موت۔۔۔رمشا تبسّم

کہتے ہیں‏ جب تک زندگی لکھی ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے اور جب موت کا وقت آجائے تو زندگی خود جاکر موت کو گلے لگا لیتی ہے،زندگی سے زیادہ کوئی جی نہیں سکتا اور موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا۔

سبھی نہیں مگر ہم میں سے اکثریت مرنا بھی نہیں چاہتی اور یہ بھی سوچتی ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ مختلف نظریات و عقائد رکھنے والوں میں یہ خیالات مختلف سمتیں اختیار کرتے ہیں۔ آخرت پر یقین رکھنے والے اسے کسی دوسری طرح سوچتے ہیں اور آخرت پر یقین نہیں رکھنے والوں کا نظریہ مختلف ہے۔ مرنے کے بعد شروع ہونی والی زندگی پر کوئی سوچے نہ سوچے، اسے مانے نہ مانے لیکن پیچھے  رہ جانے والوں کے بارے میں ضرور سوچتا ہے۔اس میں سب سے زیادہ یہ سوچ  حاوی ہوتی ہے کہ میرے بعد قریبی رشتہ داروں کا کیا ہو گا۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ خیال آ رہا ہے کہ ابھی آپ کو تبلیغ کرنے والی ہوں، تو ایسا خیال نکال دیجیے۔ بس ”میرے مرنے کے بعد دنیا میں کیا ہو گا“ کے ایک خاص نکتے کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کروں گی۔

کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد آیا لوگ ہمیں یاد کریں گے یا نہیں؟ اگر کریں گے تو کتنے لوگ کریں گے اور اچھے الفاظ میں یاد کریں گے یا بُرے میں؟ میرے مرنے سے دنیا کو فرق پڑے گا یا نہیں؟ میرا خیال ہے کہ حساس لوگوں کی اکثریت کے ساتھ ساتھ اس نکتہ پر وہ لوگ کچھ زیادہ ہی سوچتے ہیں، جو تھوڑا بہت سماجی کاروائیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کا حلقہ احباب تھوڑا وسیع ہوتا ہے۔ جب ان کے جاننے والوں میں سے کوئی مر جاتا ہے تو مرنے والے کو جس انداز میں لوگ یاد کرتے ہیں، تو اس سے اکثر کو یہ خیال آتا ہے کہ،میرے مرنے کے بعد یہ لوگ مجھے بھی یاد کریں گے یا نہیں؟ یہ سوال وہ لوگ اور بھی زیادہ سوچتے ہیں جن کے اردگرد کے لوگ ان کے منہ پر کچھ زیادہ ہی ”واہ واہ“ کرتے ہیں۔ شعوری یا لاشعوری طور پر کئی لوگ اس سوال کا جواب پانے کے لیے  مختلف حرکتیں تک کر جاتے ہیں اور کئی لوگ اکثر جگہ اپنے مرنے کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ جب میں مر جاؤ گا تو یہ ہو گا، وہ ہو گا۔ ”ہر ٹوٹا ہوا جام ہمیں یاد کرے گا“۔

اکثریت کو اپنا آپ اچھا، بڑا یا انوکھا لگتا ہے، اس لیے کئی لوگ خود کو مطمئن بھی کر لیتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد بہت لوگ مجھے یاد کریں گے اور ایک دفعہ تو دنیا رُک جائے گی۔ بس پھر اسی کی تصدیق کے لیے  انوکھی انوکھی حرکتیں بھی کرتے ہیں اور لوگوں سے تصدیق بھی کرواتے ہیں۔

اگر آپ بھی ایسا سوچتے ہیں تو یقین کریں، واقعی آپ کے مرنے کے ساتھ ایک دنیا مرے گی، ایک دنیا رک جائے گی، ایک قیامت برپا ہو گی۔ لیکن وہ ”دنیا“ باہر کی دنیا نہیں ہو گی بلکہ وہ آپ کی اپنی دنیا ہو گی۔ ہر انسان اپنے اندر ایک ”دنیا“ ہے، اس لیے  ہر انسان کے مرنے کے ساتھ ایک اپنی ”دنیا“ مرتی ہے۔ اس کے علاوہ مرنے والے سے محبت کرنے والے لوگ تھوڑے بہت متاثر ہوتے ہیں اور انہیں اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن وقت بہت زبردست مرہم ہے۔ آہستہ آہستہ وہ  ہر کمی کو دور کر دیتا ہے اور بہت جلد دنیا واپس اپنے کام میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی سوچے کہ اس کے مرنے کے ساتھ باہر کی دنیا بھی ایک دفعہ رک جائے گی یا دنیا کو لمبے عرصے کے لیے  کوئی فرق پڑے گا تو یقین کریں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ اس دنیا کو کسی کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

البتہ کسی کے اچھے یا برے کام سے مرنے کے بعد بھی فرق پڑتا ہے۔ خیر یہاں ہر لمحے انسان پیدا ہو رہا ہے اور مر بھی رہا ہے۔ یہ دنیا یونہی روزِ  اوّل سے چل رہی ہے اور قیامت تک چلتی رہے گی۔ بلکہ میرے خیال میں جب اس دنیا میں کسی انسان کی ضرورت باقی نہیں رہتی تو تبھی وہ مرتا ہے۔ ہر بندے کی دنیا میں رہنے کی ایک مدت ہے اور اسی مدت کے دوران ہی دنیا کو اس کی ضرورت رہتی ہے۔ اِدھر ضرورت اور مدت ختم ہوتی ہے تو اُدھر انسان ختم ہو جاتا ہے۔ اس دنیا میں اگر کچھ زندہ رہتا ہے تو وہ انسان کا کام ہے، ورنہ یہاں تو بڑے بڑے تیس مار خاں کو بھی موت نے آ گھیرا۔ بقول شاعر
دارا اور سکندر جیسے شاہِ عالی شان
لاکھوں من مٹی میں سو گئے بڑے بڑے سلطان
تیری کیا اوقات ہے بندے کچھ بھی نہیں ہے تو
میرے خیال میں یہ بھی اس دنیا کا ”حسن و خوبی“ ہے۔

اور پیچھے رہ جانے والوں کے لیے  ایک حساب سے یہ نعمت بھی ہے کہ مرنے والوں کو وہ بھول جاتے ہیں یا ان کی یاد کم ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جو ہمارے پیارے فوت ہو چکے ہیں، ہم آج تک ان کی یاد اور غم میں ہر وقت تڑپتے رہتے۔ جب ہر کوئی غم سے نڈھال ہوتا تو اس دنیا کا نظام رک جاتا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے مرنے سے دنیا رکے گی یا نہیں؟ کسی کو کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟ کتنے لوگ ہمیں یاد کریں؟ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے اپنوں کا کیا ہو گا؟ ایسے سوال سوچنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ جس نے ہمارے اپنوں کو اس دنیا میں بھیجا ہے، وہ ہم سے بہتر جانتا ہے کہ ان کا کیا کرنا ہے۔ جو پوری دنیا کا نظام چلا رہا ہے وہ ہم سے بہتر کارساز ہے، اس لیے  وہ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے جو کرے گا بہتر کرے گا۔ بلکہ ہمیں توجہ اس بات پر دینی چاہیے  کہ جب تک زندہ رہیں تو ایسے رہیں کہ لوگ ہماری زندگی کی دعا کریں اور جب مریں تو کوئی یاد کرے نہ کرے مگر دنیا کو ہمارے کیے گئے کام سے فائدہ ہو، کیونکہ انسان زندہ نہیں رہتا جبکہ اس کا کام باقی رہ جاتا ہے۔ کچھ ایسا کریں کہ ہم مریں بھی تو اپنے حصے کا چراغ جلا کر مریں۔ ہمارے مرنے کے بعد جب لوگ ہمارے جلائے ہوئے چراغ کی روشنی سے فائدہ اٹھائیں گے تو ہمیں مر کر بھی فائدہ ہو گا اور ہم مر کر بھی زندہ رہیں گے۔ یوں جینے کا بھی مزہ آئے گا اور مرنے کا بھی۔ بے شک انسان ایک نہ ایک دن مر جاتا ہے، مگر انسان کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

ویسے میں سوچتی ہوں کہ جو لوگ اپنے آپ کو اور اپنے کردار کو سمجھتے ہوئے ہر وقت اچھے سے اچھا کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں، انہیں موت کی فکر نہیں ہوتی، نہ ہی پیچھے رہ جانے والوں کی اور نہ ہی انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ لوگ یاد کریں گے یا نہیں۔ ایسے لوگ بس اس دنیا میں اپنا کردار بخوبی ادا کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں اور انہیں جس لمحے بھی موت آئے، وہ اسے خوشی سے قبول کرتے ہیں اور یہی سوچتے ہیں کہ یہیں تک ان کی دنیا تھی، یہیں تک دنیا کو ان کی ضرورت تھی اور یہیں تک ان کا کردار تھا۔

واصف علی واصف نے کہا۔
زندگی موت کے تعاقب میں ہے اور موت زندگی کے پیچھے آرہی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی تلاش میں ہیں جب تک دونوں میں سے ایک ختم نہیں ہوتا۔ یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ زندگی کے دامن میں بے پناہ اور بے شمار نعمتیں ہیں اس میں خواہشیں ہیں، اس میں امیدیں ہیں، مایوسیاں ہیں، صداقتیں ہیں، میلے ہیں اور تنہائیاں ہیں۔
کچھ لوگ کسی اپنے کی موت کی جیت کے بعد زندگی کے دامن میں امید کی جگہ نا امیدی کو جگہ دیتے ہیں, میلے کی جگہ ویرانیوں کو اپناتے ہیں,کامیابیوں کی جگہ ناکامیاں دامن میں بھرتے جاتے ہیں۔موت کے اندھیرے کو دیکھ کر دنیا کی تمام روشنیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔

اورکچھ لوگ مرحوم “محمود الحسن صدیقی صاحب” کے معاذ بن محمود کی طرح زندگی کی ہر ٹھوکر سے نیچے گرنے کے بعد، مشکلات کی گرد جھاڑتے ہوئے پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ  انکے مطابق زندگی میں زندگی کی رمق باقی رہتی ہے۔ اٹھ جاتے ہیں کی حد باقی رہتی ہے۔ جہد باقی رہتی ہے۔ اٹھتے ہیں۔۔۔ کہ لڑائی ابھی باقی رہتی ہے۔یہ زندگی کے دامن میں امیدیں سمیٹتے ہیں, خوشیاں اکھٹی کرتے ہیں ناامیدی کو امید میں بدلتے ہیں, خواہشوں کو پورا کرنے کی جدو جہد جاری رکھتے ہیں۔جیتے ہیں کہ  ان کو دیکھ کر جینے والے  زندہ رہ سکیں۔۔زندہ رہتے ہیں کہ  کسی مقام پر موت سامنے آ کھڑی ہو تو اس کو گلے لگانے سے خوف محسوس نہیں کرتے۔یہ لوگ نہ صرف زندگی کو زندہ رکھتے ہیں بلکہ موت کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر بھلا موت کی کیا مجال کہ  ان کو اپنے اندھیرے سے ڈرا سکے۔۔پھر موت بھی ایک اجالا محسوس ہوتی ہے۔۔ایک نئی جدو جہد کا سفر معلوم ہوتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply