دہشت گردی کی نئی لہر ۔۔۔محمد عامر رانا

عام انتخابات سے قبل دہشت گردی کی لہر نے انتخابی سیاسی منظر نامے پر اثرات مرتب کیے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ھم 2013 کے انتخابی ماحول میں لو ٹ آئے ہیں ۔ تب تحریک طالبان پاکستان تشدد کے ذریعے سیاسی رجحانات کی تشکیل کر رہی تھی۔ اسے چیلنج کرنے والی سیاسی قوتیں اس وقت نشانے پر تھیں اور جو جماعتیں مذاکرات کاراگ آلاپ رہی تھیں وہ آزادانہ انتحابی مہم چلا رہی تھیں۔

حالیہ انتحابی منظر نامے پر کرپشن، ووٹ کی عزت اور دیگر روایتی سیاسی الزام تراشیوں کا غلغلہ تھا اور توجہ سیکورٹی اور شدت پسندی جیسے موضوعات سے ہٹی ہوئی تھی۔ ویسے تو معیشت اور معاشرت سے جڑے مسائل بھی بڑی جماعتوں کی انتحابی مہمات میں کم توجہ حاصل کر پاتے ہیں، لیکن سیکورٹی کا مسئلہ تو خود انتخابی مہم سے جڑا ہے۔ خوش گمانی کی وجہ سمجھ آتی ہے اور وہ یہ کہ شدت پسندوں کے حملوں میں نمایاں کمی ہے۔ لیکن یہ بات کئی مرتبہ کہی گئی ہے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ شدت پسند گروپ پسپا ضرور ہوۓ ہیں لیکن ان کے نیٹ ورک ابھی تک چیلنج بنے ہوۓ ہیں۔ صرف رواں سال میں شدت پسندی کے 155 واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن میں387 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ان حملوں میں سے 57 کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے، جبکہ 11 کی جماعت الاحرار اور3 کی ذمہ داری دولت اسلامیہ خراسان نے قبول کی۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان گروپوں کے اہداف اور آپریشنل ایریاز میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ مثلاً دولت اسلامیہ نے 2016 سے اب تک پاکستان میں 14 حملے کیے ہیں اور ان میں سے 3 حملے مستونگ میں ہوۓ۔ سراج رئیسانی کے انتحابی جلسے پر حملے سے پہلے یہ گروپ یہاں مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر بھی حملہ کر چکا ہے ، جس میں 88 افراد جاں بحق ہوۓتھے۔ کوئٹہ اس کا دوسرا بڑا ہدف رہا ہے جہاں اس نے 5 حملے کیے اور ان میں سے 4 میں مسیحی برادری کے اجتماعات اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا۔ دولت اسلامیہ بڑے حملوں کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گذشتہ برس کا سب سے بڑا حملہ جو سیہون شریف میں ہو تھا اسی گروپ نے کیا تھا۔

پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار ھارون بلور کی انتخابی میٹنگ پر حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے۔ اس نے پشاور میں یہ کاروائی 8 مہینے کے وقفے سے کی ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس گروپ میں اپنے آپ کو دوبارہ منظم کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور یہ پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی ایسا کر سکتا ہے۔

ان حملوں نے ملک میں عموماً اور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں انتخابی سر گرمیوں کو خاص طور پر متاثر کیا ہے۔ اگر دہشت گردی کی یہ لہر جاری رہتی ہے تو یہ ووٹنگ کے ٹرن آوٹ کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے حالیہ وارداتوں کی مذمت تو خوب کی ہے لیکن وہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیا لائحہ عمل رکھتی ہیں؟ اس پر بہت کم بات ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی اس مسئلے پر حساس ہے اور دیگر کو شائد نہیں لگتا کہ یہ میدان سیاسی جماعتوں کا ہے اور یہاں اپنے پر جلانے کا فائدہ نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہیں اس مسئلے کی شدت کا احساس نہیں اور وہ اسی عمومی رویے کا شکار ہیں کہ سب کچھ با ہر سے ہو رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی تبصرہ باز اس کے ثبوت میں ہر حملے کے بعد ایک سے زیادہ گروہوں کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے کو لاتے ہیں۔ حالانکہ شدت پسند گروہ عوام اور سیکورٹی اداروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ ہر حملے کے بعد کئی گروہ اس کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں جن میں ٹی ٹی پٖی، دولت ِ اسلامیہ ، جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی سرفہرست ہیں۔ ہر حملے کے بعد ان میں ذمہ داری قبول کرنے کی دوڑ لگ جاتی ہے ۔

اس صورت میں دعویٰ صرف اسی گروپ کا درست تسلیم کیا جا تا ہے جب وہ گروپ اس آپریشن کی تفصیلات وڈیوز اور تصاویر کی صورت میں جاری کرتا ہے ۔ بعض اوقات کچھ بڑے گروہ اپنی حکمت کے تحت ذمہ داری قبول نہیں کرتے اور چھوٹے گروپوں کو کہتے ہیں کہ وہ یہ ذمہ داری لے لیں ۔سیکورٹی ادارے بھی اسی کو مصدقہ مان لیتے ہیں اور اس کے بعد وہ ان چھوٹے گروہوں کے نام پر نام نہاد سیکورٹی الرٹ بھی جاری کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کے ان حملوں پر جب تحقیقات ہوتی ہیں تو وہ اپنے آغاز میں ہی غلط سمت چلی جاتی ہیں ۔

دہشت گردی سے متعلق الرٹ جاری کرنا انتہائی ذمہ داری کا کام ہے لیکن یہاں انسداد دہشت گردی کا ادارہ، نیکٹا جس طرح کسی ایک ہی انٹیلی جنس ادارے کی رپورٹ پر الرٹ جاری کر دیتا ہے اس سے قانون ناگزیر کرنے والے ادروں میں ان کا اعتبار ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ جب صیح بھی اطلاع آ جاۓ یہ ادارے اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔

شدت پسندی کے منظر نامے پر آنے والی تبدلیوں سے انتخابی ماحول متاثر ہوا ہے اور قانون نافذ کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے میں کردار ادا کریں۔ منصفانہ انتخابات کے لیے پر امن حالات ضروری ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply