بارشیں، ہلاکتیں اور بجلی کا نظام ۔۔۔احمد علی کیف

جس مرد کو عورت اور سیاست میں دلچسپی نہ ہو، اس کی مردانگی پر شک کرنا چاہیے۔
یہ جملہ 2010ءکے بعد سنا تھا۔ اس سے قبل جس محفل میں سیاست کی بات ہو رہی ہوتی تھی، میں اس محفل سے اٹھ جاتا تھا۔ اگر نہ اٹھ سکتا تو ایک بات ضرور کہتا کہ کیا سوائے سیاست کے دنیا میں کوئی موضوع نہیں بچا۔

یہ ایک الگ بحث ہے۔ اصل مقصداس سیاست میں عمران خان کا آنا، کوشش کرنا، تبدیلی کی امید دلانا، ریلیف کا وعدہ کرنا اور پھر حکومت میں آنا۔ حکومت میں آ کر انھوں نے بقول ان کے جو سخت فیصلے لیے وہ عوام پر کچھ زیادہ ہی سخت گزرے ہیں۔ انھوں نے یہ نہیں کیا کہ صرف مہنگائی میں اضافہ کیا، بلکہ ہر طرح سے عام آدمی کو جکڑ کر رکھ دیا۔ ان سب چیزوں میں گزشتہ حکومتوں کے سر ہر مسئلہ تھوپ کر خود کو بری الذمہ بھی قرار دے دیتے ہیں۔
تقریباً یہاں سبھی لوگ کسی نہ کسی طور نوکری کر رہے ہیں، جب نوکری کے لیے اشتہار دیا جاتا ہے تو ساتھ مطالبات لکھے جاتے ہیں کہ فلاں فلاں چیزیں آنا ضروری ہیں، جب آپ انٹرویو یا میٹنگ کے لیے جاتے ہیں تو کمپنی کی جانب سے اس کے مسائل سامنے رکھے جاتے ہیں یا ذمہ داریاں کہ یہ سب مسائل یا ذمہ داریاں ہیں جن کو آپ نے نبھانا ہے۔نوکری کرنے والا اگر دل مانے یا اہلیت رکھتا ہو تو وہ پیشکش اور چیلنج قبول کر لیتا ہے ورنہ انکار کر دیتا ہے۔
عمران خان پر جب وزیراعظم بننے کا بھوت سوار تھا، تب ان کو باور ہونا چاہیے  تھا کہ پاکستان کا وزیر اعظم بننے کا مطلب موجود تمام مسائل کو حل کرنا ہے، اس سے قبل ہزارہا دعوے کیے گئے اور 100روزہ پلان سمیت کئی سبز باغ دکھائے گئے۔ اگر تمام باتوں کا ادراک تھا تو دعوے کیوں کیے ؟اگر کر ہی لیے اور خود کو اہل سمجھ کر وزارت عظمیٰ کی نشست پر براجمان ہو گئے تو پھر کیوں دوسروں پر الزام تراشی کرتے ہوئے خود کا دامن بچا رہے ہیں؟۔

یہ سیاست ہی تھی جس میں عمران خان اترے اور اس عہدے پر آن بیٹھے۔ اب جب ان کو تمام چیزوں کا ادراک ہو گیا ہے تو پھر یا تو ان کو درست کریں یا پھر ایک طرف ہو جائیں۔ اس طرح کا واویلہ کرنے سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کی ایسی حرکات کی وجہ سے عوام آئندہ آنے والے اور امید دلانے والے لوگوں سے بھی اعتبار اٹھ جائے گا۔ ان کی آمد سے ایک طرف مہنگائی کا طوفان برپا ہوا تو دوسری جانب عوام کے لیے ہر شعبہ میں مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہوتے چلے گئے۔ ایک عام آدمی جس کی تنخواہ 30 ہزار تھی اس کے لیے مکان کا کرایہ بارہ ہزار اور چینی پچپن روپے کلو تھی ، اس کا کرایہ پندرہ ہزار جبکہ چینی اسی روپے کلو ہو گئی وہ کس طور ریلیف حاصل کر رہا ہے اور عمران خان کی حکومت سے خوش ہے۔
گرمی کے مارے عوام بارش کو ترس رہے تھے، جبکہ بارش آئی تو ملک کا سب سے بڑا شہر ایک ایسا منظر پیش کرنے لگا جس کو دیکھ کر کوئی بھی خوف زدہ ہو جائے۔ پانی سے شہر قائد کا نقشہ ہی بدل گیا، عوام ہراس میں مبتلا ہو گئے۔ وفاقی حکومت جس کو مرکز سونپا گیا اس نے ایک طرف چپ سادھ لی اور عوام کی نظریں صوبائی حکومت کی تمام تر ناکامی  پر جا ٹکیں۔ وزیر اعظم نے نوٹس لیا اور اہم ہدایات جاری کردیں۔ کیا وہ نوٹس صرف ٹیلی وژن پر ٹکرز چلوانے کے لیے تھایا تمام سرکاری و غیر سرکاری چینلز پر بریکنگ کے مقصد پر مبنی تھا۔ اس سے کیاتدارک ہوا؟

بارشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین اور بچوں سمیت 14افراد زندگی کی ڈولتی ناؤسے موت کے گہرے پانیوں میں اتر گئے۔ یہ بارشیں ایک طرف رہ گئیں، بارشوں کے پانی کے ساتھ وہ بجلی جو دو دن تک غائب رہی، نے سنگم بنایا اور موت کا ریلہ بن کر پہنچ گئی۔ روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی موت کے تاریک سایوں کے بیچ گِھر کر رہ گیا۔ بجلی کے نظام سے متعلق کتنے ہی فیصلے ہوئے، کتنے ہی دعوے کیے گئے، ترسیلی کا نظام بہتر بنانے کے اعلانات بھی سامنے آئے لیکن نتیجہ۔۔۔

وطن عزیز کا وہ کون سا شہر ہے جہاں پر بجلی کی ترسیل درست طریقے سے ہو رہی ہے۔ کہیں پر کرنٹ زیادہ جا رہا ہے جس سے ایک طرف تار پگھل جاتے ہیں تو دوسری جانب سے ٹرانسفارمر  جلنے کی وجہ بھی بن رہا ہے۔ 2017 اور 18 کے مالی سال میں لائن لاسز کی مد میں 100 ارب کا خسارہ ملکی خزانے پر پڑا۔ یہی نہیں بلکہ ہر سال بجٹ میں ایک بڑا حصہ پاور سیکٹر کے لیے رکھا جاتا ہے۔ پاور سیکٹر میں ٹرانسمیشن لائن کی اپ گریڈیشن اور ترسیلی نظام کو جدید بنانا سر فہرست رکھا جاتا ہے۔ عام آدمی کے دیئے گئے ٹیکس سے اتنا بڑا حصہ تو دے دیا گیا لیکن اس نتیجہ؟ نتیجہ ہر بارش کے بعد سامنے آنے والی ہلاکتیں ہیں۔

یہاں اس امر کی نقاب کشائی بھی ضروری ہے کہ اتنے فرسودہ اور قاتل ترسیل کے نظام کے ہوتے ہوئے آئے روز بجلی مزید مہنگی کر دی جاتی ہے۔ اب ایک بار پھر سے فی یونٹ 6 پیسے بجلی کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ نجی ہسپتال، تعلیمی ادارے اور زرعی ٹیوب ویل بھی اس لپیٹ میں آئے ہیں۔ اخراجات کو قابو کرنے والے اب بجلی کی قیمتوں سے کیسے نمٹیں گے اس کا کسی کو نہیں معلوم۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جس مرد کو عورت اور سیاست میں دلچسپی نہ ہو، اس کی مردانگی پر شک کرنا چاہیے۔
یہ جملہ جس نے بھی کہا ہے درست کہا ہے، کیونکہ سیاست میں دلچسپی کے بعد یہ تمام تر حقائق اس دلچسپی کے ذریعے  نظر میں آئے ورنہ تو عام آدمی پر کیے جانے والے مظالم شاید نہاں ہی رہتے۔ وزیراعظم کو بھی یہ مسائل اور مظالم نظر آنے چاہئیں کیونکہ وہ اس وقت سیاسی گلوب کا مرکز ہےں اور ملک خدا داد کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ الزامات کے ذریعہ بری الذمہ ہونے کی پالیسی اتنی اچھی نہیں ہے جتنی اچھی ان کی شخصیت ہے، اور اس سے بڑھ کر ان سے وابستہ عوام کی امیدیں ہیں جو ٹوٹ رہی ہیں، اس سے پہلے کے تمام تر امیدوں کے چراغ ہی گُل ہو جائیں، سیاسی غیرت کو بیدار کریں اور عام آدمی کو مصائب سے نکالیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply