پہنچی وہیں پہ خاک/ڈاکٹر حفیظ الحسن

صحارا کا ریگستان اتنا بڑا ہے کہ اس میں تقریباً 12 پاکستان سما جائیں۔ دنیا کا گرم ترین صحرا جہاں حدِ نگاہ تک ریت ہی ریت۔ یہاں راستہ بھٹکنے والے مشکل سے ہی مل پاتے ہیں۔
شمالی و وسطی افریقہ کے دس ممالک کے بیچ پھیلا یہ صحرا ، ایک زمانے میں صحرا نہیں تھا بلکہ یہاں پانی ہی پانی تھا۔ جہاں مچھلیاں، سمندری سانپ، اور دیگر آبی حیات موجود تھی- مگر یہ بات ہے آج سے 5 سے 10 کروڑ سال پہلے کی جب یہاں نمکین سمندری پانی کی گزرگاہ تھی۔ اُس دور میں زمین پر سمندروں میں پانی کی سطح کافی بلند تھی۔ مگر سائنسدان اس بارے میں کیسے جانتے ہیں؟ ایسے کہ اُنہیں یہاں کئی سمندری جانداروں کے فوسلز ملے ہیں جو یہ گواہی دیتے ہیں کہ صحارا میں پہلے پانی ہی پانی تھا۔ مگر اب صحارا خشک ہے، یہاں ریت اُڑتی ہے اور دور دور تک سبزے کا نام و نشاں تک نہیں۔

دنیا کا اتنا بڑا علاقہ جہاں سبزا ہی نہیں تو پھر اسکا کیا فائدہ؟ رکیے ابھی بتاتا ہوں۔ پہلے ذرا یہ جان لیں کہ دنیا کے سب سے بڑے اور گھنے جنگلات کہاں پر ہیں؟ تو اسکا جواب ہے ایمازون کے جنگلات جو جنوبی امریکہ میں برازیل، کولمبو، پیرو اور لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان جنگلات میں مسلسل بارشیں ہوتی رہتی ہیں۔
یہاں انواع و اقسام کے جانور اور پودے ہیں۔ مگر ان جنگلات میں ایک مسئلہ ہے جو انہیں ختم کر سکتا ہے۔ ان جنگلات کی مٹی ذرخیز نہیں ہے!!

یہاں اگر درختوں کو کاٹا جائے تو وہ دوبارہ مشکل سے ہی اُگیں۔ مگر ایسا کیوں کہ اتنے درخت اور پودے ہونے کے باوجود یہاں کی مٹی زرخیز نہیں؟

وہ اس لئے کہ یہاں پودے اور درخت مٹی میں سے کم و بیش تمام غذائیت جذب کر لیتے ہیں۔یہاں موجود بیکٹریا اور فنگس مردہ پودوں کو کھا جاتے ہیں۔ پیچھے بچ جانے والی غذائی معدنیات درختوں اور پودوں کی جڑیں جذب کر لیتی ہیں۔
اگر ان جنگلات کی مٹی کی اوپری تہہ کو جو چند سینٹی میٹر یے، ہٹائیں تو نیچے محض ریت یا بنجر مٹی ملے گی۔
تو پھر یہ جنگلات زرخیز مٹی کہاں سے لاتے ہیں؟

اسکا جواب حیران کن ہے۔
دراصل یہ زرخیز مٹی ان جنگلات سے ہزاروں میل دور بحرِ اوقیانوس پار کر کے صحارا کے ریگستان سے آتی ہے۔
جی دنیا کے سب سے بڑے اور سرسبز ایمازون کے جنگلات کو دنیا کا سب سے خشک اور گرم صحرائے صحارا زرخیز مٹی مہیا کرتا ہے۔

مگر یہ مٹی کیسے پہنچتی ہے؟
صحارا میں بڑے بڑے آندھیوں کے طوفان آتے ہیں جن سے صحارا کی زرخیز ریت اور مٹی جس میں خاص کر پودوں کی افزائش کے لیے فاسفورس موجود ہوتی ہے بادلوں کی صورت ہوا میں اُٹھتی ہے۔ یہ ریتلے بادل ہزاروں میل دور ایمازون کے جنگلوں کو اپنی زرخیز مٹی بخشتے ہیں۔

ناسا جسکے بجٹ کا ایک خطیر حصہ زمین کی تحقیق پر خرچ ہوتا ہے، اسکے خلا میں موجود سٹلائیٹس زمین کا تفصیلی مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
ان میں سے ایک CALIPSO سٹلائیٹ ہے جو 2006 میں خلا میں بھیجا گیا تاکہ یہ زمین کی فضا میں مٹی کے ذرات اور بادلوں کا۔مشاہدہ کر سکے۔
اس سٹلائٹ کی 2007 سے 2013 کی تصاویر میں یہ واضح دیکھا جا سکتا یے کہ ہر سال لاکھوں ٹن مٹی بادلوں کی صورت صحارا سے ایمازون کے جنگلوں میں پہنچتی ہے۔ حیرانگی کی بات یہ کہ اس میں موجود فاسفورس کی مقدار ہر سال تقریباً 22 ہزار ٹن ہوتی ہے جو تقریباً اُتنی ہی ہوتی جو ہر سال بارشوں اور سیلاب کیوجہ سے ایمازون کے جنگلات کھو دیتے ہیں۔
سائنسدان اب یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ ہر سال مٹی کی یہ تعداد کتنی کم یا زیادہ ہوتی ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے مٹی کی اس منتقلی کا عمل کس قدر متاثر ہو رہا ہے۔

صحارا کی مٹی اور ایمازون کے جنگل!! دو الگ دنیائیں مگر آپس میں جڑی ہوئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply