تختہ مشق ریاست ہونی چاہیے یا سیاستدان، تاریخ کیا کہتی ہے؟

وطن عزیز میں سیاست دانوں پہ تہمت لگانے والے ، ان کی کوتاہیوں پہ چاند ماری کرنے والوں انکو اعلی اخلاقیات کے فضائل سنانے والوں اور انکو بیرونی قوتوں کے آلہ کار قرار دینے والوں کی تعداد ہمیشہ ہی ضرورت سے زیادہ رہی ہے۔ اس رویے کی وجوہات تاریخی بھی ہیں اور سیاسی و سماجی بھی اور ان میں ایک نفسیاتی عنصر بھی موجود ہے۔ تاہم اس رویے کی پیدائش پرداخت اور پاکستانی سیاست کے افق پہ اسکے موجود ہونے کی ایک نہایت بنیادی وجہ ریاستی اداروں میں پایا جانے والا طاقت کا عدم توازان ہے۔
تاریخ دانوں نے اس ادارہ جاتی عدم توازن کی بہت سی وجوہات بیان کیں ہیں اور اسی سلسلے میں عائشہ جلال کہتی ہیں ہے کہ نوآبادیاتی ریاست نے جدید ہندوستانی ریاست کی اداراہ جاتی تشکیل ایک ایسے نظریے کے تحت کی تھی جو کہ ہندوستان کو ایک جغرافیائی اور سیاسی وحدت کے طور پہ دیکھتا تھا اور تحریک پاکستان کے رہنماوں نے اگرچہ دورانِ تحریک اس سیاسی وحدت کے نظریے کو تو مسترد کر دیا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد اسی نظریے کو من و عن پاکستان کے نظریے میں شامل کر لیا گیا۔ عائشہ جلال کے نزدیک یہ اسی نوآبادیاتی ریاستیِ نظریے کا پاکستانی ورژن تھا جو کہ طرزِ حکمرانی کو عوام دوست جمہوری کی بجائے ریاست پسند آمرانہ رکھنا چاہتا تھا۔ اسیلئے رعایا کو شہری بننے کیلئے جن گورننس کے ڈھانچوں کی ضرورت ہوتی ہے کو تریتیب دینا ریاست کی ترجیحات میں کبھی بھی سرفہرست نہیں رہا۔ نو آبادیاتی ریاست کے نظریے کی درآمد کے ساتھ ساتھ ہمارے دور اندیشوں نے نوآبادیاتی ریاست کا سٹریٹجک وژن بھی ساتھ ہی درآمد کر لیا اور خاص طور پہ فوج نے گریٹ گیم کے برطانوی تناظر پہ مبنی ایک پاکستانی ریجنل وژن ترتیب دیا جو کہ آج کی تاریخ میں پاکستان اور افغانستان کو آگ و خون میں ڈبو چکا ہے، تزویراتی گہرائی کا ڈاکٹرائن بینادی طور پہ اسی برطانوی سٹریجک وژن کا ایک پاکستانی چربہ ہے ۔
اسی کالونیل نظریے پہ کھڑے ہونے والے ریاستی ڈھانچوں کی اتھارٹی عوام کے دل میں قائم کرنے کیلئے اور کسی بھی طرح کی مزاحمتی سیاست کا رستہ روکنے کیلئے مذہب کو ایک سہارے کے طور پہ استعمال کیا گیا جبکہ ریاستی ڈھانچوں کی ساخت ، فنکشن اور مقاصد کو قریبا ویسا ہی رہنے دیا گیا جو کہ اس سے پہلے کالونیل ریاست کابھی ہدف تھے مثلا ریاستی خود مختاری اور حاکمیت کا اصول تو 1949 میں ہی طے کر لیا گیا لیکن خود مختاری کے اس اصول کا دائرہ شہری یا انفرادی سطح پہ رسمی طور پہ بھی کہیں ۱۹۷۳ میں جا کے منظور ہوا جب نیو کالونیل ریاست ڈھاکہ میں فوجی شکست کے بعد وقتی طور پہ عوام کی نظر میں حقِ حاکمیت کھو چکی تھی۔
ایسے میں پاکستان میں موجود اسلام پسند دائیں بازو کے نظریاتی گروہوں کے پاکستان میں آزادی اور خودمختاری کے بیانات ایک پراپوگینڈا کی حیثیت سے زائد کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ پاکستانی ریاست اپنی تمام تر بنیادی خصوصیات میں ابھی تک ایک نوآبادیاتی ریاست ہی ہے رہ گئی اسلامی شعائر کی پابندی کی اجازت تو وہ متحدہ ہندوستان میں اس سے بہتر حالت میں موجود تھی۔ حقیقی آزادی جو انفرادی فرد کی اپنی ذات کی تکمیل کی آزادی ہے جو کہ ایک ممکنہ حد تک استحصال سے پاک اور فرد کی انفرادی حقوق کے ضامن معاشرے میں ہی ممکن ہے کا شائبہ بھی موجود نہیں ہے اسی لیے تو فیض نے کہا تھا کہ یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر ،تھا انتظار جس کا یہ وہ سحر تو نہیں ۔صورتحال تو یہ ہے کہ آج بھی پاکستان قانونی اسثنا کے تحت ہی چل رہا ہے اور پھر بھی سکیورٹی ادارے اس اسثنائی بندوبست کے باوجود غیر قانونی طور پہ ہی لوگوں کو اٹھانا اور ٹارچر کرنا مناسب گردانتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سیاست دانوں کے ذریعے ہی 21 ترمیم کروائی جاتی ہے اور پھر اس کے تحت سیاست دانوں کو دہشت گرد قرار دے کے اٹھایا جاتا ہے ۔ بنا ثبوت کے انکو اٹھانے کا مطلب اور مقصد انصاف اور قانون کی عملداری سے زیادہ سیاست دانوں اور سیاست کے بیڈ امیج کو ابھارنے کے علاوہ کیا ہے کیونکہ آخرکار ان کو چھوڑنا ہی پڑتا ہے ۔ ایک سادہ سا سوال جو یہاں اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کیسا قانون ہے جو کہ بنا ثبوت کے ہی ایک ملزم کو مجرم ثابت کرتا ہے اور پھر عدم ثبوت کی بنیاد پہ چھوڑ بھی دیتا ہے۔ اور خبر یہ بنتی ہے کہ ہمارے ادارے تو گناہگاروں کو پکڑتے ہیں عدالتیں ان کو چھوڑ دیتی ہیں کیونکہ پولیس تفتیش ٹھیک نہیں کرتی لیکن کراچی میں تو تفتیش کے اختیارات بھی رینجرز کے پاس موجود ہیں پھر بھی اتنا بڑا سقم کیوں؟ کیا یہ ریاست کی وہی کالونیل سوچ نہیں جس میں ریاستی ایڈمنسٹریٹو بازو کو سیاستدانوں کی چھانٹی کیلئے استعمال کیا جائے؟
تاریخی طور پہ اسی تنقیدی سلسلے کی ایک مثال بھٹو صاحب اور ان کی گورنمنٹ پہ کی جانے والی تنقید ہے کہ ان کی زاتی جاہ و حشمت کی چاہ نے ایک ایسا موقع گنوا دیا جب سیاستدان فوج کو سیولین اتھارٹی کے نیچے لا سکتے تھے۔ اگر ہم شماریات اور پاکستان میں طاقت اور الیکشن کے سماجیاتی تجزیے کی روشنی میں یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ کیا واقعی ۱۹۷۱ ایک ایسا ہی دوراہا تھا کہ جب اس آمرانہ بندوبست کا بستر گول کیا جا سکتا تھا تو جواب نفی میں آتا ہے۔ اگر ہم پاکستان [مغربی پاکستان] میں مختلف جماعتوں کو ڈالے گئے ووٹوں کے تناسب کا حساب لگائیں تو پی پی پی کو صرف ۱۸ فیصد ووٹ پڑے تھے جبکہ اسلامی جماعتوں اور مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کو ملا کے پڑنے والے ووٹوں کی تعداد ۲۷ فیصد تھی، اگرچہ ڈھاکہ میں شکست کے بعد کے بعد فوج کا مورال ڈاون تھا لیکن تب بھی وہ اسلامی جماعتوں کے ذریعے سڑکوں کی سیاست کر سکتی تھی۔ اسلئے بھٹو صاحب کا اقتدار اپنے آغاز سے ہی ادھورا تھا اور انکو بہت سارے سارے سمجھوتے کرنے پڑے اور جب ریاست کو ایک کرشماتی لیڈر کی ضرورت نہ رہی تو پھر ان کو عدالت جو کہ ریاست کا ہی ایک ادارہ ہے کے ذریعے راستے سے ہٹا دیا گیا۔
سماجیات میں اتھارٹی طاقت کے اس تصور کو کہتے ہیں جس میں کوئی جبر شامل نہ ہو بلکہ جن لوگوں پہ حکومت کی جا رہی ہے وہ اس طاقت کو جائز تصور کریں۔ میکس ویبر نے اتھارٹی کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے روایتی اتھارٹی کرشماتی اتھارٹی اور قانونی اتھارٹی ۔ بھٹو صاحب کو اقتدار انکی اسی کرشماتی اتھارٹی کی بنیاد پہ دیا گیا تھا تاکہ فوج اپنے چہرے پہ شکست کی وجہ سے جو کالک ملی جا چکی ہے دھونے کا کچھ انتظام کر سکے اور جیسے ہی ریاست اپنے آپ کو منظم کرنے میں کامیاب ہو گئی تو جو تھوڑی بہت رسمی جمہوریت کا سفر ابھی شروع ہی ہوا تھا اس کو پٹٹری سے اتار دیا گیا ۔ اور عوام پہ ایسے ایسے تشدد کے طریقے آزمائے گئے کہ نو آبادیاتی ریاست کی یاد تازہ ہو گئی۔ ۱۹۷۷ کو گزرے بھی اب چار دہائی بیت گئیں لیکن پاکستان فوج کی ریاست اور طاقت پہ گرفت آج بھی ویسی ہی مضبوط ہے ۔ میرے نزدیک اس کی وجوہات سیاست دانوں کی نا عاقبت اندیسشی میں ڈھونڈنے کی بجائے اس تاریخ نسب نامے میں ڈھونڈنی چاہیے جو کہ انگریز ہمیں دے کر گیا ہے اور دائیں باذو کے نظریہ دان جس نو آبادیاتی دور پہ تین حرف بھیجتے ہیں وہ اپنے نظریاتی، ادارہ جاتی اور تاریخی تسلسل میں ابھی تک جاری ہے۔ ابھی تک حقیقی جمہوریت جس کا مرکز و مقصد فرد کی حقیقی آزادی اور خودمختاری ہے ابھی تو ترجحیات کے تعین میں کہیں بھی نہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیاستدان اگر کرپٹ نہیں ہوں گے اور عوام دوست منصوبے بنائیں گے تو عوام میں ان کی حمایت بڑھے گی اور اس طرح وہ فوج کی کسی بھی غیر آئینی کردار کو روک سکیں گے اس سلیلسے میں ترکی میں اردگان کی مثال بھی دی جاتی ہے۔ میرےخیال میں یہ ایک بہت رومانوی خیال ہے جس میں کسی دوسرے زمان و مکان کے واقعات کو خیال ہی خیال میں پاکستان کے ایک مختلف زمان و مکان پہ لاگو کر کے من پسند نتائج نکالے جاتے ہیں۔ ترکی کبھی بھی ایک نو آبادیاتی ملک نہیں رہا اس کا تعلیمی نظام ، ریاست کی ادارہ جاتی تنظیم و صلاحیت اور جغرافیائی حیثیت پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ ترک ریاست کسی طرح کے نو آبادیاتی سٹریجک وژن اور سیکورٹی پاگل پن کا شکار بھی نہیں رہی اور اس کی آبادی میں لسانی یا قومی تقسیم بھی نسبتا کم ہے جس کی وجہ سے اس کا پالیسی ڈیزائن شروع سے ہی کسی حد تک عوام دوست رہا ہے جبکہ پاکستانی ریاست کا اندرونی اور بیرونی پالیسی کا ڈیزائن ایک طرح کی سڑیجک بے چینی strategic malaiseسے ہی عبارت ہے اگر بین القوامی سطح پہ روابط اختیار کا فیصلہ اسی بے چینی کے زیر اثر لیا گیا اور اس کے دو رس اثرات کو مد نظر نہیں رکھا گیا اس طور پہ اندرون خانہ تعلیمی ، معاشی اور دیگر پالیسی بناتے ہوئے بھی یہی تناظر سامنے رہا ، اگر ایک طرف عالمی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے جدید تعلیمی نظام بنایا گیا تو ساتھ ہی سماج میں اپنے سیاسی طفیلئوں کو مضبوط کرنے کیلئے مدرسہ بھی بنا، اگر مغربی بلاک کو خوش کرنے کیلئے پرائویٹ اداروں کو کھولنے کی اجازت دی گئی تو عرب بلاک کیلئے بھی مذہبی خیراتی اداروں کو پیپنے دیا گیا اگر بین الاقوامی دباو خاص کر امریکی دباو کے تحت لوکل گورنمنٹ بنائی گئی تو غیر جماعتی الیکشن کروا کے قومی سیاست کے افق کو ایک حلقے کی سیاست تک محدود کرنے کی گنجائش بھی نکالی گئی ، ایم این اے ایم پی اے فنڈز جیسی سیاسی ٹیکنالوجیز فوکو کے نظام میں ایسی پریکٹس جس کا مقصد عوام پہ حکومت کرنا ہومتعارف کروائیں گی جس نے بنیادی اشیا کی فراہمی جس کہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کی فراہمی کو بھی سیاسی وفاداری سے مشروط کر دیا گیا اور سب سے بڑھ کہ اپنی تنظیم پہ نازاں فوجی ادارے نے کسی بھی اور تنظیم کو پاکستان میں پنپنے نہ دیا اور ہر چند سال بعد سیاسی جماعتوں پہ پابندی لگائی گئی جو کہ پاکستان میں خاندانی سیاست کی پنپنے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ سیاست دانوں کی 95 فیصد وقت اس بات پہ صرف ہوتا ہے کہ کیسے ووٹرز، امیدواروں اور سپانسرز کے درمیان ایک توازن قایم کیا جا سکے اور حکومت بن جانے کے بعد بھی سارا زور انہی گروہوں کے درمیان توازن کی درستگی میں صرف ہوتا ہے، ایسے میں کوئی بھی نظریاتی اور ْکرپشن سے پاک سیاست آسمان سے ہی گر سکتی ہے۔ جب ایک نظریاتی ریاست جس کا اپنا نظریہ بذات خود ایک کالونیل ریاست کا ہی چربہ ہو اور کوئی نظریہ پنپنے نہیں دیے گی اور جس کی سوچ اور پالیسی کا مرکز عوامی فلاح و بہبود کی بجائے سیکورٹی ہو گا تو اس کی سیاست بھی پھر فن لینڈ یا ناروے کی سیاست بھلا کیسے ہو سکتی ہے۔
اسلئے بجائے صرف سیاسدانوں کو کوسنے کے ضرورت اس امر کی ہے کہ طاقت حقیقتا جن کے پاس ہے ان کا ہی محاسبہ کرنے کی کوشش کی جائے ورنہ کمزور کے گریبان پہ تو ہاتھ ڈالنا سب سے آسان کام ہے۔

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply