چرسی۔۔عارف خٹک

وہ سوٹڈ بوٹڈ خوبصورت نوجوان انتہائی مہارت اور خوبصورتی سے پچاس ساٹھ بندوں کے سامنے پروجیکشن اسکرین کے سامنے کھڑا کہہ رہا تھا۔ “نشہ ہمشہ کمزور انسانوں کو فتح کرتا ہے،۔ مضبوط انسان نشہ آور جوئے سے ہمشہ دور بھاگتا ہے۔ مضبوط اعصاب کا مالک مرد یا عورت دوسروں کو نئے آئیڈیاز اور بے سمتوں کو سمت دینے کی بات کرتا ہے جبکہ کمزور اعصاب کا مالک خود کو تخیلات کی دنیا کا اسیر بناکر خود اس دنیا کا مقید بنا دیتا ہے۔۔۔۔۔”۔
تیس سالہ یہ نوجوان شہر کا سب سے مہنگا موٹیویشنل اسپیکر تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ جب وہ بات کرنے لگتا ہے تو انسان کی روح کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ مجمع کو مسمرائز کرکے رکھ دیتا ہے۔ نوجوان لڑکیاں اس پر جان چھڑکتیں تھیں۔ اس خوبصورت نوجوان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ نوجوان نسل کو نشے جیسی مہلک شئے سے بچانے کیلئے میدان میں اترا تھا۔ ٹی وی کی ہر صبح مارننگ شو میں اس نوجوان کی موجودگی اس شو کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ الغرض وہ ایک ایسا دیوتا تھا جس کو شہر کے بڑے بوڑھے، نوجوان لڑکے لڑکیاں پوجتے تھے۔
میری بیگم نے زبردستی مجھے اس کے سیشن میں بھیج دیا اور پانچ گھنٹوں کے اس سیشن کیلئے میں نے جیب سے بیس ہزار کی قربانی بھی دی تھی۔تاکہ نشے سے میری جان چھوٹ جائے۔ میرا چرس کا نشہ میری بیگم کیلئے ایک گالی بن گیا تھا۔ اس نشے کیلئے اکثر ہماری گھر میں توتکار باقاعدہ جنگ   تک پہنچ جاتا کرتی تھی۔ بیگم کو اس بات کا قلق تھا کہ میں شہر کا جانا مانا نفسیاتی معالج ہونے کے باوجود روزانہ رات کے کھانے کے بعد ایک بھری سگریٹ کیوں پیتا ہوں۔ میں ہنس کر کہتا کہ بیگم چرس پینا کینیڈا میں اور امریکہ کے کچھ شہروں میں نشہ نہیں سمجھا جاتا یہ انسان کے کولیسٹرول کو ایک حد سے بڑھنے نہیں دیتا۔ بلکہ انسان کو خوبصورت اور بھاری بھر کم بارعب شخصیت میں ڈھال دیتا ہے۔ میری اسمارٹنس کا راز یہی ہے۔ مگر وہ ہمشہ لعن طعن کرکے مجھے “چرسی” جیسا گھٹیا نام دیکر میرے اندر کے غراتے مرد کو مزید غرانے پر مجبور کردیتی بالآخر ہم دونوں ہفتوں ایک دوسرے بات چیت بند کردیتے۔ ،میں بھی روز روز ان لڑائیوں سے  تنگ آگیا تھا کہ ایک دن میری بیوی نے مجھے حکم دیا کہ مجھے عامر نسیم کا ایک سیشن ضرور اٹینڈ کردینا چاہیئے جو منشیات کے خلاف جہاد کررہا ہے۔
پچھلے ایک گھنٹے سے مجھے عامر نسیم نے اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا۔ میں نے اٹل فیصلہ کیا تھا کہ آج کے بعد میں چرس کے قریب بھی نہیں جاؤنگا۔ بطور نفسیاتی معالج میں خود بھی حیران تھا کہ عامر نسیم جیسا کل کا نشہ کس خوبصورتی سے انسان کو اپنے سحر میں لیکر بے بس کردیتا ہے۔ میں کافی دیر سے نفسیات کے اس ٹرم کو کھوج رہا تھا کہ شاید اس کی خوبصورت مسکراتی آنکھیں اور بھاری آواز سامنے والے کو ہپنٹائز کرنے میں عامر کی مدد کررہے ہیں۔
سیشن کا وقفہ شروع ہوا تو چائے پینے کے دوران میں عامر کے قریب چلا گیا۔ ہیلو ہائے کی۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو معلوم ہوا کہ عامر نسیم غائبانہ طور پر مجھے جانتا ہے اور مجھ سے ایک سیشن کرنے کا پلان بھی رکھتا ہے۔ کہنے لگا ڈاکٹر صا7ب میں نے سنا ہے “آپ ہپنٹائز کرنے میں ماہر ہے میں اس سلسلے میں آپ سے ملنا چاہونگا۔”
میں نے مسکراتے ہوئے چوٹ کی۔ “میری فیس آپ سے دوگنی ہے”۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ مسکراتے ہوئے ان کے اگلے دو دانتوں پر مجھے کالے سے داغ نظر آئے۔ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔ “چرس کتنے عرصے سے پی رہے ہو؟۔”
وہ ایکدم سنجیدہ ہوا “پانچ سال ہوگئے مگر یہاں کراچی میں خالص نہیں ملتی۔”
میں نے جیب سے مزارشریف کی چرس نکال کر اس کو پکڑا دی۔ “آج رات کا کھانا میرے ساتھ کھانا۔ میں گھر پر سیشن کے پیسے چارج نہیں کرتا۔”۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک