میرے دیش کی خوبصورت وادی چترال۔۔۔۔ سلمیٰ اعوان

اس وقت میں اپنے اِس پیارے سے ملک میں برپا ہونے والے الیکشن کے شوروغوغا،امیدواروں کی بھانت بھانت کی بولیوں،گالیوں اورکوسنوں کی یلغار میں پھنسی سوچے چلی جارہی ہوں کہ کہیں بھاگ جاؤں۔کہیں پہاڑوں میں سکون اور شانتی کے لئیے چند دن گزار آؤں۔
تو میرے پیارے مکالمہ ساتھیوں آپ میں سے بھی تو بہت سے ایسے ہی اضطراب اور بے کلی کا شکار ہیں۔تو آئیے آپ کو پہاڑوں میں لے چلوں۔
چترال کے لیے  جہاز میں بیٹھ کر دور سے جو نظارے دیکھنے کو ملے اُن میں بادلوں کے پُرے برفانی چوٹیاں لواری ٹاپ کی ایک چھوٹی سی جھلک، پتلی سی لکیر کی مانند بہتے دریا، گڑیوں کے گھروندوں کی مانند مکان اور سب سے آخر میں جہاز کا دریائے چترال پر پرواز کرنا تھا۔ جونہی جہاز نے زمین کو چھوا میں نے شکر کا لمبا سانس بھرا تھا۔چترال کے لئے فوکر جہاز مخصوص ہیں۔ پی۔ آئی۔اے کے فوکر اب بہت پرانے ہو چکے ہیں۔ لواری ٹاپ پر ذرا سی دھند انہیں آگے کی بجائے پیچھے لے جاتی ہے۔ اور آپ جہاں سے چلے تھے وہیں آن کھڑے ہوتے ہیں اکثر آپکا سارا شیڈول اپ سیٹ ہو جاتا ہے۔

ائیر پورٹ کی چھوٹی سی عمارت سیاہ پُر ہیبت پہاڑوں میں گھری نگینے کی طرح چمکتی تھی۔ تیز ہواؤں سے نہال ہوتے ہوئے میں نے تنقیدی نظروں سے ائیر پورٹ کا جائزہ لیا۔ اور بے اختیار سوچا کیا اسے بوئنگ طیاروں کے لئے وسعت نہیں دی جا سکتی ہے۔گلگت ائیر پورٹ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ پروردگارکوئی مرد آہن اس قوم کو نصیب ہو جو میدانوں صحراؤں اور پہاڑوں کو نتھ ڈال دے۔
چھوٹی سی عمارت کے شیشوں والے دروازے میں داخل ہونے سے قبل کیاریوں میں اُگے رنگا رنگ پھولوں اور سیبوں کے بار سے جھکے درختوں نے جھوم جھوم کر جیسے سرگوشی میں کہا ہو۔
خوش آمدید چترال آئی ہو۔
اس اتنے پیارے استقبالیہ جُملے پر انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں اندر داخل ہو گئی تھی۔

ایک کریلا دوسرے نیم چڑھا، ایک شراب اوپر سے دوآتشہ جیسی مثالوں کی پروین عاطف ہماری دوست کے وجود کے ساتھ عملی موزونیت کا احساس مجھے چترال ایر پورٹ سے ڈپٹی کمشنر کے دفتر تک بہترین انداز میں ہوا۔ پروین خوبصورت لکھاری کیلاش پر ٹی وی کے لئے سیریل بنانے کی تگ و دو میں مصروف، اوپر سے ہاکی کے بین الاقوامی شہرت کے حامل بریگیڈئیر عاطف کی بیوی۔ اب وہ اپنی جس خوبی کو جہاں چاہتی کیش کرواتی یہ اُسکی مرضی تھی۔ ائیر پورٹ کے کمرے میں اسکے بھاری بھرکم بیگ بھی سنبھال لیے گئے اور اسسٹنٹ کمشنر اظفر بہ نفس نفیس دینین روڈ پر ریسٹ ہاؤس میں چھوڑنے بھی آیا۔ آرٹسٹ پارٹی کل کی فلائٹ سے پہنچ رہی تھی۔ انکے لئے گاڑیوں کا بندوبست بھی فی الفور ہوا۔ انتظامیہ کی جانب سے ہر طرح کے تعاون کے وعدے پر اُسن ے سُکھ کا لمبا سانس بھرا۔ بیڈ پر ٹانگیں پھیلا کر لیٹی اور بولی۔
”سلمیٰ لنچ کرتے ہیں اور چائے پیتے ہیں۔“
معدے کی مریض پروین جس کا کھانا چڑی کے چوگے جتناہے اسوقت لنچ کرنے اور چائے پینے کی خواہش کا اظہار کیوں نہ کرتی کہ اجنبی جگہ پر اُسکے گھمبیر مسائل الہ دین کے جن کیطرح مقامی حکام نے حل کر دئیے تھے۔ میں نے اپنے بیگ سے چینی پتی اور دودھ نکالا۔ سائیڈ ٹیبل پر  رکھی تھرموس میں دو کپوں کے حساب سے چیزیں ڈالیں اور گرم پانی کے لئے کچن میں گئی۔ اسوقت ریسٹ ہاؤس کے دو خانسامے اشتہا انگیز کھانے پروسنے میں پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔ ملحقہ کمرے میں بھاگم دوڑ جاری تھی۔ میں نے بوتل میں پانی ڈالا اور ناک بند کرتی اپنے کمرے میں آ گئی۔ دو گھروں کا لنچ نکالا۔ سویرا کے دئیے ہوئے شامی کباب اور سلائس ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے دوچار تھے۔ یہی حال پی۔ آئی۔اے کے برگر بندوں کا تھا۔ روکھے سوکھے سلائس چائے کے گرم گھونٹوں کے ساتھ حلق سے نیچے اُتار کر رب کا شکر ادا کیا کہ اُس نے  مفت کا یہ من و سلویٰ ہمیں دیا۔ ساتھ ہی ہمسایوں کو بھی لعن طعن کی کہ وہ کھانے کے لئے لان میں کھیلتے اپنے بچوں کو آوازیں دے دے کر بلا رہے ہیں کمبخت یہ نہیں دیکھتے کہ برابر میں دو عورتیں بھی انکی نظر کرم کی مستحق ہیں۔ ہمسایوں کے تو بڑے حقوق ہوتے ہیں۔
چار بجے ہم ریسٹ ہاؤس سے نکل آئیں۔ اب میں نے چترال کے ناک نقشے پر توجہ مرکوز کی۔

کوہ ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑوں میں چاروں طرف سے گھری ہوئی یہ وادی اپنی چند خصوصیات کی بنا پر ہر سیاح کی توجہ فوراً اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ شور مچاتا کف اڑاتا دریائے چترال شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہے۔ چُیو پل پر کھڑے ہو کر شہر کا نظارہ کریں یا کسی اور جگہ سے شاہی مسجد کے بلند و بالا مینار اسکا مغلیہ طرز تعمیر اسکے شاندار گُنبد سنگ مر مر اور سرخ اینٹیں آپکو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اسکی مشابہت شاہی مسجد لاہور سے جوڑیں گے۔ کسی اونچی جگہ کھڑے ہو جائیں تو پچیس ہزار فٹ سے بھی بلند تر ترچ میر کی برف سے ڈھنپی چوٹی خوبصورت اور منفرد نظر آتی ہے۔
پروین نے گرو سری کی خریداری کرنی تھی ایک جنرل سٹور سے جب وہ دال چاولوں کے چکر میں اُلجھی۔ میں گھبرائی، شاپنگ سے مجھے ہمیشہ کی چڑ ہے۔ میرے اُلجھے ہوئے استفسار پر وہ بولی تھی۔
”یارکالاش میں چیزیں بہت مہنگی ہیں یہاں سے لے جانے میں کافی بچت ہو جائے گی۔“

اُن سے ایک گھنٹے کی آوارہ گردی کا کہہ کر میں چُیو پل پر آ گئی۔ یہ پُل وزیراعظم بھٹو کے زمانے میں تعمیر ہوا۔ چُیو ایک کیلاشی شہری تھا۔گدلے پانیوں والا دریائے چترال شور مچاتا بہتا ہے۔ دریا کے دائیں ہاتھ مستوج روڈ ہے جو بونی تک پکی اور شندھور تک کچی۔ بائیں ہاتھ ائیر پورٹ روڈ ہے۔ پل کے ساتھ ہی پہاڑ کاجھکاؤ اتنا خطرناک ہے کہ بس یوں لگتا ہے جیسے ابھی لڑھک کر آپکے اوپر آجائے گا۔ یوں تیز بارش اور دھوپ سے اسکے کھوہ میں کھڑے ہو کر بچا جا سکتا ہے اکیلے ہونیکی صورت میں ائیر پورٹ جانے والی کسی گاڑی میں مفت کی لفٹ بھی مل سکتی ہے۔ پل سے اتالیق بازار تک کا راستہ کوئی پون گھنٹے میں طے ہوا۔
بڑے بڑے دروازوں والی دُوکانیں اور لمبی لمبی داڑھیوں والے دوکاندارگاہکوں کو نپٹانے میں مصروف تھے کہیں کہیں نو خیز گل رنگ چہرے بھی بھاؤ تاؤ کرتے نظر آتے تھے۔بازار کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ہر پچاس گز پر بازار کا نام تبدیل ہو جاتا ہے۔شاہی بازار،کڑوپ رشت بازار، نیوبازار، اتالیق بازار۔
پجاروں کی جتنی فراوانی مجھے چترال بازار میں نظر آئی وہ میرے لیے حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ مسرت بخش بھی تھی۔واپسی کے لئے میں نے ایک پجارو میں ہی لفٹ لی۔ چُیو پل اُتری اور پولو گراؤنڈ روڈ پر بڑھی جہاں میں پروین کو چھوڑ کر گئی تھی۔
ماشااللہ چاول دالوں چینی اور دیگر الم غلم چیزوں سے بھرے اُسکے شاپر ایک نئی دوکان کھولنے کا سماں پیدا کر رہے تھے۔میری صورت پر نظر پڑتے ہی وہ چلائی۔
”سامنے والی دوکان سے آدھ کلو آلو خریدلو رات کے کھانے کے لئے۔“
”سبحان اللہ کتنا شاندار ڈنر ہو گا۔“ اپنے آپ سے کہتے ہوئے میں سبزی والی دوکان کی طرف ہو لی۔ جب پاؤ بھر آلو تُل رہے تھے پروین نے میرے پاس آکر مجھے مزید ایک نوید سُنائی۔ ”قریب ہی میں نے تنور دیکھا ہے۔ دو نان وہاں سے پکڑ لیں گے۔“سوزوکی میں ہماری اور سامان کی لد لدائی کے ساتھ ساتھ دو نانوں کو بھی مکمل عزت و احترام کے ساتھ جگہ دی گئی۔

ریسٹ ہاؤس سنسان تھا۔ مرغن کھانوں والی فیملی کوچ کر گئی تھی۔ اور باورچی خانے میں اُلو بول رہے تھے۔ سرونٹ کوارٹر میں سے خانسامے کو ڈھونڈ کر لائی اور آلو اس کے حوالے کئے۔ ایک نظر اُس نے  مُجھ پر اور دوسری آلوؤں پر ڈالی اور سر جھکا کر چولہا جلانے لگا۔ اُسکی نگاہ مجھے کہہ گئی تھی ایسی شودی زنانیاں تو میں نے کبھی نہیں دیکھیں۔ گھی پیاز اور نمک اس نے لوگوں کا بچایا ہوا ڈالا آلو اور مرچیں ہماری ڈالیں۔ یوں ڈنر تیار ہوا۔ پروین نے چپہ کھایا میں نے آدھا اور جب باقی نان میں انہیں عنایت کرنے گئی تو دیکھا دونوں خانسامے دوپہر کا بچا ہوا مرغ گوشت اور پلاؤ کھا رہے تھے۔ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے واپس آ گئی۔
چترال کی اُس اولین شب کو سونے کے لئے لیٹتے وقت  گرمی نے بے حال کردیا ، میری جس کزن نے موٹے کپڑے لے جانے کا مشورہ دیا تھا ابھی جاکر اسکی چھترول کروں۔ پروین نہا کر لیٹی تھی اور شاید کچھ سکون میں تھی۔میں نہانے کی ازلی چور بس رات بھر گرمی سے گتھم گتھا ہوتی رہی۔
غریبانہ سے ناشتے سے فراغت پاتے ہی میں پروین سے یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئی کہ اب ائیر پورٹ پر ملاقات ہو گی۔ پر وہاں جانے کی نوبت ہی نہیں آئی کہ کتابوں کی دوکان پر دس بجتے ہی لوگوں کی آسمان کی جانب اٹھتی نگاہوں زبانوں اور ایک دوسرے سے یہ استفسار ”کیا فلائٹ آئی ہے؟“ نے مجھے سمجھا دیا کہ پروین کی دعائیں کام نہیں آئیں۔
اتالیق بازار کے پُل پر ریلنگ کے ساتھ ٹک کر اک ذرا میں نے نیچے بہتے نالے کے پانی کی روانی کو دیکھا۔ نگاہوں نے لشکارے مارتی دھوپ میں لا محدود وسعتوں والے شفاف آسمان کی سیاہی مائل نیلاہٹوں پر نظر کی۔ پروردگار کی رفعتوں اور عظمتوں کے اس پُر اسرار اور پُر ہیبت اظہار پر میری نظریں زیادہ دیر جمی نہ رہ سکیں فوراً ہی خوفزدہ سی ہو کر سکڑیں اور جھک گئیں۔
پتہ نہیں مجھے وہاں کھڑے کتنی دیر گزر گئی تھی پھر جیسے مجھے محسوس ہوا کہ کوفت بیزاری اور ڈپریشن سا بجلی کی کسی ننگی تار سے نکلتے مدھم کرنٹ کیطرح میرے سارے سریر میں دوڑنے لگا ہے۔ میں مفلوج ہو رہی ہوں۔پروین عاطف کے پروگرام اور اسکے منصوبے مجھے اُن بونوں اوررسوں کی مانند نظر آرہے تھے جنہوں نے گلیور کو جکڑ کر زمین پر چاروں شانے چت گرا دیا ہو۔ میں زمانے بھر کی آپ پھُدری جب بھی باہر نکلی ہمیشہ اپنے حسابوں چلی۔ دائیں بائیں اور پیچھے نہیں دیکھا۔ آگے دیکھا۔ چترال کے نقشے اور لوگوں نے مجھے بتایا تھا کہ مجھے کہاں کہاں جانا چاہئیے۔ اسوقت میرا جی چاہ رہا تھا کہ اڈے پر چلی جاؤں اور جو لاری گاڑی جہاں بھی کہیں جا رہی ہو اس میں لد جاؤں۔

شہزادہ مطاع الملک کے ہاں وادی شغور میں وادی گرم چشمہ وادی دروش بھرموغلشٹ جیسی دلآویز جگہیں۔ شندھور میلہ میں اپنی لا علمی سے مس کر بیٹھی تھی کہ جانتی ہی نہ تھی کہ ساڑھے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر شندھور جھیل کے ہمسائے میں وسیع و عریض سطح مرتفع پر کھیلے جانے والے پولو ٹورنامنٹ کو دیکھے بغیر آپکا چترال آنا اور اس پر کچھ لکھنا ادھورا رہتا ہے۔
کیلاش اور اس کی وادیاں بمبوریت اورریمبور کا سلسلہ تو پروین کے ساتھ چمٹ گیا تھا۔
دفعتاً مجھے محسوس ہوا آتے جاتے مقامی لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اُنکی نظروں سے بچنے کے لئے میں نے چلنا شروع کر دیا۔چلتی گئی چلتی گئی۔ پجارو زن زن کرتی میرے قریب سے گذرتی گئیں مگر میں نے کسی کو ہاتھ نہیں دیا۔مجھے کونسا کہیں حاضری دینی تھی۔
چیو پُل کے پاس ریسٹ ہاؤس کا نوکر رجسٹر ہاتھ میں پکڑے ڈی۔ سی آفس کیطرف جاتا نظر آیا مجھے دیکھ کر رُکا۔ میں نے پوچھا۔
”کیا ایسا ممکن ہے آج تم مجھے اپنے گاؤں لے چلو میں وہاں رات گزارنا چاہتی ہوں۔“
وہ ہنسا۔ میں نے دیکھا تھا طنز سے بھری ہوئی زہریلی ہنسی اُسکے ہونٹوں سے پھسلتی اسکی آنکھوں میں گری اور وہاں سے سارے چہرے پر پھیل گئی۔ اور جب اُس نے رخ پھیر کر میری طرف دیکھا اور کہا۔ ”آپ نے وہاں جا کر کیا کرنا ہے؟“
مجھے محسوس ہوا تھا زہر اسکے لہجے میں عود آیا تھا۔
”کچھ جاننا چاہتی ہوں تم لوگوں کے بارے میں۔“
میں نے اپنے سامنے بہتے دریائے چترال اورشور مچاتی موجوں پر نظریں جمائے جمائے کہا۔
”ہمارے پاس غریبی کے دکھوں کے سوا ہے کیا جس کے لئے آپ وہاں جانے کی خواہشمند ہیں۔ میرے بوڑھے باپ نے سولہ سال کی چھوکری سے بیاہ کر لیا ہے۔ اُس چھمک چھلو نے میری بیوی اور بچوں کو نتھ ڈال رکھی ہے۔ میرا باپ ایسا زن مرید کہ مجال ہے جو ایک لفظ بھی بولے۔ سارا وقت تو تو میں میں اور کل کلیان میں گزرتا ہے۔ پھر وہ بڑی قطعیت سے بولا۔
وہ بڑی باجی وہاں ریسٹ ہاؤس میں بہت پریشان بیٹھی ہیں۔ جہاز نہیں آیا نا۔ انکے لوگ نہیں پہنچے۔ آپ جا کر انہیں تسلی دیں۔“
ریسٹ ہاؤس کے ٹی۔وی لاؤنج کی میز پر کچی کلیجی شاپروں میں لپٹاچھوٹا اور بڑا گوشت لہسن اور پیا ز کے پیکٹ بکھرے پڑے تھے۔ یہ خریداری پروین نے سویرے سویرے کی تھی۔ دوکانیں پو پھٹے کھل جاتی ہیں۔

چترالی صحت کے اُس زریں اصول ”جلدی سوؤ اور جلدی اٹھو“ کی عملی تفسیر ہیں۔ صوفے پر بیٹھی پروین چپ چاپ دروازے سے باہر لان میں پھیلی دھوپ اور اس دھوپ میں نہاتے سامنے پھیلے پہاڑوں کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے خالص مسلمانی طریق سے پروین کی دلداری کی۔”اللہ کی کوئی مصلحت ہو گی اسمیں بھی باجی۔ چھوڑئیے آئیے چائے پیتے ہیں۔“
چائے کے گھونٹوں میں اگر میں نے اپنا پوشیدہ اضطراب حلق میں اُتارا تھا تو یقیناً پروین نے بھی ایسا ہی کیا تھا کہ جب ہم نے کپ تپائی پر رکھے تو خاصی ہشاش بشاش تھیں۔
باہر بہت گرمی تھی۔ ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ ٹھیک ایک بجے ہم نے لنچ کیا جو بلا شبہ ہماری اوقات کے مطابق تھا۔ تھوڑا سا آرام کرنا ضروری سمجھتے ہوئے لیٹیں۔ تین بجے جب ہم باہر نکلیں تو جن ہواؤں نے بڑھ کر ہمارا استقبال کیا وہ اگر دوزخ سے نہیں تو جنت سے بھی نہیں نکلی تھیں کہ تند و تیز ہونے کے ساتھ ساتھ نیم گرم بھی تھیں۔ شاہی مسجد کے اندر پروین میری ترغیب پر گئی۔
”چلو نہ چل کر دعا مانگتے ہیں کہ کل آپکا جہاز آ جائے“۔ یہ عصر سے پہلے کا وقت تھا مسجد میں فقہ حدیث اور قرآن پاک حفظ کرنے والے بچے ٹولیوں کی صورت ادھر اُدھر پھر رہے تھے۔ اندر داخل ہوتے سمے کچھ ڈر لگا چترالیوں کی مذہبی وابستگی کی شدت سے آگاہی تھی۔ خوف تھا کہ کہیں نکالی ہی نہ جائیں۔ صد شکر کہ خیریت رہی برآمدے میں کسری نماز پڑھی۔ جب ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے تو کھلی آنکھوں نے مسجد کے اندرونی حصے کے نقش و نگار کی دلفریبی کو دیکھا لیکن وہ لمحہ ایسا تھا کہ میں کسی ذی روح یا کسی شے کے دنیاوی حسن سے متاثر ہونے یا داد دینے کے موڈ میں نہیں تھی۔ پروین بھی آنکھیں بندکئے ہاتھ پھیلائے بیٹھی تھی۔میں جانتی تھی کہ وہ کیا مانگ رہی ہے۔ ہاتھوں کے پھیلانے اور سکیڑنے میں صرف دو پل ہی لگے ہوں گے۔ جب میں کھڑی ہوئی مجھے محسوس ہوا تھا جیسے میرے اور اوپر والے کے درمیان دوبارہ دنیاداری کے دبیز پردے حائل ہو گئے ہیں۔

شاہی مسجد سے نکل کر ہمارا رُخ شاہی قلعے کی طرف تھا۔ وہی مغلیہ طرز تعمیر شالامار باغ کے مین گیٹ جیسا دیو ہیکل پیتل کے کیلوں والاچوبی دروازہ۔ ویسی ہی چھوٹی سی کھڑکی جس سے اندر داخلہ ہوا۔ دائیں بائیں درمیانی راستے کو چھوڑ تے ہوئے دو ڈھائی فٹ اونچی اوراُتنی ہی چوڑی  کُرسی پر بھاری بھرکم ستونوں کے آگے جو کوٹھڑیاں امتداد وقت کے ہاتھوں خورد بُرد ہو رہی تھیں یہ کبھی پہرہ داروں اور سنگین برداروں کی آما جگاہ تھیں۔ آج جو ہم یوں دندناتے اندر داخل ہوئے تھے ،کہیں سوسال قبل میرا اندر دھرا پہلے قدم والا پاؤں انکی بندوقوں کی زد میں ہوتا۔ داہنے ہاتھ والا زینہ اوپر بالکونی میں جاتا تھا۔ بالکونی کے تختے بھی سال خوردہ ہو کر ٹوٹ پھوٹ رہے تھے۔تاریک ڈیوڑھی کے آگے چوبی دروازے سے نکل کر کشادہ میدان نظر آتا ہے۔ بائیں ہاتھ کی فوجی بارکیں مکمل طور پر زمین بوس ہیں۔ دائیں ہاتھ کے مخروطی برآمدوں والے کمرے جو کبھی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے لیے مختص تھے آج بھی کسی قدر قابل قبول حالت میں ہیں۔ سامنے والے کمروں کی منفرد طرز تعمیر کی صرف ایک ہلکی سی جھلک یہ بتاتی تھی کہ یہ خاص کمرے ہوں گے اور واقعی یہ مہتر چترال کا دفتر مالیات تھا۔ آنگن میں چنار کے بلند وبالا درخت کے نیچے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ڈھولچیوں سازندوں اورموسیقاروں کی جگہ تھی جو کبھی یہاں اپنے فن کا جادو جگاتے ہوں گے پر اب تو چنار کے خاموش کھڑے درخت کے سوا اگر کچھ تھا تو وہ ویرانی سناٹا خوف اور دنیا کی بے ثباتی کا احساس۔

دائیں بائیں سے نگاہیں اُٹھا کر سامنے پھینکیں تو ٹوٹ پھوٹ کا وہاں بھی ایک ایسا سلسلہ نظر آ رہا تھا۔ جو لہروں کی صورت دُکھ اور کرب سارے شریر میں پھیلاتا جاتا تھا۔ میں بھی اسی کرب کے بوجھ تلے سسکتے ہوئے مختصر سی راہداری سے اگلی سمت آئی تو سامنے کا منظر کسی قدر مسحور کن تھا۔ موڑ کاٹتا دریائے چترال اور دوسرے کنارے پر چمکتے ٹین کی چھتوں والے خوبصورت گھر۔ اس حسین نظارے سے آنکھیں سیکنے کے بعد دائیں طرف کی نگاہ پھر یاس کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ طویل راہداری پر مشتمل اوپر کی منزل کی بالکونی جہاں مہتر چترال کھڑے ہو کر عوام کو اپنا دیدار کرواتے اور خطاب کرتے تھے۔
بیچاری غریب عوام مہتر کے قدموں سے تیس فٹ نیچے کھڑی ہوتی۔ پر زمانہ ماضی کا ہو یا حال کا مہتر ہو حاکم ضلع یا کوئی اور بڑا آدمی۔ یہ فاصلہ تو آج بھی جوں کا توں برقرار ہے۔
داہنے ہاتھ کی چوبی بالکونیوں سے اگلے کمرے جو چوب کاری کا بہترین نمونہ تھے وزراء کے لیے مخصوص تھے۔ آگے تہہ خانے قیدیوں کے لیے اُنکے ساتھ ہی بلند و بالا بُرجیاں بندوق برداروں کے لیے کہ دریا پار سے کوئی دُشمن حملہ نہ کر ے۔

ماضی کے اس شکستہ ٹوٹے پھوٹے قلعے سے ٹرن لے کر جب آگے بڑھیں تو گیروے رنگ کی دو منزلہ برامدوں اور شہ نشینوں والی عمارت نظر آئی۔ پہلی منزل کے برآمدے اگر پرانی توپوں کے نمونوں سے سجے ہوئے ہیں تو بالائی منزل کے برآمدوں کی دیواریں مارخور جنگلی گائے کے سینگوں سے مزین ہیں۔ بجری بچھی روش پر آگے چلتے ہوئے ڈیوڑھی میں بچھے بینچ پر جس آدمی نے عقاب کی طرح جھپٹ کر ہماری پذیرائی کی وہ ادھیڑ عمر ضرور تھا پر آواز کی گھن گھرج اور لہجے کی کرخت توانائی اُسے معمر کہاں ظاہر کرتی تھی۔ دہل کر میں پیچھے ہٹی۔ قلعے میں آنا منع ہے۔ اُسکی نیلی کچور آنکھوں میں برہمی اور سُرخ و سفید رنگت میں خون جیسی لالی تھی۔ میں نے مسکینی اور عاجزی سے مدعا گوش گزار کرنا چاہا جب کسی خونخوار بگیاڑ کی طرح اسکی ”نہیں“ قلعے کے طول وعرض میں گونجی۔ سہم کر میں نے پروین کی طرف دیکھا جس نے زیر لب اُسے لعن طعن کرتے ہوئے مجھے کہا آؤ چلیں۔

میں نے گھائل نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے جیسے کہا۔ ”آؤ چلیں۔ کہاں اور کیوں پینی باجی۔“ آپکی جیب میں پرنس محی الدین کاجو کارڈ ہے یہ کب کام آئے گا۔ میں قلعے کے اندر محل میں جانا چاہتی ہوں۔ جہاں اس جیالے مہم جو اور بہادر پرنس سیف الرحمٰن کی پری پیکر محبوبہ ہے جو دیر کے نواب کے کسی بیٹے کی منگیتر تھی۔ وادی کی سڑکوں پر سپورٹس کار دوڑانے اور ان خوفناک پہاڑوں میں جہاز اُڑانے والے اس شہزادے نے سینہ تان کر کہا تھا۔ وہ میری پسند ہے۔ اسے کوئی مجھ سے کیسے چھین سکتا ہے۔ اور اسکی اس بات پر ریاست دیر اور چترال ایک دوسرے کے مد مقابل آکر کھڑی ہو گئی تھیں۔ مجھے تو اُسے دیکھنا ہے اس سے باتیں کرنی ہیں۔ پرنس محی الدین سے ہی تو ملنے جا رہی ہوں۔ انہوں نے میری دل گرفتگی کم کرنے کی کوشش کی اور جب ہم قلعے کی کچی دیواروں کے ساتھ باہر جانے والی سڑک پر رواں تھے ہمیں وہ جرمن ملے تھے انہیں بھی اُسنیلی کچور آنکھوں والے سے شکایت تھی۔ ہلمٹ روسومئیر  Rosemaireاور Holfelnerسے کافی دیر ہاکی اور سیاست پر باتیں ہوئیں۔ میرے چہرے پر بشاشت آئی کہ میں ایک نئے منظر میں داخل ہوئی تھی۔ زرگراندہ محلے میں چترال کی اہم سیاسی شخصیت پرنس محی الدین کی سرگرمیوں کا مرکز ایک لمبی چوڑی عمارت اور لان کی صورت سامنے تھا۔

یہاں خدام بھی بہتیرے تھے اور چائے پانی کی بھی فراوانی تھی۔ پر صاحب کے بارے میں معلومات کی بہت کمی تھی۔ سیاست اسی کا نام ہے۔ لان میں بیٹھے ابھی زیادہ دیر نہ گزری تھی جب گیٹ سے ایک لینڈ کروزر اندر آئی اور اس میں سے ایک ہنستا مسکراتا دلدار سالڑکا برامد ہوا۔ جو شندھور ٹاپ سے آرہا تھا۔ لمبے اور دشوار گزار سفر کی گرد لینڈ کروزر اور جوان چہرے پر چھائے ہونے کے باوجود دونوں جوانی کی بشاشت اور تازگی سے پور پور بھرے پڑے تھے۔ پروین سے تھوڑی دیر گپ شپ۔ بابا کے بارے میں مکمل لا علمی۔ اب یہ پروین کی خوش قسمتی کہ جب واپسی کے لیے نکل رہے تھے پرنس محی الدین کی پجارو زن سے پاس آرکی اور پھر الہ دین کے طلسمی چراغ کی طرح گاڑی کا مسئلہ حل ہو گیا۔ اور جب چترال کا چہرہ تاریکی کی زلفوں سے گہنا رہا تھا ہماری مارچ پاسٹ دینین ریسٹ ہاؤس کی طرف رواں دواں تھی۔
چترال ائیر پورٹ پر مشی خان کی آمد لوگوں کے لیے جیسے خوشبو کا ایک خوشگوار جھونکا تھی۔ اب ایسے میں اظفر جیسے نوجوان اسسٹنٹ کمشنر کا ائر پورٹ پر گھومنا اور پینی باجی کو خوشدلی سے گاڑیاں فراہم کرنا سمجھ میں آتا تھا۔
پینی باجی نے لمبا سانس بھرا تھااس سانس کے ہر تار میں شکریے کے جذبات تھے۔ کہ انکا عملہ آگے پیچھے کے دونوں جہازوں میں پہنچ چکا تھا۔ ریسٹ ہاؤس میں اُس قلانچیں بھرتی شوخ و شنگ ہرنی کو چائے پینی دوبھر ہو گئی تھی کہ وہ فی الفور بازار جا کر اپنے یار دوستوں کو فون کرنا چاہتی تھی۔ چیو پل سے اتالیق بازار کے آخری کونے تک مشی خان مشی خان کی آواز کی بھرپور گونج تھی۔ ساتھ نشیلی آنکھوں اور بونے سے قد والی زیب چودھری بھی تھی۔ شاہی بازار کے کارنر سٹور پر کال پر کال ہو رہی تھی اور پینی باجی کا دل دھڑک دھڑک پڑتا تھا کہ بل معلوم نہیں کتنا آئے گا۔
”ارے آپ چپکی رہیے ادھر اُدھر کھسک جائیے کرنے دیں انہیں خود پے منٹ“ میں نے ذرا تسلی دی۔

میں ایک جنرل سٹور میں بیٹھی تھی جب پینی باجی چنگیر میں تنوری نان پر گرم گرم تکے لیے میرے پاس آئیں۔ کیسا ممتا بھرا لہجہ تھا انکا جب وہ بولیں ”لو تم کھاؤ“۔
ہم دونوں جب بُرکیاں توڑ توڑ کر کھا رہی تھیں انہوں نے بتایا تھا پورا عملہ سیخ کبابوں کی دوکان پر کھڑا موج میلے کر رہا ہے دوکاندا ر کی تکوں کی پرات خالی ہو گئی ہے۔ میں بہت خوش ہوں آخران لوگوں کی کمائی کا ذریعہ ہم جیسے لوگ ہی تو ہیں۔
مشی خان کے لیے اُنکا سُکڑتا دل مقامی غریب لوگوں کے لیے کیسا دریا بنا ہوا تھا۔
سچی بات تھی کہ سارے بازار میں تھرتھلی مچی ہوئی تھی۔ اسسٹنٹ کمشنر اظفر کی جیپ سڑکوں پر دندناتی پھرتی تھی۔ مشی خان اور زیب چودھری سروں پرہیٹ دھرے جانے کہاں کہاں خجل ہوتی پھر رہی تھیں۔ ڈرامے کا ہیرو ظل عاطف لونگ بوٹس اور واسکٹ کی تلاش میں دوکانوں میں کہیں گم تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک بج رہا تھا اور چترال سے نکلنے کی مجھے کوئی صورت دکھائی نہ دیتی تھی۔ شاہی قلعہ روڈ کے کونے پر کھڑی میں اس تماشے کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ ”آج کا دن بھی ضائع ہی ہوا‘‘ کے احساس پر کڑھ رہی تھی۔ چترال کی یہ دوپہر ۵۳ سینٹی گریڈ کے نیچے جل بھن رہی تھی۔ جب پروین گروسری کی دوکان سے نکلی۔ قریب آئی اور بولی۔ پشاور ٹی وی کی آرٹسٹ عفت صدیقی جس نے ڈرامے میں کالاشی بوڑھی عورت کا کردار کرنا تھاابھی تک نہیں
پہنچی۔ ٹیم نے تمہیں یہ کردار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے پروین کے ہاتھوں میں سنہری و سرخ پنی سے منڈھی اور کروشیے کی لیس سے سجی رنگین ڈنڈی والی پنکھیا ہے جس نے مجھے ہوا دینی شروع کردی ہے اور حرارت میں ڈوبا میرا وجود یکدم لطیف سی خوشگواری محسوس کرنے لگا ہے۔ اسوقت میں کہیں کسی گھی شکر والی پرات پر بیٹھی ہوتی تو پروین کا منہ میٹھے سے بھر دیتی۔ مجھے نیلی چھت والے پر بے اختیار ہی بہت پیار آیا۔ نیاز مندی اور عاجزی کاگداز پن میرے قلبی محسوسات کو رقیق کرنے لگا۔
مدتوں سے دماغ میں اظہار خود نمائی کا ایک کیڑا کلبلاتا رہا ہے۔ جو یقین دلاتا تھا کہ اگر گلوکاری کے میدان میں کود وگی تو جھنڈے گاڑ دو گی اور اگر اداکاری کرو گی تو کشتوں کے پشتے لگاتی ہوئی شہرت کے چوبارے کی ممٹی پر جا بیٹھو گی۔
تو کیا اب۔۔۔۔۔۔میں نے سر جھٹک دیا تھا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply