• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک اور ننھی پری درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی۔۔۔۔صالح عبداللہ جتوئی

ایک اور ننھی پری درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی۔۔۔۔صالح عبداللہ جتوئی

اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوا کرتی ہے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین کے ارمان اور خواب مزید پروان چڑھنا شروع ہو جاتے ہیں. بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں والدین کا لگاؤ ان کے ساتھ کچھ زیادہ ہی ہو جاتا ہے اور وہی والدین کے زیادہ قریب ہوتی ہیں اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے شاید کہ ان کو معلوم ہو جاتا کہ وہ اپنے والدین کے گھر مہمان ہیں اور ایک دن وہ ہمیشہ کے لیے انہیں چھوڑ کے چلی جائیں گی۔ میں بطور ایک والد، اس کیفیت کو بہت ہی اچھے طریقے سے دیکھ اور سمجھ چکا ہوں.
والدین سے یہ خوشیاں چھیننے والے سفاک درندے بھی دندناتے پھر رہے ہیں جو ان کی ننھی کلیوں کو مسل دیتے ہیں زینب جیسی کئی ننھی پریاں اس سفاکیت کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور اس دسمبر کے آخری عشرہ میں ایک ننھی کلی 3 سالہ فریال جس کا تعلق حویلیاں سے تھا اور 9 سالہ بچی مناہل جس کا تعلق نوشہرہ سے تھا ظالم درندوں کی حوس کا نشانہ بن گئیں اور اس پہ قلم کشائی کا موقع ملا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

بچہ پیدا ہوتے ہی والدین اس کے لیے ہر سہولت کا بندوبست کرنے کی کوشش کرتے ہیں گرمیوں میں ایئرکنڈیشنر اور سردیوں میں گرم ملبوسات اور ہیٹر کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ بچہ موسم کی تلخی کا شکار نہ ہو جاۓ اور جب وہ قدم رکھنا شروع کرتا ہے تو مٹھایئاں بانٹی جاتی ہیں اور ان کی چھوٹی چھوٹی حرکتیں ان کے ساتھ محبت مزید بڑھا دیتی ہیں سفاک درندگی کا شکار بچیاں بھی اپنے والدین کی لاڈلی تھیں ان کے بھی ارمان تھے ان کے والدین کی بھی خواہش تھی کہ ان کی پریاں بڑی ہو کر ڈاکٹر انجنیئر اور وکیل بن کے اس ملک کی خدمت کریں گی اور اپنے والدین کا نام روشن کریں گی فریال کی عمرابھی  کھانے پینے کی تھی اس نے تو ابھی اپنی آنکھوں میں کوئی خواب بھی نہیں سجایا ہو گا لیکن اس کے والدین اس کو سکول بھیجنے کا ارمان آنکھوں میں سجاۓ ہوں گے کہ کس طرح وہ اپنی بیٹی کو نیا یونیفارم نئے جوتے نئی کتابیں اور نیا بستہ پہنا کے اسکول بھیجیں گے اور ان کی ننھی پری ایک نئی زندگی کی شروعات کرے گی لیکن ان کو کیا پتہ تھا کہ ان کے ارمانوں کا قتل ہونے والا ہے اور ان کی خواہشات کو منوں مٹی تلے دبا دیا جانا ہے اور وہ نئی زندگی شروعات سے بھی پہلے ختم ہونے والی ہے.
فریال بھی بچوں کی طرح گلی میں کھیل رہی ہو گی اور چیز کے بہانے کوئی درندہ صفت شخص اس کو لے گیا ہو گا اور وہ ہنستی مسکراتی اسے انکل کہتی اس کے ساتھ چل پڑی ہو گی لیکن اس ننھی کلی کو کیا معلوم کہ انکل نہیں بلکہ درندہ صفت آدمی ہے اور اس کو مسلنے لے جا رہا ہے اس سفاک داستان کو لکھتے ہوۓ ہاتھ کانپنا شروع ہو جاتے ہیں اور دل خون کے آنسو رونے لگ جاتا ہے کہ وہ معصوم بچی جس کو صحیح سے بولنا بھی نہیں آتا اس کو مسلتے اس درندے کے نہ ہاتھ کپکپاۓ نہ ضمیر نے جھنجھوڑا.
زندگی کی تلخیوں سے ناواقف ننھی گڑیا جو کہ تھوڑی سی بھی موسم کی تلخی نہ برداشت کر سکتی تھی ظالم  اپنی ہوس کا نشانہ بنا کے دسمبر کی منفی ڈگری سینٹی گریڈ والی سخت شب میں نیم مردہ حالت میں باہر پھینک کے فرار ہو گیا. اتنے ظالم تو جنگل کے درندے بھی نہیں جتنا سفاک انسانوں کی شکل میں یہ درندہ ہے  سسکیوں کی حالت میں کس طرح یہ ننھی پری اپنی ماں کو پکار رہی ہو گی اور اپنے بابا کے انتظار میں ہو گی کیونکہ وہ اسے کبھی بھی دکھ اور تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن آج یہ کلی جو ہمیشہ کے لیے مسلی جا رہی ہے ہمارے لیے کئی سوالات چھوڑ کے جا رہی ہے کہ کب تک بنت حوا حوس کا شکار رہے گی کیا بیٹی ہونا جرم ہے آخر کب ہماری عصمتوں کی حفاظت ہو گی اور کب ان درندوں کو نشان عبرت بنایا جاۓ گا؟ اگر ایسے سفاک درندوں کو نشان عبرت بنایا جاتا اور ان کو سرعام پھانسی کے پھندوں پہ لٹکایا ہوتا تو آج اس طرح کے واقعات کبھی بھی رونما نہ ہوتے اور زینب کے بعد کوئی بھی کلی درندوں کی حوس کا نشانہ نہ بنتی. خدارا اپنی آوازوں کو بلند کریں اور اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں یہ نہ ہو آنے والے وقت میں ہماری بیٹیاں اس سفاکیت کی شکار جائیں اور پچھتاوا ہمارا مقدر بنے لیکن ہم نے ایک امت اور واحد ملت بن کے اس ناسور کو اکھاڑنا ہے.
جب تک اس ملک میں کسی بھی جرم کی سزا اسلامی قوانین کے مطابق نہیں ہو گی وہ جرم کبھی بھی جڑ سے ختم نہیں ہوگا.
ہمارا حکومت وقت سے مطالبہ ہے خدارا معیشت اور سیاست کے مسائل سے نکل کر معصوم کلیوں کے بارے میں بھی قوانین بنائیں اور سخت سزا کے نفاذ کے لیے اسمبلیوں میں قرارداد منظور کریں اور اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے اور بچوں کی عصمت کے تحفظ کے لیے ایک کمیٹی بنائیں جو ان کے تحفظ کے لیے کردار ادا کر سکے تاکہ جلد از جلد ملزمان قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہوں اور ان کو سرعام پھانسی کے گھاٹ اتارا جاۓ تاکہ آئندہ کوئی بھی سفاک درندہ اس طرح کی گھناؤنی حرکت کرنے کا تصور بھی نہ کر سکے.
آج وہ ننھی کلیاں جنت میں ابراھیم علیہ السلام کی پرورش میں ہوں گی اور اپنے والدین کی بخشش کا ساماں بنیں گی اللہ سے دعا گو ہیں اللہ ان کے والدین اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں آمین ثمہ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply