کیا آپ بھی کسی “فوبیا”میں مبتلا ہیں؟۔۔۔ضیغم قدیر

آئیے آپ کو جرمو فوبیا نامی دماغی خلل کا ایک حقیقی قصہ سناؤں جس میں مریض کو یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ اسکے گرد جراثیم ہی جراثیم ہیں اور وہ ڈپریشن اور انگزائٹی کا شکار ہو کر خودکُشی تک کرنے پہ آجاتا ہے۔
جارج ایک عام سا شخص تھا۔ اُسکی شادی اُسکی مرضی کی لڑکی کیساتھ ہوئی۔ دونوں میاں بیوی میں حد درجہ کی انڈرسٹینڈنگ تھی۔ اتنی کہ وہ پچھلے گیارہ سال سے اکھٹے تھے۔ اُنکے دو بچے بھی تھے۔ مگر کُچھ عرصہ سے اُس کی بیوی کو ایک نیا خوف لاحق ہو چُکا تھا۔ اور وہ خوف تھا جراثیموں کا۔۔

یوں تو جراثیم ہر جگہ پائے جاتے ہیں مگر جارج کی بیوی کو جرموفوبیا نامی ایک سائیکولوجیکل بیماری لاحق ہو چُکی تھی۔ اس بیماری کے نتیجے میں کیا ہوتا تھا ذرا آپ بھی جانیے۔۔

چاکلیٹ ،کیمسٹری۔۔۔۔۔وہارا امباکر

* جب کبھی جارج کی بیوی پہ پانی کا چھینٹا تک گرتا وہ کپڑے بدل لیتی تھی۔
* جارج نے اگر موبائل پکڑا ہے تو جب وہ موبائل چھوڑے گا تو اُسکو ہاتھ دھونا ہونگے۔ اگر بجلی کا سوئچ آن کیا ہے تو بھی۔
* بیوی کو ٹچ کرنا ہے تو ہاتھ دھو کر۔ بیوی کی اس بیماری کی وجہ سے جارج کو ہفتے میں تیس سے پینتیس دفعہ نہانا پڑتا تھا۔
* اُسکی بیوی دن میں دو تین بار کپڑے ضرور بدلتی تھی۔
* فقط ہاتھ نہیں دھونے بلکہ کُہنیوں تک بازو دھونے ہیں اور اگر اس دوران پانی کا چھینٹا بھی جسم پہ پڑ گیا ہے تو کپڑے ضرور بدلنے ہیں۔

خون کے سیلاب ۔ ماضی کی کہانیاں۔۔۔وہارا امباکر

اس بیماری میں مریضوں کو ہر وقت یہ وہم ہوتا ہے کہ انکے گرد جراثیم ہیں جو اُن کو مار یا نقصان  پہنچا سکتے ہیں اور یہ مریض ایک ہی بات سوچ سوچ کر انگزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک رات جارج نے اپنی بیوی کو اس بات پہ راضی کر ہی لیا کہ وہ صبح ادارہ بحالی مریضاں چلیں گے۔ پہلے تو وہ مان گئی لیکن پھر جانے کے وقت وہ مُکر گئی۔ اور شوہر کیساتھ لڑنے کے بعد خودکُشی کرنے تک آگئی۔ اور پھر جارج کو پولیس کو بلوانا پڑا۔ اب اُسکی بیوی پولیس کی نگرانی میں علاج کروا رہی ہے۔

ابھی ریڈٹ پہ یہ قصہ پڑھا ہی تھا کہ نیچے کمنٹس میں ایک اور سائیکولوجیکل بیماری کا ذکر سامنے آگیا جس میں ایک صاحب کے بچے موڈ ڈس آرڈر کا شکار تھے۔ مطلب وہ جذبات پہ قابو نہیں رکھ سکتے تھے۔ اتنے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ اپنے والدین تک کو قتل کرنے اور خود کو مارنے تک آ جاتے ہیں۔

اپنے بچوں کو دنیا کیساتھ جینا سکھائیں۔۔۔ضیغم قدیر

Advertisements
julia rana solicitors london

ان دونوں کیسز اور دیگر سائیکولوجیکل بیماریوں کا آغاز زیادہ تر ہائیپر ٹینشن یا پھر کام کی زیادتی سے شروع ہوتا ہے۔ جس میں کوئی مریض اپنی کیپسٹی سے زیادہ امور انجام تو دیتا ہے لیکن اپنی دماغی صحت کا خیال نہیں رکھتا۔ گو وجوہات دیگر بھی ہوسکتی ہیں لیکن یہ دو واقعات شئیر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آج اگر آپ دماغی طور پہ پُرسکون ہیں تو خدا کا شُکر ادا کریں اور خود کو الجھنوں سے بچا کر رکھا کریں کیونکہ یہ دماغ کی بُنیادیں تک ہلا کر رکھ دیتی ہیں اور ان الجھنوں کا آغاز ایک ہی بات کو زیادہ سوچنے اور حد سے زیادہ کام کرنے سے ہوتا ہے۔ سو اپنا خیال رکھیے گا۔ سوچا کریں مگر مختلف موضوعات پہ، اور ہاں ٹینشن لینے کا نہیں دینے کا ہے۔۔
نوٹ:- اصل کردار کا نام تبدیل کرکے جارج لکھا  گیا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply