خواجہ سراؤں کی طرح عورت بھی ادھوری تھی/عثمان انجم زوجان

کوئیر کمیونٹی کے وہ افراد جن کو ہیجڑا، زنانہ اور ٹرانس جینڈر کہا جاتا ہے وہ کوئی دوسری دنیا کی مخلوق نہیں۔ یہ بھی ویسے ہی پیدا ہوتے ہیں جیسے ایک مرد اور عورت، پھر بھی ان کو یہ معاشرہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

ہمارے اسکولوں کے نصاب کی کتب اٹھا کر پڑھ لیں کہیں پر بھی مرد اور عورت کے علاوہ قدرت کی اس ادھوری مخلوق کا نام نہیں۔

اتنا کچھ برداشت کرتے کرتے ان کو لگنے لگا تھا کہ اگر ہمیں جینا ہے تو ظلم و تشدد، جنسی ہراسانی سب کچھ برداشت کرنا ہوگا۔لیکن اب ہیجڑے جاگ رہے ہیں اور اپنا حق لے کر رہیں گے۔

اہل علم یہ بات جانتے ہیں کہ ایک وہ وقت تھا کہ جب عورتوں کو بھی ہیجڑوں کی طرح مردوں کے برابر نہ سمجھا جاتا تھا بلکہ ادھوری اور نامکمل تصور کر کے ہر طرح حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

اس نظریہ کو ارسطو نے بھی پیش کیا کہ عورت کی پیدائش ناقص العقل اور ادھوری اور نامعکمل ہے۔ ارسطو ہی نہیں، دوسرے یونانی مفکروں کے نزدیک بھی عورت تمام برائیوں کی جڑ تھی۔یونانی مفکرین کے اس نظریے نے نا صرف یونان، بلکہ آگے چل کر عیسائی دنیا میں بھی عورت کے بارے میں ان خیالات کو مستحکم کیا۔لیکن بیسویں صدی آتے آتے آج عورتوں کو مردوں کے برابر سمجھا جانے لگا اور انسان جانا جانے لگا ،یہاں تک کہ جو حقوق ایک مرد کو ملتے ان حقوق سے عورت کو محروم نہیں کیا جاتا۔

عورتیں تو مکمل اور پوری ہو گئیں، اب کوئیر کمیونٹی کے ادھورے  لوگوں کو بھی مکمل اور پورا ہونے میں دیر نہیں، ان کو بھی مکمل  سمجھا جائے گا،ان کو بھی انسان جانا جائے گا اور حقوق سے محروم نہیں رہیں گے، اب ان ہیجڑوں کا بھی دور آئے گا۔

میں معروف و مشہور شاعرہ صفیہ حیات کی مشکور ہوں کہ انہوں نے ہم ہیجڑوں کے اس درد و رنج و الم کو اپنی نثری نظم “ادھورے وقت کے مکمل لوگ”میں اس کمال مہارت سے لکھ کر ہمارے مردہ دلوں کو زندہ کر دیا۔

ادھورے وقت کے مکمل لوگ

خواجہ سرا!
تم ایک مکمل انسان ہو!
بہترین تخلیق ہو!
کیا کمی ہے تم میں جو ہراساں سی دکھائی دیتی ہو!
سنومیری دوست
خواجہ سرا!
یہ نتھنی اتار پھینکو!
یہ غلامی کی نشانی ہے!
نفرت کی نظر کو پیار بھری مسکراہٹ سے بھگادو!
وقت کا ہر ہر لمحہ
جب بھی تم چاہو
کہیں بھی جانا چاہو
جاوء
ذومعنی جملوں کی آوازوں پہ کان مت دھرو!
آوازیں کسنے والے تو خود
ادھورے وقت کے
ادھورے لوگ ہیں!
خواجہ سراکو دیکھتے ہی اکثر نامکمل لوگوں کے چہروں پہ تمسخرانہ ہنسی کھلینے لگتی ہے۔ شاید وہ ان کے مکمل پن سے گھبرا جاتے ہیں!
خواجہ سرا کو دیکھ کر مقدس صحیفوں میں انکا ذکر نہ پاکر مجھے یوں لگا کہ انکا وجود بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتا ہے!
انکا وجود یہ بھی سمجھاتا ہے کہ یہاں کچھ بھی پورا نہیں۔

اس کائنات کے سر بستہ رازوں سے جیسے جیسے پردہ اٹھتا جائے گا،بہت سارے بت گرتے جائیں گے،سوچ بدلے گی، عقیدے ، کتابیں اور یقین ٹوٹ کر نئے سرے سے اکملیت اور جامعیت کی طرف گامزن ہونگے!

Advertisements
julia rana solicitors

خواجہ سرا! تم انسان ہو !
وقت کے کسی بھی لمحہ باہر نکلو، کام کرو۔ لوگوں سے ملو
کیا باہر پھرنے والے سب دھندہ کرتے ہیں؟
نہیں نا! تو پھر تم کیوں نہیں
تم انسان ہو پورے دل و دماغ کے ساتھ
تم ہوا خوری کے لئے بھی نکل سکتی ہو!
کسی سے ملاقات کے لئے
کسی دوست کے ساتھ چائے پینے جا سکتی ہو!
کیا دنیا صرف ان ادھورے لوگوں کی ہے؟
” نہیں ”
تم اگر چاہو تو
ارادہ اور محنت سے ان سے آگے نکل سکتی ہو۔اک ذرا سی جو کمی ہے!
اس کی ذمہ دار تم نہیں ہو
لگن سے آگے بڑھو!
ہاں اگر سب رستے بند ہوں!
بھوک سے مرنے لگو تو دھندہ کرنے میں کوئی حرج نہیں!
رقص اور گانے میں کوئی مضائقہ نہیں!
دیکھو ہم جو ہیں نا پورے لوگ
ہم ذہنی پستی کا شکار ہیں۔ ہماری باتیں دل پہ نہ لیا کرو۔بس ایک زندگی جو ملی ہے
اسے جی بھرکے جی لو،اس دنیا کو کچھ بن کے دکھادو!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply