• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تعبیر کی غلطی یا تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی؟۔۔ڈاکٹرمحمد شہباز منج

تعبیر کی غلطی یا تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی؟۔۔ڈاکٹرمحمد شہباز منج

گزشتہ کئی برسوں سے اپنے متعدد مضامین اور تحریروں میں ہم یہ واضح کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ناموس و توہینِ رسالت کے حوالے سے ہماری عمومی مذہبی فکر اور بطورِ خاص جلالی و رضوی صاحبان کا بیانیہ شرعی و سماجی ہر حوالے سے انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہے۔ لیکن یہ حضرات نہ صرف اپنے بیانیے کی غلطی ماننے کو تیار نہ تھے، بلکہ الٹااس بیانیے پر سوال اٹھانے والوں کو گستاخ ، یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ وغیرہ قرار دیتے رہتے تھے۔ سلمان تاثیر اور ممتاز قادری کیس میں ہمارا یہ موقف “الشریعہ” وغیرہ رسائل اور سوشل میڈیا میں مختلف جگہوں پر تکرار کے ساتھ شائع ہوا کہ سلمان تاثیر اپنے کسی قابلِ تاویل قول سے کسی توہین کا مرتکب ہوا بھی تھا (اگرچہ وہ خود اس کا انکار کرتا تھا، اور اس کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ میں حضورﷺ کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا،اور شرعی لحاظ سے یہ چیز ہی اس کو سزا سے بچانے کے لیے کافی تھی ) تو بھی ممتاز قادری کا اس کو ماورائے عدالت قتل کرنا غلط تھا۔مگر اس وقت دیوبندی ، بریلوی، اہلِ حدیث وغیرہ تمام مسالک کی عام رائے یہی رہی کہ ممتاز قادری نے درست اقدام کیا۔ اگرچہ تمام مسالک ہی عمومی طور ممتاز قادری کے اقدام کو تقاضائے عشقِ رسول باور کراتے رہے، لیکن اس کیس کے بطن سے جن لوگوں کا خصوصی مذہبی اور سیاسی جنم ہوا ، وہ مذکورہ دو حضرات ہیں۔ ان دو لوگوں نے اس جذباتی نوجوان کو جس طرح ہیرو بنا کر پیش کیا اس سے بچہ بچہ واقف ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ انھوں نے اپنی مذہبی ہی نہیں سیاسی شناخت بھی اسی ایشو کو بنا لیا۔

تحریک لبیک رضوی ہو یا تحریک لبیک جلالی ،گزشتہ جنرل الیکشن میں ہر ایک کے سیاسی پوسٹرز اور اشتہارات کے اوپر (جہاں سیاسی و مذہبی رہنما اپنے سیاسی و مذہبی قائد کی فوٹو لگاتے ہیں) ممتاز قادری کی فوٹو لگی ہوتی تھی ۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس مذہبی و سیاسی رہنما کا قائد ممتاز قادری ایسا جذباتی نوجوان ہو، اس کے اپنے وِژن اور مذہبی و سیاسی سمجھ بوجھ کا عالم کیا ہو گا! ذرا سوچیے ! جب آپ ممتاز قادری کو رہنما اور ناموسِ رسالت کے تحفظ کا استعارہ بنا کر سیاست کریں گے ،تو اس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ آپ ممتاز قادری کے اقدام کو غلط قرار دینے والوں کو ناموسِ رسالت کا مخالف قرار دے رہے ہیں! اس سے آپ کو سیاسی نقصان تو یہ ہوگا کہ آپ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنی سیاسی دعوت سے پہلے ہی دن خارج کر رہے ہوں گے۔ اور عوامی سطح پر اس کا تباہ کن نتیجہ یہ ہوگا کہ جو آپ کا ساتھی ہے، وہ ناموسِ رسالت کا محافظ ہے، اور جو آپ کے مذہبی بیانیے کو درست نہیں سمجھتا وہ ناموسِ رسالت کا مخالف ہے۔ ذرا سوچیے! کیا کوئی بھی مسلمان ناموسِ رسالت کا مخالف ہو سکتا ہے! اگر نہیں تو آپ نے اس نعرے کو سیاست کی بنیاد بنا کر اپنے سیاسی مخالفین کو مجرمانہ طور پر ناموسِ رسالت کے مخالف باور کرانے کی کوشش کی۔ یہ ان سارے پاکستانیوں کے مذہبی جذبات کی توہین ہے، جو آپ کے بیانیے کو درست نہیں سمجھتے۔ مگر ان نام نہاد علما نے ذرا نہ سوچا اور اپنی ضد پر ڈٹے رہے۔ممتاز قادری تو ایک جذباتی نوجوان تھا اور جس طرح مذکورہ اپروچ کے علما نے اسے مذہب سمجھایا وہ اس کے مطابق اقدام کر گزرا ( اللہ اس کو معاف فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے)،وہ اتنا بر خود غلط نہیں تھا ، جتنے یہ لوگ ہیں ، جو رہنمائی کے منصب پر فائز ہیں، لیکن اس کے باوجود اس انتہا تک پہنچے ہیں کہ ایک جذباتی نوجوان کے اقدام کو جس کی حمایت میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنے مذہبی جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی کم علمی کی بنا پر ایسا کر گزرا،یہ لوگ اسے اپنا سیاسی و مذہبی رہنما بنائے ہوئے ہیں۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک خبر پڑھی کہ اشرف آصف جلالی صاحب نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شان میں نازیبا کلمات کہے ہیں۔بعض دوستوں کی طرف سے انھیں ملعون اور گستاخ کہا جا رہا تھا۔ ان کا کلپ دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ انھوں نے یہ کہا تھا کہ فدک کے معاملے میں مسئلے کی حقیقت معلوم ہونے سے پہلے حضرت سیدہ خطا پر تھیں، بعد میں خطا پر نہ رہیں۔ یہ سننے کے بعد لوگوں کے اس معاملے پرمیرا موقف دریافت کرنے پر پر میں نے فیس بک پرصرف ایک مختصر سٹیٹس لگایا کہ:
پھنسا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیادآ گیا
اس کے بعد ایک اور سٹیٹس میں مختصراً لکھا کہ ان لوگوں کا مذہبی ورژن خود ان لوگوں کے گلے پڑ گیا ہے۔ خیال یہ تھا کہ یہ معاملہ جلالی صاحب پر تھوڑے بہت غصے اور لعن طعن کے بعد ختم ہو جائے گا ، لیکن جب خبر ملی کہ موصوف کو گرفتار کر لیا گیا ہے، اور حضرت اپنے حامیوں سمیت یہ بیانیہ پیش فرما رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ،ہماری بات کا مطلب غلط لیا گیا ، ہمیں تعبیر و تشریح کے حق سے محروم کیا گیا، تو ہم نے ضروری خیال کیا کہ انھیں اور ان کے پیروکاروں کو یاد دلایا جائے کہ کچھ عرصہ پہلے ممتاز قادری کیس میں یہی باتیں ہم کہتے تھے، تو یہ حضرات اور ان کے پیروکاروں ننگی گالیاں دیتے تھے۔ آپ سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ آپ کا اب والاموقف درست ہے یا تب والا۔ اب آپ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی کی بات کا مطلب اس سے پوچھنا چاہیے، جس نے وہ بات کی ہے، اس لیے کہ وہی اس کی صحیح وضاحت کر سکتا ہے۔ بہت اچھے، آپ بالکل درست نتیجے پر پہنچے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ رعایت صرف آپ کے لیے ہے ،یا اس کے لیے بھی ہے، جو صاحبِ جبہ و دستار نہ ہو، جس کے پیچھے فرقہ وارانہ اور مولویت کی عصبیت نہ ہو!

مجھے سرِ دست اس سے بحث نہیں کہ حضرت جلالی صاحب ! اپنے متنازعہ بیان میں آپ نے جو کچھ کہا وہ درست ہے یا غلط، میں اتنا جانتا ہوں کہ  اس بنیاد پر آپ کو گرفتار کرنا اور مقدمہ چلانا تو ایک طرف آپ کے کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا بھی کوئی شرعی و اخلاقی جواز موجود نہیں۔ اگر یوں قابل ِتاویل یا تعبیر کے اختلاف کی قبیل سے تعلق رکھنے والے الفاظ پر لوگوں کا پکڑا جانے لگے ،تو اس سے کوئی بھی نہیں بچ سکےگا۔ ان بنیادوں پر بڑی آسانی سے دیوبندیوں اور اہلِ حدیثوں کی ایک بڑی اکثریت کو گستاخِ رسول قرار دیا جا سکے گا ، بریلویوں کا خدا کے گستاخ اور مشرک اور شیعوں کو گستاخِ صحابہ و علی حذا القیاس۔

جلالی صاحب !آپ کو اِ س معاملے میں پکڑنےکے خلاف ہم آپ کے ساتھ ہیں، بشرطیکہ آپ دوسروں کو بھی یہی رعایت دینے کو تیار ہوں، اور اگر یہ معاملہ آپ صرف اپنے لیے مخصوص سمجھتے ہیں، تو پھر یہ پکڑا جانا معمولی ہے ، آپ کو زیادہ سخت طریقے سے پکڑا جا نا چاہیے، اور ان حالات سے گزارنا چاہیے ، جن سے وہ لوگ گزرے ہیں جن کو آپ نے ایسے ہی قابلِ تاویل اقوال پر نہ صرف گستاخ قرار دیا تھا، بلکہ ایسے لوگوں کے قتل کی حمایت کی تھی اور ایسے لوگوں کے قاتلوں کو ہیرو بنایا تھا اور اسی پر بس نہیں کیا تھا بلکہ اپنا سارا سیاسی و مذہبی بیانیہ ہی اس قاتلانہ اپروچ پر استوار کر لیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے اپنے بہت سارے جذباتی طلبہ اور دیگر احباب کو بار بار باور کرانے کی کوشش کی کہ نقطۂ نظر کا اختلاف الگ چیز ہے، آپ دلائل کی بنا پر کوئی بھی موقف اپنا سکتے ہیں، آپ کو اس کا حق ہے، لیکن آپ کو اس کے نتائج و عواقب کی کچھ تو سوجھ بوجھ ہونی چاہیے۔ میں اکثر کہا کرتا کہ رضوی و جلالی لوگ عوام اور بریلوی حضرات پر تو ظلم کرہی رہے ہیں، رونا اس پر آتا ہے کہ یہ اپنے اوپر بھی ظلم کر رہے ہیں۔ (ان لوگوں کے اپنے اوپر کیے ہوئے ظلم کے نتائج واضح ہو کر سامنا آنا شروع ہو گئے ہیں، یہ جس مسئلے کے تناظر میں اب ہم بات کر رہے ہیں یہ اسی ظلم ہی کا ایک مظہر ہے۔)
جناب عالی ! حالیہ مسئلے سے اگر آپ سمجھ گئے کہ بات بات پر گستاخ سازی اور ہر اس شخص پر فتوی جڑ دینا، جو آپ کی مخصوص و محدود اپروچ سے مختلف بات کہے، غلط اور اسلام و اہلِ اسلام کے لیے بالعموم اور بریلوی طبقے کے لیے بالخصوس سخت نقصان دہ رویہ تھا، تو اس مسئلے کا نتیجہ خیر ہو گا، اور اگر آپ اپنی ضد اور سابقہ مذہبی بیانیے پر ڈتے رہے ،تو لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ آپ تعبیر کی غلطی کا شکار نہیں بلکہ بقول غالب آپ کی شخصیت کی تعمیر ہی میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply