سرِ ورک یا سرِ ورق۔۔۔عارف خٹک

اپنی آنے والی کتاب کےلئے سرِورق برادرم فیصل جوش سے بنوا رہا ہوں۔ پچھلے بیس دنوں سے میں اور فیصل جوش سرِورق کےلئے ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

فیصل نے دو تین آئیڈیاز سمیت اپنی پینٹنگز دکھائیں۔ مگر میں مُصر رہا،کہ نہیں فیصل،لڑکا لڑکی ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے پگڈنڈی پر جاتے دکھانےہیں۔
فیصل بڑی مُشکل سے مان گیا۔مُجھے کہا،لالے اپنی تصویر کسی لڑکی کے ساتھ لے کر بھیجو۔تاکہ میں آپ کی باڈی لینگویج سمیت اسے پینٹ کرسکوں۔
اب لڑکی کہاں سے ڈُھونڈتا۔ دو تین لڑکیوں کو فون کیا،مگر تصویر کا نام آتے ہی اُنھوں نے منع کردیا۔ ذہن میں آیا کہ صُہیب جمال کے پاس آج کل بیروزگار ماڈل لڑکیاں مکھیاں مار رہی ہیں۔ کیوں کہ جب سے خان صاحب کی حکومت آئی ہے،بقول صُہیب جمال کے میراثیوں کے گھر کے چُولہے بھی ٹھنڈے ہوچکے ہیں۔ پھر سوچا،ایک تصویر بنانے کے دس ہزار دوں،اس سے اچھا ہے گلستانِ جوہر کی عائشہ آپا کے کوٹھے پر چلا جاؤں۔ جوش کا فون آیا کہ ہاں بھئی تصویر کا کیا بنا؟میں آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ تو جوش نے میری مُشکل آسان کرتے ہوئے کہا،یار ایک کام کرو۔ بھابھی کے ساتھ ایسی تصویر لے کر مُجھے بھیج دو۔میں پینٹ کرلوں گا۔
چاروناچار بیگم کی کمر کے گرد بڑی مُشکل سے ہاتھ ڈالا اور اُس نے پُورا بازو میری کمر کے گرد حمائل کرتے ہوئے ایک تصویر بنا ہی ڈالی۔خیر تصویر بُہت پُرجوش انداز میں جوش کو بھیج دی۔یہ سوچ کر کہ اب کونسا بہانہ کرے گا۔
تین دن پہلے کوٹھا جوش پر بیٹھے اپنے ناول کے کردار ڈسکس کررہے تھے،کہ یاد آنے پر جوش سے پُوچھا۔ یار وہ سرورق کا کیا بنا؟جوش آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ میں نے آنکھیں دکھاتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔بیس دن ہوگئے ہیں،ابھی تک آپ نے پورٹریٹ کا سکیچ بھی نہیں بنایا؟اور ادھر اپنے علی سجاد شاہ ایک ہفتے میں کتاب سوچ کر چھاپ بھی دیتے ہیں۔ اپنے اُستاد ظفر جی مکران کے ساحلوں پر “شگوفے” شاپر میں بھر بھر کر قارئین کو نوید سنا رہے ہیں،کہ بہت جلد “حاتم طائی جدید” ان کے ہاتھوں میں ہو گا۔اور یہاں میں کتاب کو تو چھوڑو، سرورق کے لئے آپ کے پیر پڑ رہا ہوں،پر بات پھر بھی نہیں بن رہی۔
جوش نے نظریں چُراتے ہوئے کہا یار عارف بھائی میں کیا کروں؟میں نے بُرا سا مُنہ بناتے ہوئے کہا،آپ کر بھی کیا سکتے ہو؟فیصل جوش،جوش میں آتے ہوئے گویا ہوئے۔ “آپ نے بھابھی کے ساتھ جو تصویر بھیجی ہے۔ پچپن اِنچ کی کمر کتاب کے سرورق پر کُجا دس فٹ کے کینوس پر بھی آجائے، تو غنیمت ہے۔ آپ کو کہا تھا کہ لڑکی کی تصویر چاہیے۔ آپ کا ناول اتنا سنجیدہ ہے اگر اس پر میں یہ تصویر چھاپ دوں تو کیا قارئین اس کو قبول کرلیں گے؟کیا یہ کتاب صرف پشاور اور کابل میں بکے گی؟کمال کرتے ہو لالے،ایسا تھوڑی ہوتا ہے؟پھر ڈھائی من کا احسان مُجھ پر لادتے ہوئے بولا۔اچھا چھوڑ میں خود ڈیزائن کرتا ہوں۔
یہ تحریر لکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں،کہ اگر یہ مضمون بیگم نے پڑھ لیا، تو میرا عمرہ تو گیا ہی سمجھو۔ساتھ میں کئی  دن تک گھر میں فیصل جوش کی اگلی پچھلی سات نسلوں کی جو قصیدہ خوانی ہوگی،وہ الگ سے ہے۔انشاءاللہ من و عن یہیں چھاپوں گا۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply