امارات پر خدا کا قہر/عنابیہ رضا

پچھلے دنوں یو ٹیوب پر کچھ ویڈیوز نے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرلی ،ان ویڈیوز کے سبسکرائبرز اور ويورز کی تعداد ملینز  میں تھی، ان ویڈیوز میں دکھایا گیا تھا کہ عرب امارات کی ساتوں ریاستوں پرخدا کا عذاب ٹوٹ پڑا ہے دبئی، شارجہ اور دیگر ریاستیں پانی میں ڈوب گئیں ہیں، ہم نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو ہمیں کچھ بھی نظر نہ آیا ،دوبارہ ویڈیوز چیک کیں ، تو معلوم ہوا کہ ویڈیوز کچھ دن پہلے کی تھیں جب بارش کی پیشنگوئی  تھی، ان ویڈیوز میں ریاستوں میں خدا کے عذاب کی وجہ ابوظہبی میں حال ہی میں ہونے والی مندر کی تعمیر اور اسکا افتتاح بتایا گیا ہے۔ انتہائی  شد و مد سے کہا گیا کہ عرب امارات پر بارشوں کی شکل میں اللہ نے عذاب بھیجا ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ یہ انتہائی  ‘نیک بندے’ کس صفائی  سے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کررہے ہوتے ہیں، صرف چینل سے شہرت اور پیسہ کمانے کی غرض سے ۔ عرب امارات میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں،  عرب امارات ایک صحرا ہے جس کی آب و ہوا انتہائی  خشک ہے مغرب اور شمال مغرب کی جانب سے سامنے والے نظاموں کی وجہ سے، جس سے ہر سال چند انچ بارش ہوتی ہے، وہاں بارش کم یا بہت کم ہوتی ہے یہاں مستقبل میں پانی کی کمی امارات کی حکومت کے  لیے  تشویش کا باعث ہے، متحدہ عرب امارات میں کلاؤڈ سیڈنگ ایک حکمت عملی ہے جسے حکومت ملک میں پانی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ کلاؤڈ سیڈنگ کو انسانوں کی تیار کردہ بارش اور مصنوعی بارش بھی کہا جاتا ہے متحدہ عرب امارات خلیج فارس کے خطے میں کلاؤڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک ہے۔ متحدہ عرب امارات کے سائنسدان کلاؤڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے پانی کے  عدم تحفظ کو پورا کرتے ہیں، جو کہ انتہائی گرم آب و ہوا سے پیدا ہوتا  ہے۔
1990 کی دہائی میں، متحدہ عرب امارات نے بارش کو بڑھانے کا طریقہ کار متعارف کرایا جسے کلاؤڈ سیڈنگ کہا جاتا ہے۔ کلاؤڈ سیڈنگ اوپر کے بادلوں سے پیدا ہونے والی بارش کی مقدار کو بڑھانے کا عمل ہے، جسے امارات کے آس پاس کے بنجر علاقوں میں پانی کی کمی کے مسائل کو بہتر بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس تکنیک میں بادلوں کو چاندی کے آئیوڈائڈ، پوٹاشیم آئیوڈائڈ، یا خشک برف جیسے مواد کے ساتھ بیجنا شامل ہے، جو پانی کی بوندوں کے ارد گرد بننے کے لیے مرکز کا کام کرتے ہیں۔
ہم نے امارات میں اپنے عارضی قیام کے دوران نوٹ کیا کہ نومبر 2023 سے اب تک تین مرتبہ بارش کی پیشنگوئی  کی گئی  ہے یہ بارش کی پیشنگوئی  عام طور پر ویک اینڈ پر کی گئی  تھی اسکولوں میں کلاسز آن لائن کردی گئی  تھیں اور لوگوں کو گھروں سے کام کرنے کے  لیے  کہا گیا تھا، شارجہ اور فجیرہ کے علاقوں میں سیلاب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے مگر جلدی ان علاقوں میں سیلاب کی صورتحال کو کنٹرول کرلیا جاتا ہے۔
یہاں قدم قدم پر مساجد ہیں وہاں مندر، چرچ بھی موجود ہیں اس لحاظ سے ابوظہبی میں مندر کی تعمیر کوئی  انوکھی بات نہیں ہے، یہاں ہرمذہب کے لوگوں کو اپنی عبادات آزادانہ کرنے کی آزادی ہے۔
پچھلے دنوں جب ہم دبئی  ائیرپورٹ پر اترے  تو ہمارے ذہن میں عرب بدو، صحرا اور شٹل کاک برقعہ پہنے ہوۓ خواتین گھوم گئیں  ،ائیرپورٹ سے باہر کےدبئی اور  خوبصورت ڈیزائن کی بلند و بالا عمارتوں کو دیکھ کرعرب امارات کا جو بت ہمارے ذہن میں تھا وہ چکنا چور ہوگیا ،دبئی خاص کر ایک انٹرنیشنل شہر بن چکا ہے خاص کر یوکرین جنگ کے بعد یہاں روس سے آنے والوں کی تعداد میں بے تحاشا  اضافہ ہوا ہے، وہ یہاں اپنے کلچر کے ساتھ رہ رہے ہیں، روسی عورتوں کی بڑی تعداد اپنا مغربی لباس پہنے ہوتی ہیں، اسی طرح یہاں یورپ سے آۓ ہوۓ لوگ ایک بڑی تعداد میں فیملیز کے ساتھ رہتے ہیں، جب ان کی خواتین یہاں اپنا مغربی لباس پہنے ہوۓ مالز میں گھوم رہی ہوتی ہیں کوئی  انہیں نہیں گھورتا، کوئی  انھیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کرنہیں دیکھتا، حالانکہ یہاں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور نیپال سے آۓ ہوۓ لوگوں کی بڑی تعداد امارات میں کام کررہی ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان میں ایک خاتون کو ایک عربی کا کیلیگرافی والا لباس پہننے کی وجہ سے ہراساں کیا گیا ،یہاں خواتین اسی طرح کی کیلیگرافی والا عبایہ پہنے ہوتی ہیں۔
رمضان کے مہینے میں یہاں اسکولوں کے آگے ایک فریج رکھ دیا جاتا ہے جس کا دل چاہے کھانے پینے کی چیزیں وہاں لا کراس میں رکھ دے اور جس کو جو چاہیے ہوتا ہے آکر لے جاۓ ۔ مسجدوں میں افطاری کرائی  جاتی ہے ،کوئی  ويڈیوز نہیں بناتا، نہ کو ئی  آٹے  کا تھیلا دیتے ہوۓ تصویریں بنا بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالتا ہے، مسجدوں میں عام سی افطاری کرائی  جاتی ہے کوئی  شترمرغ کی بریانی یا اسپیشل کھانے بنا بنا کر نہیں کھلاتا اور نہ ہی ويڈیوز بنا کر اسکا ڈھونڈورا پیٹتا ہے حالانکہ یہاں مختلف ممالک سے آۓ ہوۓ لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو سالہا سال سے عید، بقرعید پر بھی اپنے گھر نہیں جا پاتے۔
جہاں تک سحری و افطاری میں شترمرغ کی بریانی اور سیٹھ کی مرضی کی بات ہے یہ سیٹھ آخر جے ڈی سی ہی کو کیوں عطیات دیتے ہیں؟ اور بھی تو این جی اوز ہیں جن کا کام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہیں تو کچھ ہے اس سیٹھ کی مرضی کے پیچھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سیٹھ واقعی مخلص ہیں تو کوئی  کارخانہ، کوئی  فیکٹری لگا دیں تاکہ کچھ لوگوں کو روزگار ہی مل سکے، ایک وقت کا کھانا دینے سے بہتر ہے کہ ان کو خود کمانے کے قابل بنا دیا جاۓ ،چی گویرا کے مطابق “کسی کو ضرورت مند رہنے دینا اور پھر اسکی امداد کرتے رہنا ایک سوچا سمجھا قتل ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply