ٹرانس جینڈر حقوق کا غیر اسلامی قانون/زاہد مغل

صد افسوس کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے ٹرانس جینڈر حقوق کے نام پر ایک ایسا غیر اسلامی، بیہودہ و غیر عقلی قانون پاس کیا ہے جس کی رو سے ہر مرد و عورت جس کے خیال میں وہ عورت یا مرد ہے، خود کو دوسری جنس میں رجسٹر کروا کے اپنی ہی جنس کے لوگوں کے ساتھ نکاح رچا سکتے ہیں اور ریاست اسے قانونی نکاح مانے گی۔ کیا اسلامی ریاست کی حکومت کو زیب دیتا ہے کہ وہ ہم جنس پرستوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایسے غیر اسلامی اقدامات کرے؟

مزید یہ کہ اس قانون کی رو سے ایک مرد و عورت جب ان کا دل چاہے خود کو مخالف جنس قرار دے کر وراثت میں زیادہ حصے کے دعوے دار بن جائیں، اور پھر بعد میں جب انہیں پرانی جنس کا احساس ہونے لگے تو پھر سے اسی کی طرف لوٹ جائیں۔ اس سے معاشرے میں فتنہ و فساد نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟

پھر یہ قانون ان افراد کے حقوق غصب کرنے اور انہیں بدنام کرنے کی سازش ہے جو واقعتاً  تیسری صنف سے تعلق رکھتے ہیں۔ عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک ایم این اے نے ایک مرتبہ اسمبلی میں یہ شکوہ کیا تھا کہ چونکہ پاکستانی قانون کے مطابق غیر مسلموں کو اپنی آبادیوں میں شراب کی خرید و فروخت کا حق حاصل ہے لہذا پاکستان میں لوگ عیسائیوں کے نام پر شراب کے کاروبار کے پرمٹ حاصل کرتے ہیں جبکہ ہمارے عیسائی مذہب میں بھی اسلام کی طرح شراب ممنوع ہے، لہذا عیسائیت کو بدنام کرنے والے اس قانون کو ختم کیا جائے۔ اس قانون کے بعد یہی کچھ ان افراد کے ساتھ ہونے والا ہے جو حقیقتاً  تیسری صنف سے ہیں کہ چنگے بھلے مرد و عورت ان کا استحصال کریں گے۔

کیا جنس کا تعلق جسمانی (biological) حقائق سے ہے یا یہ محض نفسیاتی کیفیت ہے؟

اگر کوئی جسمانی اعتبار سے مکمل مرد و عورت یہ خیال کرنے لگے کہ وہ عورت یا مرد ہے تو حکومت و معاشرے کو اس کے نفسیاتی عارضے کے علاج کی فکر کرنی  چاہیے، یا اس کے اس عارضے کی تسکین کے لئے قانونی پاس کردینا چاہیے؟ تاکہ لوگ اس کے پس ِپردہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو تہہ و تیغ کریں؟ کیونکہ حماقت کی کوئی حد نہیں لہذا ممکن ہے کل کلاں کو کوئی یہ بھی کہے کہ تعلیمی ادارے میں جو بچہ خود کو “اے گریڈر” (A grader) سمجھے تو استاد پر لازم ہے کہ اسے اے گریڈ دیں کہ ایسا نہ کرنے سے اس بچارے کی نفسیات پر بہت منفی اثر پڑتا ہے اور بعض تو خود کشی بھی کرلیتے ہیں۔

حکومتیں اس قسم کے قوانین بیرون ملک فنڈنگ پر چلنے والی این جی اووز کے بنائے گئے قانونی تجاویز و ترامیم  کے ڈرافٹس کی بنیاد پر کیا کرتی ہیں جنہیں اکثر پڑھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ پھر یہ این جی اووز بعض کرتا دھرتا حکومتی کارندوں کی وفا داریاں خریدتی ہیں تاکہ وہ اسمبلی میں ان کے مکروہ مفادات کے لئے لابنگ کریں۔ تیسری قسم کے عناصر چند ایسے بد بخت لوگ ہیں جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی مسلمان معاشروں میں فحاشی کا فروغ چاہتے ہیں۔

تمام حکومتی و حزب اختلاف کی پارٹیوں پر لازم ہے کہ فی الفور اس غیر اسلامی قانون کو کالعدم قرار دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply