فلسطین (14) ۔ دوسری جنگ/وہاراامباکر

مصر میں 1952 میں انقلاب آیا۔ جنرل محمد نجیب اور کرنل جمال عبدالناصر کی قیادت میں فوجی افسروں کی تحریک نے شاہ فاروق کو معزول کر دیا۔ بادشاہت ختم ہوئی، سوڈان کو آزادی ملی۔ برطانوی اثر ختم ہوا۔ عرب دنیا دو میں بٹ گئی اور عرب سرد جنگ کا آغاز ہوا جس میں ایک طرف مصر کی قیادت میں سیکولر پین عرب ازم کا نعرہ تھا جسے سوویت حمایت حاصل تھی جبکہ دوسری طرف سعودی عرب کی قیادت میں پین اسلام ازم کا نعرہ تھا جنہیں مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ 1952 سے 1979 تک یہ عرب دنیا کا بڑا تنازعہ رہا جس نے ان برسوں میں عرب دنیا کی سیاست کو شکل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تئیس جولائی کے انقلاب کے بعد مصر کی فوج نے حکومت سنبھالی۔ اس کی توجہ عسکری معاملات پر نہیں، بلکہ اقتصادی اور سماجی حالات سدھارنے پر رہی۔ مصر غریب ملک تھا۔ ملٹری کے لئے بجلی پہنچانے کے پروگرام، آبپاشی کے منصوبے ترجیح تھے۔ اسوان ڈیم کا پلان تھا۔ صنعتوں میں سرمایہ کاری، سکولوں اور کالجوں کا قیام، معیار تعلیم اور اعلیٰ تعلیم پر توجہ اور ریاست کی طرف سے معاشی منصوبہ بندی۔ مصر اس کے لئے ہر ممکن ذریعے سے بیرونی امداد لے رہا تھا اور سرد جنگ میں غیرجانبدار رہنے کی کوشش میں تھا۔
جمال عبدالناصر خاص طور پر اپنے طاقتور ہمسائے کو نہیں چھیڑنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی کوشش بن گوریان جیسے جارحانہ لیڈروں کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئیں۔ غزہ گنجان آباد علاقہ تھا اور مصر کے پاس تھا۔ یہاں کی آبادی کی صورتحال ایسی تھی کہ یہ عسکریت پسندی کے لئے آئیڈیل تھا۔ اور یہیں سے الفتح کے بڑے لیڈر اور بانی نکلے۔ یاسر عرفات، صالح خلف، خلیل الوزیر جیسے لیڈر۔ مصر کا مقصد انہیں کنٹرول کرنا تھا تا کہ اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائی نہ ہو لیکن یہ اسرائیل پر کبھی کبھار حملہ کر دیا کرتے تھے۔ مصری انٹیلی جنس اور ملٹری نے غزہ پر بڑی سخت نگرانی رکھی تھی۔ فدائی حملوں پر اسرائیلی جواب بہت جارحانہ ہوتا تھا۔
جب مغربی کنارے میں 1953 میں کئے گئے حملے میں دو بچوں سمیت پانچ اسرائیلیوں کو قتل کیا گیا تو ایرئل شیرون کی قیادت میں یونٹ 101 نے جوابی کارروائی میں پینتالیس گھر مسمار کر دئے اور 69 فلسطینیوں کو قتل کر دیا۔ اس کا نتیجہ اردن کی طرف سے نگرانی کو مزید کڑا کرنے کی صورت میں نکلا۔ اردن کی فوج کو اسرائیل میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے کسی بھی فلسطینی کو گولی مار دینے کا حکم دیا گیا۔
بن گوریان کا نکتہ نظر یہ تھا کہ اپنی شرائط اسی وقت قبول کروائی جا سکتی ہیں اگر زیادہ سے زیادہ تباہ کن فورس استعمال کی جائے۔ بن گوریان نے مصر پر بڑے حملے کی تجویز دی اور یہ کہ غزہ کا علاقہ مصر سے حاصل کر لیا جائے۔ اسے کابینہ سے منظوری نہیں ملی۔ جب بن گوریان دوبارہ اکتوبر 1956 میں وزیرِ اعظم بنے تو اپنی بات منوا لی۔ یہ موقع نہرِسویز پر تنازعے کی وجہ سے ملا تھا۔ اب دوسری عرب اسرائیل جنگ کا وقت تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل غزہ پر مصری آرمی اور پولیس پر حملے کرتا رہا تھا۔ فروری 1955 میں رفح میں 39 مصری فوجی مارے گئے۔ اس سے چھ ماہ بعد خان یونس میں 72۔ مصر کمزور تھا اور اب اس نے غیرجانبداری کی پالیسی ترک کر دی۔ مصر نے پہلے برطانیہ اور پھر امریکہ سے ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ناکامی پر کمیونسٹ بلاک کا رخ کیا۔ اور ستمبر 1955 میں چیکوسلواکیہ سے ہتھیاروں کی خریداری کی بڑی ڈیل کی۔ ساتھ ہی ساتھ، عرب حکومتوں کی مخالفت کے باوجود، اسرائیل پر حملے کرنے والے چھوٹے فلسطینی عسکریت پسندوں کی مدد بھی کرنا شروع کر دی۔ اور اس کے نتیجے میں اسرائیل نے اکتوبر 1956 میں سویز جنگ شروع کر دی۔ اور اس جنگ میں اسرائیل تنہا نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصر نے فرنچ برٹش سویز نہر کمپنی کو قومیا لیا تھا۔ ورلڈ بینک نے اسوان ڈیم کے لئے قرض دینے سے انکار کیا تھا اور یہ اقدام اس کے بدلے میں کیا گیا تھا۔ فرانس مصر کی طرف سے الجیریا کے باغیوں کی مدد سے بھی نالاں تھا جو قاہرہ کو اپنے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ مصر نے برطانوی فوج کی بہتر سالہ موجودگی ختم کرنے کا نوٹس بھی دے دیا تھا۔
یہ پس منظر تھا جس نے یہ جنگ چھیڑی اور اس میں پرانے اتحاد ٹوٹ کر نئے اتحاد بنے۔ یہ واحد عرب جنگ تھی جس میں مصر لڑنے والا اکیلا ہی عرب ملک تھا۔ دوسری طرف، برطانیہ اور اسرائیل نے کئی برسوں کے بعد تعلقات بحال کئے تھے۔ اور یوں اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کا اتحاد بن گیا تھا۔ جبکہ اسرائیل تخلیق کرنے کے دونوں پرجوش حامی، امریکہ اور سوویت یونین اس جنگ میں مصر کے ساتھ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصری آرمی اس جنگ میں جلد ہی شکست سے دوچار ہو گئی۔ اور یہ یکطرفہ مقابلہ تھا۔ تیسری دنیا کا ایک کمزور ملک جس نے ابھی سوویت اسلحے کو فوج میں جذب بھی نہیں کیا گیا تھا جبکہ طاقتور اسرائیل جس کی پشت پر دو یورپی طاقتیں تھیں۔
امریکی صدر اس جنگ کے شروع کئے جانے پر سخت غصے میں تھے۔ اس وقت سوویت ٹینک ہنگری میں 1956 کی بغاوت کچل رہے تھے۔ اور اس جنگ نے سوویت جارحیت سے عالمی توجہ ہٹا دی تھی۔ جبکہ دوسری طرف سوویت یونین کو اپنے نئے دوست پر کی جانے والی جارحیت پر غصہ تھا۔
امریکہ اور سوویت یونین نے سرد جنگ کی تلخی ایک طرف رکھتے ہوئے اسرائیل، فرانس اور برطانیہ کے اس اتحاد کے خلاف سخت سٹینڈ لیا۔ سوویت نے نیوکلئیر ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دے دی۔ امریکہ نے وارننگ دی کہ ان تینوں ممالک کو تمام اقتصادی مدد بند کر دی جائے گی۔ (دوسری جنگِ عظیم کے بعد تعمیرِ نو میں فرانس اور برطانیہ کا امریکی امداد پر انحصار تھا)۔ امریکہ اور سوویت یونین نے جنرل اسمبلی سے قرارداد منظور کروائی جس میں اسرائیل سے فوری طور پر فوج واپس بلانے کا کہا گیا۔ (سیکورٹی کونسل سے اس لئے نہیں کہ وہاں پر برطانیہ اور فرانس کی ویٹو پاور تھی)۔
سپرپاورز کی طرف سے آنے والے سخت دباوٗ کی وجہ سے تینوں ممالک کے اتحاد کو مصری زمین پر سے قبضہ چھوڑنا پڑا۔ جزیرہ نما سینا اور غزہ کو خالی کرنا پڑا۔ امریکہ اور سوویت یونین نے دکھا دیا تھا کہ مشرقِ وسطٰی میں باس کون ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصر نے عسکری میدان میں شکست کھائی تھی لیکن تین ممالک کے اتحاد کے خلاف توقع سے زیادہ مزاحمت کی۔ سیاسی میدان میں اور جنگی مقاصد میں کامیاب رہا۔ سویز نہر پر اس کا کنٹرول رہا۔ فرانس اور برطانیہ کو افواج واپس بلانی پڑیں۔ اسرائیل کو علاقہ واپس کرنا پڑا۔ برطانوی وزیرِ اعظم ایڈن کو اس کے نتیجے میں فوری استعفیٰ دینا پڑا۔ فرانس کے وزیرِ اعظم مولے کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا سیاسی جلد ہی ختم ہو گیا۔فرانس ڈیگال کے پاس چلا گیا۔ فرانس امریکہ تعلقات اس کے بعد واپس کبھی گرمجوشی والے نہیں بن سکے۔ یہ سب پر واضح ہو گیا کہ نئی دنیا کی سپرپاور برطانیہ اور فرانس نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر پین عرب ہیرو بن گئے۔ لیکن غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں نے اس سے تکلیف اٹھائی۔
قبضہ آور اسرائیلی فوج نے غزہ کے شہروں میں اور مہاجر بستیوں میں آپریشن کیا۔ رفح اور خان یونس میں 450 لوگوں کو گرفتار کر کے سزائے موت دی گئی۔
اس تنازعے کا اگلا راوٗنڈ زیادہ خونی تھا۔
(جاری ہے)

ساتھ لگی تصویر مصر کی “لبریشن بٹالین” کی فوجیوں کی صحرا میں تربیت کرتے وقت۔ اس نے برٹش فوج کے خلاف سویز کینال زون میں گوریلا جنگ لڑی تھی۔ اس نے برٹش افواج پر اس علاقے میں 391 حملے کئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply