کے اس بد زوق نمونے کو نہیں دیکھنا پڑتا جسے دنیا ایفل ٹاور کے نام سے جانتی ہے۔

منٹو نے ہنسی کو ضبط کرتے ہوئے سوال کیا: جناب اس پر روشنی ڈالئے کہ آپ نے ادب میں کسی اور صنف کے بجائے حقیقت نگاری کو ہی کیوں منتخب کیا؟

موپاساں: ہمممم! مجھے لکھاری بننے کی ترغیب گسٹاوو فلابیغ نے دی جو خود ایک حقیقت اور فطرت نگار تھے۔ ورنہ شاید میں کلرک ہی رہتا۔ تلخ حقائق کو ابہام کے پردے میں چھپانے سے بہتر ہے کہ واضح اور صاف لفظوں میں بیان کیا جائے۔ دوسری وجہ مجھے زندگی کی سچائیوں کو گھما پھرا کر مبہم انداز میں کرنا کبھی پسند نہیں رہا سو جو محسوس کیا بنا ملمع کاری کے لکھ دیا۔

منٹو تم نے بھی تو اپنی افسانوں میں میری طرح سماج اور نام نہاد انسانیت پر بڑے کاری وار کئے ہیں۔

منٹو نے اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے فرمایا: جی حضور میں نے آپ کے کئی افسانوں کا ترجمہ کیا اور آپ کے انداز تحریر نے مجھے سماج پر لپٹے بوسیدہ اور بدبودار لبادے کو اتارنے کا حوصلہ دیا۔ لیکن کیا یہ درست نہیں کہ آپ نے زیادہ تر تحریروں میں انسانی دکھ اور بے بسی کو فطرت کی ستم کاریوں کے کٹہرے میں ڈال کر طبقاتی تضادات اور سماجی نا انصافیوں کو اجاگر کرنے سے پرہیز کیا؟

موپاساں: دھیما سا قہقہ لگاتے ہوئے، ہاں کہہ سکتے ہو

کہ میرے اسلوب اور قلم میں سبک روی ہے لیکن یہ مکمل سچائی بھی نہیں۔ کیا تم نے ” خوشی، زنگ، معذرت، ایک بوڑھا آدمی، بزدل، شیطان، قبر، بہار میں، ایک پاگل شخص کی ڈائری، بدنصیب روٹی اور رسی کا ٹکڑا وغیرہ پڑھی نہیں؟ میرے اس انداز تحریر کے کچھ اور بھی عوامل ہیں مثلا میرا بچپن اور جوانی اپنی آزاد منش اور ادب کی دلداہ ماں کے زیر اثر بڑا خوشگوار اور متمول گزرا ہے۔ ہمارے سیاسی، معاشرتی اور سماجی حالات ہماری کہانیوں پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ میرے بیشتر افسانوں کی عورت بھی تمھاری کہانیوں کی عورت سے مختلف ہے کہ وہ آزاد ہے اور اپنی مرضی سے مرد کے ساتھ جسمانی روابط قائم کرنے اور ختم کرنے میں آزاد نظر آتی ہے۔ سگنل، کیا یہ ایک خواب تھا، جیولز، جیسی کئی مثالیں ہیں۔

دراصل کلاس کا فرق میں اس طرح اپنی کہانیوں میں نہیں سمو پایا جیسے تم نے باآسانی کاغذ پر منتقل کر دکھایا ہے۔

غالبا تم نے میری نسبت زندگی کی تلخیوں کو بذات خود برتا ہے اسی لئے تم انسان کی بے کسی پر ماتم کرنے کے بجائے سماج کے مروجہ قوانین پر بے رحمانہ طنز و تنقید کے نشتر چبھوتے نظر آتے ہو۔

خیر۔۔ تمھاری کہانیوں کا مرکز برصغیر کی تقسیم، جنس اور عورت ہی کیوں رہے؟

منٹو: جلدی سے بچی ہوئی وہسکی کو حلق میں انڈیلتے ہوئے، میں نے سوچ کر نہیں لکھا، دیکھ کر جو محسوس کیا کاغذ پر لکھتا گیا۔ صرف پہلا جملہ میرا ہوتا ہے باقی افسانہ وہ جملہ خود لکھتا چلا جاتا ہے۔ تقسیم کا دکھ بالکل ویسا ہی ہے کہ ایک بدن کے دو ٹکڑے کر دئے جائیں۔ یہ وہی سمجھ سکتا ہے جس نے سہا ہو۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ، پھندے، سڑک کے کنارے، خدا کی قسم، سیاہ حاشیے، آخری سیلوٹ، ٹیٹوال کا کتا، یزید، سہائے، موذیل، انجام بخیر، موتری، مائی نانکی اور نہ جانے کتنی کہانیاں تقیسم سے پہلے، تقسیم کے دوران اور بعد کی ہیں جنھیں میری آنکھوں نے اپنے آس پاس منڈلاتے دیکھا۔

اگر جنس کے بنا معاشرہ نامکمل ہے تو ادب کس طرح مکمل ہو سکتا ہے؟ عورت مرد کا جنسی تعلق ازلی و ابدی ہے۔ ہمارے سماج میں جنسی ناآسودگی عیاں ہے لیکن اسے کچرے کی طرح قالین کے نیچے برسوں سے دبایا جارہا ہے۔ اسلئے میں قاری کو قالین کے نیچے جھانکنے کی ترغیب دیتا ہوں۔ ہاں جنس نگاری میں فکری لطافت اور نفاست کا میں بے حد قائل رہا ہوں۔ چاہے وہ ہتک ہو یا کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت، بو، پانچ دن، دھواں، وہ لڑکی یا بلاوز۔۔ ہر کہانی ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی ہے جو سماج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا گریبان پکڑ کر اپنا حصہ طلب کرنا جانتی ہے۔ عورت کے ہر کہانی میں الگ روپ ہیں۔ کہیں وہ گھریلو ہے تو کہیں دنیا سے ہم قدم۔ اصل میں جس دور میں، میں یہ کہانیاں تخلیق کر رہا تھا وہ آزادی نسواں کا دور تھا۔ میں شعوری طور پر ایسی عورت کا گرویدہ ہوں جو جاندار ہو، جنسی طور پر بھی اور نفسیاتی لحاظ سے بھی۔

ایک چکی پیسنے والی جو دن بھر کام کرکے اطمینان سے سو جائے وہ میرے افسانوں کی ہیروئن ہرگز نہیں ہو سکتی۔ کوٹھے کی طوائف، اس کی جنسی بیماریاں، اسکی گالیاں مجھے بھاتی ہیں اسی لیئے طوائف میری کہانیوں کا مرکزی کردار رہی ہے۔ میرے سماج میں میں عورت معاشی، جنسی اور معاشرتی استحصال کا شکار ہے۔ ہتک، بسم اللہ، موذیل، شانتی، کھول دو، کی عورتیں پچھڑی ہوئی عورت کی ہی عکاسی کرتی ہیں۔

موپاساں: میں نے سنا ہے کہ پاکستان میں تمھارے کچھ افسانوں پر فحاشی کا الزام لگا اور مقدمے بھی چلے؟ موپاساں نے پلیٹ سے” فوا گرا” کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے سوال کیا۔

ہاہا۔۔ سچائی اگر فحاشی ہے تو پورا سماج ہی فحش ہے۔ اور یہ بات میسیور آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ ادب میں حقیقت نگاری کی ابتدا فرانس سے اور آپ اسکے بانیوں میں سے ہیں، کہ حقیت پسند ادب کپڑوں کے بنا ہی نظر آئے گا۔ کسی تعصب اور رومانیت سے آلودہ کئے بنا دیانتداری سے

کھول دو، ٹھنڈا گوشت، بو، کالی شلوار اور دھواں لکھنے پر مجھے فحش نگار کہا گیا مقدمے چلائے گئے۔ ہے نا تعجب کی بات۔ کوئی ان نام نہاد ٹھیکیداروں سے پوچھے کہ ایک حقیقت نگار بھلا سچائی کے اور کیا تخلیق کر سکتا ہے۔

واٹ نان سینس! موپاساں نے سگار کا دھواں اڑاتے ہوئے اسکاچ گلاس میں انڈیلنے لگا:

موپاساں: میسیور منٹو، اپنی کس کہانی کو تم اپنی بہترین تخلیق گردانتے ہو؟

منٹو: یہ وسکی کچھ زیادہ ہی مزیدار ہے۔ منٹو نے وسکی کا گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا، ماں بچے جنتے ہوئے سوچتی ہے کہ کونسا بچہ فرمانبردار شریف اور کون سا نالائق بدمعاش نکلے گا؟ اس لئے سوال ذرا بے تکا ہے۔ ویسے مجھے اپنے وہی افسانے بھائے جن پر مجھ پر الزمات عائد کیے گئے۔ لیکن میرے دل کے قریب ” کھول دو ” اور ٹوبہ ٹیک سنگھ ” ہے۔ لکھنے کے بعد عرصے تک ان کہانیوں کے ناخنوں نے میرے دل و دماغ کو خوب کھرونچا ہے۔

جناب آپ اپنی کون سی تحریر منتخب کریں گے جو آپ کے خیال میں ایک قاری کو ضرور پڑھنی چاہیے؟ منٹو نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے موپاساں کی طرف دیکھا۔

موپاساں: تم نے یہ فواگرا ٹرائی کیا؟ بہت لذید ڈش ہے یہ فرانس کی۔

میرا خیال ہے کہ قارئین کو دی نیکلس زیادہ بھایا لیکن میرے دل کے قریب Idylle ہے۔ تمھاری اردو زبان میں شاید طلب و رسد کے نام سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

اس تحریر پر عرصہ دراز تک پابندی عائد رہی کہ یہ تحریر جنسی بے راہ روی کا باعث ہے۔ پیٹ کی بھوک میں شہوت وہی محسوس کریں گے جنھیں کبھی بھوک سے بلبلانا نہیں پڑا۔ دودھ سے بھرے پستان کا درد وہی عورت سمجھ سکتی ہے جسے دودھ پلانے کے لئے بچہ میسر نہیں۔ یہاں شہوت نہیں مامتا کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔

دراصل تحریر ایسی ہو جس پر سوالات اٹھیں بس یہی ایک حقیقت نگار کی سعی ہوتی ہے کہ قاری میں سوچنے کا عمل شروع ہو۔

منٹو: لیکن ہم دو مختلف ادوار، خطوں اور تہذیبوں کے باسی رہے۔ ہمارے زمانے، ان کے مسائل اور زبان میں کوئی مماثلت نہیں تو آج ہم یہاں ساتھ کیوں بیٹھے ہیں؟” منٹو نے ریسٹورینٹ کی دیوار پر لگے قد آدم شیشے پر بارش کی بوندوں پر نظر جماتے ہوئے سوال کیا۔ بارش ابھی بھی برس رہی ہے لیکن کاروبار زندگی رواں دواں ہے۔

موپاساں نے منٹو کی جانب ایک گہری نظر ڈالی اور اپنی ٹائی درست کرتے ہوئے گویا ہوئے۔۔

ہم دونوں نے 42 سال کی مختصر زندگی پائی لیکن ہماری لکھی ہوئی مختصر کہانیوں نے ہمیں امر کردیا۔ تقسیم اور ہجرت کا خون آشام دور تمھاری آنکھوں کے سامنے رونما ہوا تو میں نے جرمنی فرانس کی جنگ میں انسانوں کو ایندھن بنتے دیکھا۔ ہم دونوں حقیت پسند تھے اسی لئے ادب کی صنف نیچرل ازم یا حقیقت نگاری کو اپنایا۔ ہماری کہانیاں اس طبقے کے احساسات و جذبات کو اجاگر کرتی ہیں جنھیں عموما سماج حقارت سے دیکھتا ہے چاہے وہ غریب ہو، لاچار ہو، یا طوائف ہو۔ چونکہ ہم حقیقت نگار ہیں اسی لئے ہماری کہانیاں بھاشن، ابہام، تمثیل نہیں بلکہ معاشرے کے المیوں کی برہنہ تصویر پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ کہ قارئین اس طبقے کے المیہ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

ہم دونوں نے اپنے تجربات و احساسات کو افسانے میں زیادہ موثر طریقے سے پیش کیا۔

ان تمام یکسانیت کے باوجود ہمارے طرز تحریر اور اسلوب بالکل مختلف رہے ہیں۔

منٹو: ہم دونوں پر فحش نگاری کے بھی الزامات لگے۔ ہم نے سماج کی گندگی کو دھو دھلا کر نہیں بلکہ من و عن قاری کے آگے رکھ دیا کہ جس طرح چاہو، جتنا چاہو صاف کر لو۔

اور کیا عجب اتفاق ہے کہ بول دا سوف کی الزبتھ اور ہتک کی سوگندھی ایک ہی عورت کے دو روپ ہیں۔ ایک موپاساں کے فرانس کی طوائف اور ایک منٹو کی ہندوستانی رنڈی۔

ہم۔ دونوں ضدی، صاف گو، ہٹ دھرم اور انا پرست بھی تو مشہور رہے ہیں۔ موپاساں نے منٹو کو یاد دلایا۔ بلانوشی کے علاوہ ایک حیرت انگیز مماثلت یہ بھی ہے کہ ہم دونوں کے نام م یا M سے شروع ہوتے ہیں۔

موپاساں اور منٹو نے ایک ساتھ زوردار قہقہہ لگایا تو آس پاس کی میزوں پر بیٹھے لوگوں نے پلٹ کر دونوں کو دیکھا۔ موپاساں اور منٹو نے فورا میز پر سے ایک ایک کتاب اٹھا کر ورق گردانی شروع کردی۔

میز پر چارلس ڈکنز، او ہنری، پریم چند، دستوفیسکی، ایمل ژولا، عصمت چغتائی، کرشن چندر اور دیگر حقیقت نگار ادیبوں کی کتابیں بکھری ہیں اور بارش کے قطرے ابھی بھی کھڑکی کے شیشوں پر آنسوؤں کی طرح بہے جارہے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

بشُکریہ: DW

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply