• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بے آواز گلی کوچوں سے ۔پاکستانی معیشت پہ چھائے گہرے بادل۔۔۔محمد منیب خان

بے آواز گلی کوچوں سے ۔پاکستانی معیشت پہ چھائے گہرے بادل۔۔۔محمد منیب خان

پاکستان اور پاکستانی کرنسی اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ میں نے اس دور کو بد ترین کیوں کہا اس کے لیے چند اعداد و شمار پیش کرتا ہوں۔ 

 نناوے میں جب ن لیگ کی حکومت گھر بھیجی گئی تو ایک ڈالر کے عوض باون روپے آتے تھے۔ ان باون روپوں میں بھی ان  گیارہ روپے کا یک مشت اضافہ  ایٹمی دھماکوں کے دن ہوا تھا۔ یہ گیارہ روپے ایک رات میں بڑھنا ملکی تاریخ  میں ایک دن میں کرنسی ڈی ویلیو ہونے کا سب سے بڑا واقعہ تھا لیکن اس کے بدلے میں پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔ اس کے بعد  مشرف نے نو سال اقتدار پہ قبضہ جمائے رکھا۔ اس کے اقتدار کے نو سال بعد اپریل دو ہزار آٹھ میں ڈالر کی قدرباون روپے سے سڑسٹھ روپے ہو چکی تھی۔ جبکہ یہی ڈالر اپریل دو ہزار نو میں اسّی روپے کا ہو گیا۔ دو ہزار نو کی پیپلز پارٹی حکومت آٹا چینی اور لوڈ شیڈنگ کے بحران کو قابو نہ  کر سکی اور ڈالر لڑھک کر اپریل 2013 تک اٹھانوے روپے کا ہو گیا۔  یہ ان لوگوں کے لیا لکھا جنہوں نے سیاسی آنکھ 2007 میں فیس بک آنے کے بعد کھولی۔  یا جو سیاست میں عمران خان کے  2011کے لاہور کے جلسے کے بعد وارد ہوئے۔ 

مئی  2013 میں ن لیگ کی حکومت آئی جہاں  ایک طرف آٹا چینی اور لوڈ شیڈنگ کا بحران قابو میں کیا وہاں  دہشت گردی کے ساتھ ساتھ معاشی بحران پر بھی قابو پایا گیا۔ میرا یہ دعوی کس قدر درست ہے اس کے لیے 2013، 2017 اور آج کے دن کے معاشی اعداد و شمار دیکھ لیں۔ جولائی سترہ میں جب ن لیگ کی  حکومت کو شدید عدالتی زلزلے کے نتیجے میں زمین بوس کیا گیا تو اس وقت ڈالر کی قیمت  ایک سو چار روپے تھی۔  ن لیگ کی حکومت کیخلاف ہونے والی ساری سازشوں کے باوجود  بھی پاکستانی کرنسی  چار سال اتنی مستحکم رہی۔ کیوں مستحکم رہی؟ کیونکہ لوگوں کو امید تھی نواز شریف سے۔ تاریخی طور پہ اس ملک کے عوام میں سے کاروباری حضرات کو نواز شریف سے جبکہ غریب مزدور کو پیپلز پارٹی سے امید وابستہ رہی ہے۔ لوگ دلیل دیں گے کہ اس کے بعد بھی تو الیکشنز تک ن لیگ کی ہی حکومت تھی  تو ڈالر کیوں بڑھا۔ لیکن وہ دلیل دیتے ہوئے یہ بات یکسر نظر انداز کر دیں گے کہ بزنس مین ملک میں سیاسی استحکام کی وجہ سے کاروبار کرتا ہے جونہی اس کو عدم استحکام کی بو آئے وہ اپناسرمایہ لگانے سے ہاتھ روک لیتا ہے۔ نواز شریف کے جاتے ہی جو سیاسی عدم استحکام چار سال سے دکھانے کی کوشش کی جا رہی تھی اس پہ مہر ثبت ہو گئی اور کاروباری حضرات نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

اس بات کو مزید سمجھنے کے لیے تازہ مثال اسد عمر کا حالیہ بیان ہے۔ گو کہ تحریک انصاف کی حکومت کو قائم کیے ہوئے ابھی صرف آٹھ ماہ ہوئے ہیں اور یہ وہ حکومت ہے جو عوام کے ان ناراض طبقات کی امیدوں کا محور ہیں جو ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے مایوس تھے۔ لیکن یہ حکومت معاشی حوالے سے اتنی جلدی اپنی ساکھ کھو چکی ہے کہ دو روز قبل ہی اسد عمر نے بیان دیا کہ افواہ پھیلانا بند کریں کرنسی مزید ڈی ویلیو نہیں ہو گی اور آج کے اخبارات میں خبر آ گئی کہ ڈالر مارکیٹ سے غائب ہو گیا ہے اور آج کے روز ڈالر کی قدر ایک سو اڑتالیس روپے ہے۔ اس پہ عوام کیا کہے؟ صرف اتنا کہ تبدیلی آئی رے۔۔۔۔

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply